وحشی سعید کی افسانہ نگاری کے بارے میں بھی میری یاکسی اور کی رائے نہ تو حتمی ہوگی اور نہ قطعی اس لئے کہ افسانہ میں افسانہ نگا ر ، محض افسانہ نہیں بیان کرتا بلکہ اپنے ماحول معاشرہ اور ثقافت کے اندرنمو پذیر ہونے والے کسی بھی نو عیت کے رشتہ ، جذبہ، احساس ،تجربہ یا مشاہدہ اور معاملات (ڈسکورس)کی فنی و جمالیاتی صورت گری کرتا ہئے ۔ لفظ ،لفظ صورت گری کے اس عمل سے جو قلم کار مردانہ وار گذر جانے کا ہنر اور حوصلہ رکھتا ہئے وہی اپنی تحریر کو ’’افسانہ‘‘بنانے میں کامیاب ہوتا ہئے اور وحشی سعید میں یہ ہنر، یہ حوصلہ ہے۔ یہ میں نہیں ان کے افسانوں کی زندہ ، متحرک اورخود نگر زبان بو لتی ہئے جو ان کے بیانیہ کی شہ رگ ہے ۔وحشی سعید نے افسانہ نگاری کا شوق کم وبیش پنتیس چالیس سال قبل پالا تھا لیکن وہ افسانوں کے ساتھ ساتھ ناول اور ناولٹ بھی لکھتے رہے اور آج کی تاریخ میں فکشن نگاری ان کی فطرت کا لازمہ بن چکی ہے۔اپنے افسانوی مجموعہ ’’سڑک جا رہی ہے‘ ‘میں شامل افسانہ’’نیلام‘‘کے راوی کی زبانی وحشی سعید خود کہتے ہیں۔ ’’میں وقت کے چرخے میں خون جگر کی داستان لکھتا رہا۔کبھی اس داستان میں فاروق بھی شامل تھا ۔حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے کہانیاں لکھنے کا شوق ہی نہ تھا ۔نئے نئے کردار ،نئے نئے انداز سے پیش کرنے کا جذبہ نہ تھا، فاروق (نازکی) کی شاعری نے مجھے کہانیاں لکھنے پر اکسایا ۔ پھرزندگی کے اچھے برے کردار آتے رہے ۔‘‘ افسانہ ۔۔۔۔۔نیلام ۔۔ص۔۔۹۵۔
غالباًًتیس پنتیس سال قبل وحشی سعید کا ایک مختصر افسانوی مجموعہ شائع ہوا تھااور میں نے کشمیر یونیورسٹی کے مجلہ ’’بازیافت ‘‘میں اس پر تبصرہ بھی لکھا تھا لیکن پھر وحشی سعید کی تخلیقیت کی جھیل ڈل اُلٹی سمت میں بہتی ہو ئی کہیں دور نکل گئی، لیکن ادھر ادھر افسانہ کی شکل میں وحشی سعید کی ’’تخلیقیت‘‘ کی لہریں سر اٹھاتی بھی رہیں۔یہی وجہ ہے کہ کشمیر کی ادبی محفلوں میں جب بھی وادی کے افسانہ نگاروں کا ذکر چھڑتا نورشاہ ، علی محمد لون ، حامدی کاشمیری ، پریم ناتھ پردیسی ، پریم ناتھ در ، پشکر ناتھ ، کلدیپ رعنا ، عمر مجید ، وجیہہ اندرابی اور مخمور بد خشی وغیرہ کے ساتھ ساتھ وحشی سعید کا نام بھی لازمی طور پر لیا جا تا تھا ۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وحشی کے مذکورہ افسانوں میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا جو انہیں ادبی محفلوں میں زندہ رکھے ہوئے تھا لیکن جیسا کہ ذکر ہوا خود افسانہ نگارو وحشی سعید کہیں پس ِ منظر میں گم ہوگیا تھا۔ اکیسوی صدی کی پہلی دہائی تک آ خرش انکشاف ہوا کہ وحشی سعید کے تخلیقی سوتے خشک نہیں ہوئے تھے بلکہ اپنے بہاؤ کے نئے راستوں کا انتظار کر رہے تھے ۔ آج تک وحشی سعید کے کئی افسانوی مجموعے ،نا ول اور ناولٹ تھوڑ ے تھوڑے وقفے سے سامنے آتے رہے ہیں مثلاً’’غم کی رات ‘‘’’منزل اور تلاش ‘‘ ’’الٹا انسان‘‘’’خون اور محبت ‘‘اور’’ قحط ‘‘وغیرہ ۔ ظاہر ہے کہ یہ افسانے ،ناول اور ناولٹ الگ الگ وقتوں میں لکھے گئے ۔ ان کے موضوعات ،اسالیب اورتخلیقی واظہاری رویوں سے ایسا ہی لگتا ہے ْوحشی سعید کا اصل نام محمد سعید ترمبو ہے ۔وحشی سعید ان کا قلمی نام ہے۔ان کی پیدائش ایک خوش حال گھرانے میں ہوئی ،موصوف شہر سرینگرکے مشہور سیاحتی مرکز بلیوارڈ میں واقع ایک شاندار فائیو اسٹار ہوٹل’’ شہنشاہ‘‘ کے مالک ہیں اور یہ ہوٹل کشمیر میں ادبی سرگرمیوں کااہم ترین مرکز بھی ہے۔ جہاں آئے دن ادبی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں ۔وحشی سعید صاحب کی سر پرستی میں ایک معیاری ادبی رسالہ ’’نگینہ ‘‘ بھی پابندی سے شائع ہو رہا ہے۔
وحشی سعید کا ایک اہم افسانوی مجموعہ ’’سڑک جا رہی ہئے‘‘ کے نام سے جون ۲۰۱۴۔ء میں شائع ہوا ۔ جس ماحول، معاشرہ اور ثقافت میں وحشی سعید کی تخلیقیت پروان چڑھی ہے ، وہ دہلی اور ممبئی یا لاہور اور کراچی جیسے ادبی مراکز کے ماحول معاشرہ اور ثقافت سے بڑی حد تک مختلف ہے۔ حالانکہ وحشی سعیدکے افسانوی مجموعہ’’سڑک جا رہی ہے‘‘میں اکثر افسانوں کا میدان عمل یا جائے وقوع ممبئی دہلی اور حیدر آباد جیسے ترقی یافتہ شہر بھی ہیں جہاں کا سیلیکون سماج اور ثقافت ریاست جموں و کشمیر کے سماج اور ثقافت سے مختلف ہے۔اس ضمن میں ’’ہڑتال،جب ممبئی جھک جائے گی،الجھے لمحے،یاد،دل والی،احساس کا گھاؤ‘‘ وغیرہ افسانے اہم ہیں ۔ممبئی دلی وغیرہ کے سماجی اور ثقافتی کھو کھلے پن کی تصو یر کشی اس انداز میں کی ہے گویا وحشی سعید کی زندگی انھیں خرابوں میں گذری ہو :’’جب ممبئی جھک جا ئے گی ، تو تاج محل ہوٹل کی شاندار عمارت کہاں ہو گی۔۔۔۔اس میں ٹھہرنے والے لوگ کہاں ہوں گے ۔ممبئی کی دھرتی میں ان کے ایسے راز بھی پوشیدہ ہیں جن کے افشاء ہوتے ہی ان کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا ہو گا ‘‘
جب ممبئی جھک جائے گی ۔۔ص۴۹۔
’’ممبئی رنگین تھی ۔اس رنگین دنیا میں طاہر کی توجہ کا مرکز بہت سی لڑکیاں تھیں لیکن جودھ پور کی حسینہ اس کے دل پر قابو پا گئی ‘‘افسانہ ۔الجھے لمحے(ص ؍۵۵)۔’’فلم اسٹوڈیو کے پاس جو چھوٹا اور واحد ریسٹورنٹ تھا ،وہ احمد خان کا تھا احمد خان اس کا سب کچھ تھا بیرے سے لے کر مالک تک کے سب فرائض وہ انجام دیتا تھا ‘‘( یاد؍ص۸۱) ۔اپنی نگوڑی قسمت ہی ایسی ہے ۔پان دان سے پان اُٹھاتے ہوئے چھوٹی بیگم نے بوڑھی نوکرانی نے سکینہ سے کہا ۔سکینہ نے پان دان کا ڈھکن بند کرتے ہوئے کہا:ایو بیگم صاحبہ ، آپ کو اس کا علاج کرنا چا ہئے (وارث کی تلاش؍ص ۹۹)
