ہندوپاک وزرائے خارجہ کے درمیان اقوام متحدہ کی آئندہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ملاقات طے ہوجانے کےچند دن بعد ہی اس کی منسوخی قابل افسوس ہے ۔اس ملاقات کے طے ہونے سے دونوں ممالک کے امن پسند عوام اور خاص کر ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں میں یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی برسوں سے چلاآرہا تعطل ٹوٹ جائے گا اور مسائل کے حل کے حوالے سے بات چیت کی راہ ہموار کرنے کاموقعہ فراہم ہوگا، جس سے برصغیرمیں امن کے امکانات پیدا ہونگے تاہم اس کی منسوخی سے تمام ترامیدیں دم توڑ گئی ہیں ۔ بھارتی وزارت خارجہ نے شوپیان میں تین پولیس اہلکاروں کے قتل اور برہان وانی کے نام پر پاکستان میں پوسٹل اسٹیمپ جاری کئے جانے کو اشتعال انگیز قرار دیکرملاقات منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔وزارت خارجہ کاکہناہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور ایسے ماحول میں کوئی میٹنگ نہیں ہوپائے گی۔اس کے رد عمل میں پاکستانی وزیر خارجہ نے اس پیشرفت پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے بھارت پر بھی ایسے ہی الزامات عائد کئے ہیں ، جس کے بعد فوجی سربراہوں نے بھی سیاسی لہر پر خود کو سوار کرتے ہوئے ایسا دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا، جسے صرف جنگ کی زبان ہی کہا جاسکتا ہے۔قابل ذکر ہے کہ اوڑی حملہ کے بعد پہلی بار عمران خان کے پاکستانی وزیر اعظم بننے پر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے اشارے ملے تھے اور جہاں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے نئے ہم منصب کو مبارکبادی کا پیغام دیا وہیں عمران خان نے مکتوب تحریر کرکے بات چیت شروع کرنے کی دعوت دی جسے پہلے تو قبول کیاگیاتاہم رونماہوئے کچھ واقعات کا حوالہ دے کربعد میں اسے منسوخ کردیاگیا۔ملاقات کا منسوخ ہونا ریاست جموں و کشمیر کے عوام کیلئے بدقسمتی کا باعث ہے جو کافی عرصہ سے مصائب و مشکلات کاشکار بنے ہوئے ہیں اور جہاں وادی کشمیر کے اندرونی حالات مخدوش چلے آرہے ہیں وہیں بین الاقوامی سرحد اور حد متارکہ پر صورتحال متواترکشیدہ رہنے سے شہری و فوجی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ صورتحال کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت کو یہ سمجھناچاہئےکہ شرائط طے کرکے نہ ہی آگے بڑھاجاسکتاہے اور نہ ہی بات چیت شروع کی جاسکتی ہے ۔ حالیہ ایام میں شمالی و جنوبی کوریا کی مثال دی جاسکتی ہے، جو پون صدی سے زیادہ عرصہ سے جنگ و جدل کی صورتحال سے دو چار ہیں، لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے بعد مستقلاً متصادم رہنے کے نقصانات اُن پر اجاگر ہوئے اور بالآخر حال ہی میں دونوںممالک کے سربراہان ایک دوسرے کے گلے مل کر مسائل کے حل کی خاطر بات چیت پر آمادہ ہوئے ۔ برصغیر میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا، اس کےلئے دوونوں ممالک کی سیاسی قیادتیں جواب دہ ہیں۔ صرف ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے سے وجوہ کی وضاحت نہیں ہوسکتی۔ماضی میں بھی ہندوپاک قیادت کو بالآخر مذاکرات کی میز سجاکر ہی معاملات طے کرنے پڑے ہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ دیر سویر کشمیر سمیت دیگر موجود مسائل کے حل کی خاطر بھی بات چیت کاراستہ ہی اختیار کرناہوگا لہٰذا مزیدوقت ضائع کئے بغیر تمام تصفیہ طلب معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے کیلئے ایک ایک قدم آگے بڑھایاجائے جویاست خاص کرجموںوکشمیرمیں رہنے والے عوام پر بہت بڑا احسان ہوگا۔ملاقات کی منسوخی کے فیصلہ پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا یہ پلیٹ فارم پھر ایک سال بعد نصیب ہوگا۔