آج آٹھویں روز بھی سارا گاؤں سکینہ کی تلاش میں علی الصباح نکل گیا۔ سکینہ، جو پچھلے آٹھ روز سے گھر نہیں لوٹی تھی، اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی ۔ نہایت ہی خوبصورت اور خوش مزاج۔ تلاش کے دوران کچھ لوگوں نے جنگل میں ہچکیوں کی آوازیں سنیں ۔ قریب جا کر دیکھا تو خون میں لت پت سکینہ بلک رہی تھی ۔ سب کی آنکھیں اس کی یہ حالت دیکھ کر پھٹی کی پٹھی رہ گئیں۔ اس کمسن کی حالت دردناک تھی ۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں کے ملاحظے کے بعد جب یہ پتہ چلا کہ انسانی شکل میں کچھ درندوں نے اس دس برس کی معصومہ کی عصمت ریزی کی ہے تو سارے علاقے میں غم و الم کا ماحول چھا گیا ۔ سکینہ کے والدین پر سکتہ طاری ہوگیا ۔ سکینہ کی دردناک چیخوں نے ساری فضا کو ماتم زدہ کردیا۔ کچھ روز اسی عذاب میں سانس لینے کے بعد بالآخر وہ خاموش ہو گئی ۔
پولیس نے ان درندوں کو جب گرفتار کیا تو ایک وحشی بھیڑ جمع ہوئی جو ان درندوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی تھی کیونکہ سکینہ ان کے مذہب کی بیٹی نہیں تھی ۔ ان سے یہ کوئی نہیں کہہ پایا کہ بیٹی کی عزت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔
اس بھیڑ میں شامل لوگ ان درندوں کے رشتہ دار ، دوست ، گندی سیاست کے پجاری اور کچھ بےوقوف تھے جو صرف اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے اس بھیڑ کا حصّہ بن چکے تھے ۔ مادیت پرستی کی آگ میں اور گندی سیاست کے دلدل میں کس قدر انسان گر چکا ہے وہ اس بھیڑ سے صاف جھلک رہا تھا ۔ انسان جس کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل تھا آج اپنی قدروں سے بہت نیچے گر چکا ہے ۔
ٹونی بھی اس بھیڑ کا اہم حصہ تھا جو خود دو بیٹیوں کا باپ تھا اور اپنے سیاسی آقا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے آیا تھا تاکہ اسکے بھائی کو نوکری مل سکے ۔
سکینہ کی دردناک چیخیں اب بھی فضا میں گونج رہی تھی اور اپنے انصاف کیلئے سب سے گزارشات کر رہی تھی تاکہ پھر کوئی لڑکی سکینہ کی صورت میں سامنے نہ آئے۔ مگر یہ اندھی بہری وحشی بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی اور ہونٹوں میں سگریٹ دبائے اس بھیڑ کے آقا دور بیٹھے تماشہ دیکھ رہے تھے ۔
دن بھر کافی ہنگامے کے بعد بھیڑ کم ہوتی گئ ۔ ٹونی بھی شام ہوتے ہوتے اپنے آقا کی طرف نکل پڑا تاکہ اس کو دن بھر کی خاص خبروں سے آگاہ کرے ۔ وہاں پہنچا تو وہاں کوئی نہیں تھا ۔ اب وہاں سے نکل کر گھر کی راہ لی ۔ راستے میں شراب کی دکان کے پاس آقا کی گاڑی کھڑی دکھائی دی ۔ جب قریب گیا تو اس کا سیاسی آقا کافی پریشان دکھائی دے رہا تھا ۔ ٹونی کو دیکھتے ہی وہ کانپ گیا ۔
" کیا ہوا صاحب ۔۔ سب ٹھیک ہے نا ۔۔ ۔ "
" ہ ۔ ہاں ۔۔۔ "
" وہ میں خبر لے کے آیا تھا ۔۔۔ "
" تم جاو ٹونی ۔۔ کل آنا "
اور وہ چلا گیا ۔ ٹونی کچھ سمجھ نہیں پایا اور گھر کی طرف چل دیا۔ جب گھر کے قریب پہنچا تو اندر سے زور دار آوازیں سنائی دیں ۔ کوئی آہ و زاری کر رہا تھا۔ جب بھیڑ کو چیرتا ہوا آگے بڑھا تو اس کے ہوش اڑ گئے ۔ اسکے سامنے اسکی بیٹی کا لہولہان جسم پڑا تھا۔ اسکی بیوی نے جب اسے دیکھا تو پاگلوں کی طرح اس پر جھپٹ پڑی ۔
" وحشی ۔ قاتل ۔ ۔ یہ دیکھ تیرے آقا نے کیا کر دیا "
ہندوارہ ،شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی
رابطہ؛9596253135