شیخ ولی محمد
تعلیم بالعمل / مدرسہ عمل( Activity Based Education)کے علمبردار ایک ایسے نظام تعلیم کے حامی ہیں، جس میں بچے ذہنی ، دماغی کاموں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور بھی مصروف عمل ر ہے۔ چنانچہ روسو، پسٹالوزی ، جان ڈیوی ، فروبل ،اڈلف فیریر ، رابندر ناتھ ٹائیگور ، غلام السدین وغیرہ ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اگر بچے کو کتابوں کے بجائے کسی ہاتھ کے کام میں مصروف رکھا جائے تو ہاتھ کے ساتھ ساتھ اس کے دماغ کی بھی تربیت ہوگی ۔ اسی لیے ان ماہرین نفسیات اور ماہرین تعلیم نے اس بات پر زور دیا کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اسکولوں میں مختلف ہنروں اور پیشوں کی تربیت دی جائے، جیسے دستکاری ، ترکھانی ، باغبانی ، پھولبانی ، جلدسازی وغیرہ وغیرہ ۔ خواجہ غلام السدین کا کہنا ہے کہ ’’ معلم کو صرف بچوں کی دماغی نشوو نما ء سے کوئی سروکار نہیں بلکہ اسے ان کی پوری شخصیت کی تربیت کرنی ہے ۔ جس میں جسم و دماغ اور روح سب شامل ہیں کیونکہ ان سب کا ایک دوسرے سے نہایت قریبی تعلق ہے ‘‘۔
تندرستی کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت (WHO)نے جو تعریف کی ہے وہ اس طرح ہے :
” Health is a state of complete physical , mental and social well – being and not merely an absence of disease or infirmity . Health is a state of body when all the organs and systems are functioning properly and a perfect balance is maintained between the environemnt and the body”.
یعنی ایک صحت مند انسان وہی ہے جو جسمانی ، ذہنی اور سماجی لحاظ سے مکمل اور ٹھیک ہو ۔دنیا کی تاریک پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ حقیقت واضح اور عیاں ہے کہ ابتدائی زمانے سے انسان سختی اور جفاکشی کا عادی رہا ہے ۔ درختوں کو کاٹنا ، گرانا ، چیرنا ، کنویں اور زمین کھودنا ، شہ سواری ، شکارکرنا ، زراعت وغیرہ اس کے مشغلے رہے ہیں ۔ کروڑوں برس سے انسان جس طرح اپنے اعضاء سے کام لے رہا ہے، ان کو یکایک تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔ عیش اور آرام سے زندگی گذارنا خلاف فطرت ہے ۔ دماغ اور ذہن کو تازہ رکھنے کے لیے اسکول میں کتابی کیڑوں کی طرح زندگی گزارنا ایک صحت مند قوم کی علامت نہیں ہے ۔ آج کے نظام تعلیم میں ایک اسکولی بچہ فقط کتابوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے ۔ دوسری طرف صبح سویرے اسکول بس اسے اپنے گھر سے اٹھاکر اسکول کے حوالے کرتی ہے اور چھٹی ہوتے ہی اسے دوبارہ گھر پر چھوڑتی ہے ۔ حدیہ ہے کہ 30/50کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے معصوم بچے تھکے ہوئے گھر پہنچتے ہی کتابوں کا بستہ دور سے ہی پھینکتے ہیں اور اس کے بعد والدین انہیں مزید پڑھائی کیلئے کسی ٹیوٹر Tuitor کے حوالے کرتے ہیں ۔ اس طرح بچے فقط ذہنی اور دماغی ورزش میںمصروف رہتے ہیں ۔ ان کی زندگی کا ایک بھیانک پہلو ناقص غذا ہے ۔ اکثر و بیشتر بچے ناشتہ Break Fastکے بغیر ہی اسکول جاتے ہیں ۔ ٹفن میں ان کا جو کھانا ہوتا ہے وہ بھی ’’ متوازن غذا‘‘ نہیں ہوتی ۔ فاسٹ فوڈ Fast Foodاور جنک فوڈJunck Foodنے ان کی صحت کو بُری طرح متاثر کر رکھا ہے۔ وادی کشمیر میں اسکولی بچے مختلف بیماریوں میں مُبتلا ہورہے ہیں ۔ شیر کشمیر انسٹچوٹ آف میڈیکل سائنسز SKIMS صورہ سرینگر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر شوکت احمد زرگر کے مطابق اسکولوں میں کی گئی ایک سروے میں یہ پایا گیا کہ 12% بچے جگر Liver Diseases کی بیماری میں مبتلا تھے ۔ ان کے مطابق وادی میں معدے کی بیماریوں میں مُبتلا ہونے کی ایک وجہ ناشتہ Break Fastنہ کرنا بھی شامل ہے جبکہ غلط لائف سٹائل Life Styleبھی کئی بیماریوں کی جڑ ہے ۔ جسمانی کام اور ورزش سے دور رہنے سے معصوم بچوں کی صحت بُری طرح متاثر ہورہی ہے ۔