اپنی ذاتی زندگی میں وحشی سعید ایک شریف النفس اور وضع دار انسان ہیں ۔ انسانی قدروں کا احترام ان کی شخصیت اور فن کو تقدس بخشتا ہے:’’انسانی ضمیر،ایمان داری ،انسانی اقدار وغیر ہ صفات کے زوال نے ایک طرف تو انسان کو حیوان بنا دیا ہے ، دوسری جانب اس زوال ِآدم کے سبب معاشرے کے ہر شعبے میںخود غرضی ، مفاد پرستی ،بدعنو انی اور فرقہ واریت کی اثر پذیری ایک چیلنج ثابت ہو رہی ہے ۔انسانی تشخص کے اس بحران کے خلاف پوری دنیا کے ادیب و دانشور صف آرا ء ہیں اردو کے کئی دوسرے ادیبوں اور دانشوروں کی طرح وحشی سعید کے افسانوں میں بھی اس صورت حال کے خلاف تشویش و احتجاج ملتا ہے لیکن بڑے ہی فن کا رانہ انداز میں۔وحشی سعید کو اس بات کا احساس ہے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی بد عنوانی ،بے ایمانی اور ضمیر فروشی کے رحجانات اگر عام ہیں تو اس کی جڑیں ہمارے ،اخلاقیات سے عاری سماجی اور معاشی نظام میں پیوست ہیں ۔ایمانداری کی راہ پر چلنے والوں کو حالات ’’گناہوں کاپجاری ‘‘کے مرکزی کردار رشید کی طرح آخر کار ایمان فروشی کی راہ پر چلنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ بے ایمانی کی دنیا کے بادشاہ دھنی رام کے پاس آکر باضمیرانسان رشید آکر کہتا ہے: ’’ ہاں،آگیا ہوں ۔۔۔۔۔۔اپنے ایمان کے پیرہن کو چاک کر کے آگیا۔ضمیر کی زبان کاٹ کررکھ دی ۔اصولوں کوبے حس کر دیا اور احساسات کو قتل کر دیا اور اب میں بے ایمانی کے راستے پر چلنے کے لئے آمادہ ہوں ۔ ‘‘ (گناہوں کا پجاری؍ص۹۱)
وحشی سعید کے افسانوی مجموعہ ’’سڑک جا رہی ہئے میں شامل ایک افسانے کا عنوان ’’بھنگی ‘‘ہے ۔عنوان پر نظر پڑتے ہی کرشن چندر کے ’’ کالو بھنگی ‘‘کی یاد آناایک فطری امر ہے اور سوچا جاسکتا ہے کہ جس طرح
سریندر پرکاش نے پریم چند کے ’’ہوری ‘‘اور شوکت حیات نے گھیسو اور مادھو کو لے کر افسانہ میں متن پر متن قائم کرنے کی مثالیں پیش کی ہیں ،اسی طرح وحشی سعید نے بھی کرشن چندر کے کالو بھنگی کے کردار کولے کر متن پر متن قائم کیا ہے لیکن یہ سچ نہیں ۔ دُرست ہے کہ وحشی سعید نے سماج کے انتہائی نچلے اور ناپسندیدہ طبقے کے ایک فرد کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے لیکن کرشن چندر کے کالو بھنگی اور وحشی سعید کے صمد بھنگی میںفرق ہے۔کالو بھنگی کرشن چندر کا گھڑا ہوا افسانوی کردار ہے لیکن صمد بھنگی سماج کا ایک جیتا جاگتا انسان ہے ۔ کالو بھنگی کرشن چندر کا ذاتی ملازم ہے جو بھنگی پیدا ہوا اور بھنگی ہی رہنا چاہتا ہے۔اس کی صرف ایک ہی خواہش ہے کہ افسانہ نگار کرشن چندر کبھی اس کی بھی کوئی کہانی لکھ دے ۔کرشن چندر کو کالو بھنگی سے ہمدردی ہے لیکن کرشن چندر ، کالو بھنگی یا عام بھنگیوں کے قابل رحم سماجی حا لات بدلنے کے بارے میں ا پنی کوئی تعمیری رائے دیتے نظر نہیں آتے ۔ اس کے بر عکس وحشی سعید سماج کے اس طبقاتی نظام پرہی چوٹ کرتے ہیں جس نے بھنگیوں کو ہتک آمیز زندگی جینے پر مجبور کر دیا ہے۔