سرمائی ایام شروع ہوتے ہی ریاست کے مختلف علاقوں میں جنگلات سے متصل انسانی بستیوں کے اندر جنگلی جانوروںکی آمد رفت سے مکینوں کی پریشانیوں میں بے انتہا اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور آئے دن لوگوں پر ان کے حملوں کی خبریں سُننے کو ملتی ہیں۔ دو روزقبل ہی کولگام کی ایک پہاڑی بستی احمد آباد میں ایک معصوم بچی تیندوے کے حملے کا شکار ہو کر لقمہ ٔ اجل بن گئی ،جبکہ یہ بچی اپنے گھر کے صحن میں تھی اور خونخوار درندے نےاُسے گھسیٹ کر اس کی چھیڑ پھاڑ کر ڈالی۔ اس طرح کے واقعات پیش آنے سےایسی بستیوں میں لوگ رات کے اندھیرے میں گھروں سے باہر آنے سے بھی خوف کھانے لگے ہیںجبکہ بچوں کےلئے دن کے وقت بھی خطرات موجود رہتے ہیں ۔اگر چہ عام طور دیکھنے میں آیا ہے کہ موسم گرما ختم ہوتے ہی غذا کی تلاش میں وحوش پہاڑوں سے اُتر کر بستیوں کا رُخ کرنے لگتے ہیں تاہم اب کی بار تصادم آرائیوں کی خبریں کچھ زیادہ آنے لگی ہیں۔ گزشتہ دو مہینوں کے دوران کئی مقامات پر جنگلی جانوروں کو کئی کئی دنوں کی کوششوں کے بعد قابو کرکے متعلقہ محکمہ کے حوالے کیا گیا۔ عام طور پر انسان اور جانوروں کے درمیان تصادم آرائی کے واقعات میں انسانوں کے ساتھ ساتھ قدرت کی ان معصوم مخلوق کو اکثر تشدد کا شکار ہونا پڑ تاہے۔ ریاست کے مختلف علاقوں میں گزشتہ کئی برسوں سے جنگلی جانوروں اور انسانوںمیں ٹکراؤ ایک معمول بنتا جارہاہے اور اب تک کئی جانیں اس کی لپیٹ میں آچکی ہیں۔پہاڑوں اور جنگلات کے متصل علاقوں میںجانورں کے غول کے غول غذا کی تلاش میں بستیوں کا رْخ کرتے ہیں۔ چونکہ عام لوگوں کو قدرت کی ان مخلوقات ، جو عام طور پر بے ضرر ہوتی ہیں اور چھیڑ چھاڑ کے بغیر کسی پر حملہ آور نہیں ہوتے، کے ساتھ براہ راست تعلقات قائم کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا، لہٰذا جب یہ بستیوں کا رْخ کرتے ہیں تو لوگ بدحواس ہوکر میسرآلات ضرب لے کر ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ،جس کی وجہ سے اکثر یہ بے زبان جوابی حملے کرکے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔بہت ہی کم واقعات ایسے پیش آتے ہیں، جہاں کوئی جانور اپنے اعصابی توازن سے محروم ہوکر آدم خوری پر اْتر آتا ہو اور ایسے حالات میں متعلقہ حکام اْس وقت ایسے جانورکوبنی نوع انسان کے لئے نقصان دہ معلن کرکے اس کی ہلاکت کا حکم صادر جاری کرتے ہیں مگر ماہرین اور جنگلی جانوروں سے مدبھیڑ کا تجربہ رکھنے والے لوگوں کے مطابق ،جب کوئی جانور غذا کی تلاش میں کسی بستی کی طرف نکل پڑتاہے۔ عام لوگوں اور وحشیوںکے مابین ایک دوسرے کی حرکات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے تصادم آرائیوں کی نوبت آتی ہے نیز بھوک سے بے حال ان حیوانوں کا وحشیانہ پن اْبھر کر سامنے آتاہے جو بعض اوقات انسانوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتاہے۔ ایسے واقعات میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران کئی ہلاکتیں پیش آئی ہیں تاہم ان ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر جنگلات کے متصل علاقوں میں آباد لوگوں کو فطرت کے اصولوں کے مطابق جنگلی حیات کے ساتھ بقائے باہم کی مناسب معلومات اور تربیت فراہم کی جائے تو یقینی طور پر ان تصادموں کو روکنے یا انہیں کم کرنے کی کوئی سبیل پیدا ہوسکتی ہے۔اخبارات میں آئے روز ریاست کے مختلف علاقوں میں ریچھوں اور تیندووںکی ہڑبھونگ کے حوالے سے بار بار خبریں شائع ہورہی ہیں جس سے بعض اوقات تصادم کی صورتحال بھی پیداہوتی ہے اور لوگوں میں خوف وہراس بھی پھیل گیا ہے۔ جنگلی جانوروں کے بستیوں کی جانب بھٹکنے کے معاملے میں جنگلات اور ان کے گردونواح میں موجود اْن کی آماجگاہوں میں دن بہ دن کمی واقع ہونے کا رْجحان کلیدی طور پر کارفرماہے۔جنگلاتی علاقوں میں انسان کے تجاوزات خواہ وہ زرعی سرگرمیوں ، تعمیروترقی یا سیکورٹی ضروریات کے حوالے سے ہورہے ہوں ، اپنی آماجگاہوں سے بے دخلی کا سبب بن جاتے ہیں ،نتیجتاً ا ن کا رْخ بستیوں کی جانب ہو جاتاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگلی جانوروں کی آماجگاہوں کے تحفظ کو سنجیدگی کے ساتھ لے کر ، ایسے علاقوں کو انسان کی دست برد اور دخل اندازی سے محفوظ کیا جائے وگرنہ ماحولیاتی عدم توازن میں مزید سنگینی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ، جو کم ازکم کائناتی اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔ آج بھی اگر تاریخی مخطوطات کا مطالعہ کیا جائے تو بھارت کی راجدھانی دِلّی کے پرانے شہر کے قرب وجوار میں انواع واقسام کے خوبصورت جنگلی چرندوں وپرندوں کی موجودگی کا وافرذکر ملتاہے ،لیکن آج وہاں ان مخلوقات کو دیکھنے کے لئے چڑیا گھر کا رْخ کرنا پڑتاہے۔ جموں وکشمیر جو صدیوں سے قدرت کی ان مہربانیوں سے مالامال رہاہے ، میں بھی آئندہ ایام میں ایسی ہی صورتحال پیدا نہ ہو ، اس کے بارے میں یہاں کی حکومت اورعوام کو سنجیدگی اوردردمندی کے ساتھ غور وفکر کرنا ہوگا۔اگر ایسا نہ ہوا تو ہمیں آئے روز احمد آباد کولگام کی ارفاد جان جیسی معصوم جانوں کے زیاں کا خدشہ درپیش رہےگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور عوام تعاون اور ہم آہنگی کے ذریعہ اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