بچوں کی مناسب جسمانی اور ذہنی نشو و نما کے لیے ورزش اور کھیل کود بہت ہی اہم ہیں ۔ یہ صرف ذہنی تفریح کا ہی باعث نہیں بلکہ اس سے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کی نشوونما اور عمدہ اخلاق کی تشکیل میں بڑی مدد ملتی ہے ۔ طلبہ میں حوصلہ ، صبر و تحمل کا مادہ ، فیصلہ سازی ، دوسروں کا احترام ، حق گوئی ، بے باکی ، خلوص ، فرض کا احساس اور عام لوگوں کی بھلائی کا احساس جیسی اچھی شائستہ قدریں پروان چڑھتی ہیں ۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میںجسمانی کھیلوں کا خصوصی اہتمام کرواتے ۔ ان میں نمایاں ترین اونٹوں اور گھوڑوں کی دوڑ اورنیزہ بازی کے مقابلے تھے۔ مدینہ میں ثنیۃ الوداع تک ایک چھ میل لمبا میدان گھوڑ دوڑ کی مشق کے لیے مخصوص تھا ۔ حضرت عمر ؓ ہمیشہ بچوں کو تیراکی ، نشانہ بازی اور گھوڑ سواری کی تعلیم کی تلقین کرتے ۔بچوں میں کھیل اور ورزش کے اہتمام کے لیے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ذاتی دلچسپی لیتے۔ آپؐ خود بچوں کو ایک قطار میں کھڑا کردیتے اور اپنے دونوں بازوں پھیلاکر بیٹھ جاتے اور فرماتے :’’ سب دوڑ کر ہمارے پاس آؤ جو ہم کو پہلے چھولے گا، اسے یہ اوریہ دیں گے‘‘۔ بچے بھاگ کر آپ ؐ کے پاس آتے ،کوئی آپ ؐ کے پیٹ پر گرتا ، کوئی سینہ اطہر پر ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو سینہ مبارک سے لگاتے ، پیا رکرتے اور انعامات سے نوازتے ۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’ قوی مومن ضعیف مومن سے بہترہے ۔‘‘یہ ہے اسلام میں تندرستی اور صحت مندی کی اہمیت ۔ چنانچہ جب تک دنیا میں اسلامی تہذیب کے عروج کا زمانہ رہا، مسلمانوں نے جسمانی تربیت کو حقیر اور ذلیل نہیں سمجھا ۔ بعد میں جب زوال کا دور آگیا تو جسمانی تربیت کے سخت کوش ورزش سے منھ موڑ لیا ۔ نیزہ بازی ، دوڑ ، شمشیرزنی ، کشتی وغیرہ کے بجائے مرغ بازی ، بٹیر بازی ، پتنگ بازی کو اپنا مشغلہ بنالیا ۔ اسکولی سطح پر جسمانی نشوو نما ، عضلاتی تناسب اور سماجی ترقی سے متعلق خصوصی باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے طلبہ کو مختلف نوعیت کی جسمانی ورزش سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث کرانا وقت کی اہم پکار ہے ۔ جن مفید کھیلوں سے مطلوبہ نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں ان میں تیراکی ، دوڑ ، جمناسٹک ، کبڈی ، کرکٹ ، فٹ بال ، والی بال ، بیڈمنٹن ، جوڈو ، اسکاوٹنگ ، کیمپنگ وغیرہ شامل ہیں ۔چنانچہ ڈیڑھ صدی قبل 1890میں کشمیر میںRevered Biscoe Tyndaleنے مشنری اسکول میں غیر نصابی سرگرمیوں میں ان کھیلوں کو شامل کیا تھا۔ اسکول میں بچوں کا طبی جانچ( Medical Check Up )کرانا لازمی حصہ ہے ۔ سرکار اور غیر سرکاری سطح پر صحت کے حوالے سے جو اسکیمیں چل رہی ہیں ،ان سے بھر پور استفادہ کیا جائے ۔ صحت کی تعلیم کے ذریعے طلبہ کو اس لائق بنانا ہوگا کہ وہ ذاتی صحت ، آلودگی کے مضر اثرات ، خوراک اور تغذیہ ، امراض کے روک تھام ، فرسٹ ایڈ ، ہوم نرسنگ اور حفاظتی اقدامات وغیرہ کے بارے میںقدرے تفصیل سے مطالعہ اور مشاہدہ کرسکیں ۔ ذاتی اور سماجی صحت کے بارے میں ضروری علم اور متعلقہ سرگرمیوں کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے ۔ ایچ ۔ آئی ۔ وی (HIV)اور ایڈز (AIDS)،کووڈ19یسی موذی بیماریوں کے بارے میں خصوصی بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو جنسی بے راہ روی منشیات اور دوسری تباہ کن چیزوں کے مہلک اور مضر اثرات سے بھی پوری طور پر باخبر کیا جانا چاہیے ۔