وحشی سعید ’’بھنگی ‘‘جیسے ان تمام الفاظ کو ہی لغت سے خارج کردینے پر اصرار کرتے ہیں جن پر ہمارے سماج نے گندے گھناؤنے معانی کے لحاف چڑھا دئے ہیں :’’بھنگی کا لفظ جب زبان پر آتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہونٹوں تک ایک گالی چلی آئی ہے ۔اگر میں نے اردو زبان کی لغات کو مرتب کیا ہوتاتو اس لفظ کو کبھی شامل نہ کرتا ۔لفظ کبھی برے نہیں ہوتے ،در اصل یہ انسانی ذہن ہے جو لفظوں کو برا بناتا ہے اور ان کو ایک ایسے ماحول کے سپرد کر دیتا ہے جہاں لفظوں کی اصلیت پر گندا لحاف چڑھ جاتا ہے ۔جب بھی میں لال چوک کی سڑک سے ٹانگے پر سوار گھر کی طرف جاتا تو کسی نہ کسی بھنگی کو سڑک صاف کرتے ہوئے دیکھتا ۔ایسے لمحات پر اکثر آدمیوں کے منہ لٹک جاتے ۔تب میرا دل چیخنے لگتا اور میں خود سے کہتا :اُٹھو اور لفظوں کا گندہ لحاف اتار کر پھینک دو ‘‘(بھنگی ص؍۷۲)کئی اعتبار سے وحشی سعید کا افسانہ’’بھنگی ‘‘کرشن چندر کے ’’کالو بھنگی ‘سے کئی زیادہ بہتر افسانہ ہے ۔کالو بھنگیراضی برضا کردار ہے ،جو نہ کچھ سوچتا ہے نہ چاہتا ہے،اگر اس کی کوئی چاہت ہے تو بس یہ کہ افسانہ نگار (کرشن چندر)کبھی اس کی بھی کہانی لکھ دے ۔اس کے بر عکس وحشی سعید کا صمد بھنگی حو صلہ مند اور دور اندیش شخص ہے ۔صمد بھنگی بڑے یقین کے ساتھ کہتا ہے:’’نہیں بابو ،وہ بھنگی نہیں بنے گا ۔ وہ آپ کی طرح بہت بڑا آدمی بنے گا ۔میں اس کو خو ب پڑھاؤں گا‘‘۔ وحشی سعید کے افسانہ بھنگی کا اختتامیہ بے حد درد ناک اور متاثر کن ہے :’’پھر ۔۔۔۔۔۔۔ ایک دن۔۔۔۔۔صمد کا بیٹا ،لال چوک کی سڑک صاف کرتے ہوئے ایک موٹر کی زد میں آگیا ۔معصوم بچے کا خون سڑک پرپھیل گیا۔صمد بت کی طرح کھڑا رہا
وہ صرف اتنا کہہ سکا:میں اس کو وہ نہ بنا سکا جو وہ بننا چاہتا تھا ۔اس لئے خدا نے اس کو واپس بلالیا ‘‘دوسرے دن میں نے صمد کو سڑک پر اُنے ہی بیٹے کے خون کے دھبوں کو صاف کرتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ۔۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔ بھنگی تھا ۔‘‘( بھنگی ص؍۷۴)
چونکہ وحشی سعید کے افسانے اکیسویں صدی کی پہلی دوسری دہائی میں سامنے آئے ہیں لیکن ساخت موضوعات اور بنت کے اعتبار سے ان کے ( سڑک جا رہی ہے ) کے افسانے کئی جہتوں سے بیسویں صدی کے ( احمد ندیم قاسمی ،اقبال مجید ،رام لعل، جوگندر پال اور نور شاہ وغیرہ) نمائندہ افسانہ نگاروں کے افسانوں سے جدلیاتی رشتہ رکھتے ہیں دوسرے لفظوں میں فنی ،فکری اور اسلوبیاتی اعتبار سے وحشی سعید کیافسانوں کی سڑک کشمیر سے شروع ہو کر برصغیر ہند و پاک کے مختلف شہروں اور گلی کوچوں تک پہنچتی ہے۔وحشی سعید کا افسانہ ’’سڑک جا رہی ہے ‘‘اس مجموعے کا آخری افسانہ ہے ۔ انہوںنے اسی کو اپنی کتاب کا سرنامہ بھی بنایا ہے ۔ یہ عنوان استعاراتی ضرور ہے لیکن مذکورہ افسانہ استعاراتی نہیں بن پایا ہے حالانکہ اس افسانے کے پہلے پیراگراف میں وحشی سعید نے تمثیلی فضا قائم کی ہے:’’موسیٰ محلے میں پہلی بار پختہ تارکول کی سڑک جا رہی ہے۔بل کھاتی ہوئی اس سڑک کے کنارے ایک مکان کھڑا ہے، ایک ایسا مکان جو خود بھی ایک تمثیل بن کے رہ گیا ہے ۔اب تو اس مکان نے اپنے ساتھ ایک مخصوص نام بھی لپیٹ لیا ہے ۔ (خونی بنگلہ)۔ افسانہ کے اس ابتدائی ساختئے میں سریت ۔تجسس ار ڈرامائیت کے عناصر ہیں ’’۔ خونی بنگلہ‘‘ کے اندر سے علامتی اور استعاراتی ا سلوب میںتمثیلی اور داستانی افسانہ بنا جا سکتا تھا ۔اس افسانہ میں اس کے لئے خام مواد موجود بھی ہیں مثلاًپُراسرارعمارت ،مغل دور،انگریزوں کا اقتدار ،جاگیر دارانہ نظام ، دوسری جنگ عظیم، بے جوڑ شادی، جنسی نا آسودگی ، طوائف اور فرسودہ اخلاقیات وغیرہ لیکن ان سب کے باوجود دو قدم آگے چل کر کہانی نہ تو تمثیلی رہ جاتی ہے نہ داستانی، پھر بھی افسانہ کے اخیر کا ایک جملہ کہانی میں افسانویت پیدا کر دیتا ہے ۔ کہانی کابوڑھا کردار ہری لال اپنی جوان بیوی نینا کی بے وفائی سے بد دل ہو کر بھکاری بن جاتا ہے اورنینا اپنے ہی سوتیلے بیٹے کے ساتھ میاں بیوی کی طرح رہنے لگتی ہے اور ایک دن جب اچانک بھکاری ہری لال کے سامنے برج اور نینا میاں بیوی کی طرح آتے ہیں تو حیرت اور صدمے سے ہری لال پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے : ’’مگر جب بھکاری کی نگاہوں نے ان کو دیکھا ’’تم‘‘مگر وہ آواز اُبھر نہ سکی ۔بوڑھے کی زندگی صلیب پر چڑھ گئی ۔‘‘
اس افسانہ ’’سڑک جا رہی ہے‘کی معنویت کی تہوں کو کھولنے کے لئے اسے تمثیلی یا داستانی طور پر نہیں بلکہ IRONY کے طور پر پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اخلاقی نظام سے محروم ہوتی نئی تہذیب کی ’’ نئی سڑک‘‘ انسان اور انسانیت کو زوال کی کن حدوں تک لے جا ئے گی کچھ کہا نہیں جا سکتا ،لیکن یہ ’’سڑک جا رہی ہے ‘‘ ۔وحشی سعید اس کا احساس دلانا چاہتے ہیں ۔افسانوی مجموعہ ’’سڑک جا رہی ہے‘‘ میںشامل افسانوں کے حوالے سے وحشی سعید کی افسانہ نگاری کے اور بھی کئی امتیازات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے لیکن یہاں صرف ایک اور اضافی رائے کا اظہار کر کے گفتگو کو سمیٹنا بہتر ہوگا۔فکشن کے مشہور نقاد تودوروف کے مطابق افسانہ یا ناول میں تین جہات کاہونا ضروری ہے۔۱۔معنیاتی جہتSEMANTIC) ( یعنی مواد کی جہت ۔۲۔نحویاتی جہت )SYNTACTICAL) یعنی کہانی کے مختلف اجزاء میں ترتیب کی جہت ۔۳۔لفظیاتی جہت (VERBAL) یعنی لفظوں اور ترکیبوں کے خصوصی استعمال کی جہت اور وحشی سعید کے افسانوں میں یہ تینوں جہات یکجا ہو کر ان کے افسانوں کو فنی اور جمالیاتی ،لسانی اور موضوعاتی ہر اعتبار سے اہم بنا تے ہیں ۔
رابطہ 09419010472