عالمی انتہا پسندی کے نتیجے میں ہو رہے خون خرابے کے پس منظر میں لکھی گئی وحشی سعید کی طویل کہانی ’’سزا کس جرم کی‘‘۔ وطن سے محبت کے اظہار کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ انتہا پسندی کی نہ تو کوئی سرحد ہوتی ہے اور نہ مذہب۔ انسانی خون بہانے والے جنونی انتہا پسند کا تعلق کسی بھی ملک اور مذہب سے نہیں ہو سکتا ہے۔ انتہا پسندی کے نظریات کو گذشتہ نصف صدی کے دوران جو زبردست فروغ ملا ہے انسانیت اس سے خوفزدہ بھی ہیں اور شرمندہ بھی۔ خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے نتیجے میں آج تک ہزاروں نہتے اور بے گناہ انسانوں کا خون بہایا جاچکا ہے۔ ان میں پھول جیسے معصوم بچے ، خواتین اور بزرگ لوگ شامل ہیں۔ بھارت میں تیزی سے فروغ پارہی انتہا پسندی لوگوں کیلئے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ بابری مسجد کے انہدام نے انتہا پسندوں کے افسروں کوجِلا بخشی ہے اور ان کی سرگرمیوں میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
حالات کی مجبوری کے باعث ہجرت اور دلوں میں وطن کی محبت کے موضوعات پر اردو کے معروف ادیبوں نے بہت سی کہانیاں لکھی ہیں اور انہیں مقبولیت بھی حاصل ہوئی ہیں۔وحشیؔسعید کی کہانی اسی سلسلہ میں ایک اضافہ ہے جو بابری مسجد کی مسماری اور اس کے بعد رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کا احاطہ کرتی ہوئی وطن کی محبت کو اْجاگر کرتی ہے۔ کہانی کے مرکزی کردار فرقان، اس کا بیٹا سکندر اور اس کی بیوی سبھی اجودھیا سے محبت کرتے ہیں۔ اس کی مٹی سے انہیں محبت ہی نہیں عقیدت بھی ہے۔ اسلئے کہ اس مٹی میں ان کا جنم ہوا اور اسی مٹی میں انہیں دفن ہونا ہے۔ سکندر کی زبان سے ادا ہوئے ان جملوں سے اجودھیا سے اس کے قلبی لگائو کا اظہار ہوتا ہے۔
’’مجھے تو ہر روز خیال آتا ہے کہ ممبئی چھوڑ کراجودھیا چلا جائوں‘‘
’’اجودھیا میری روح ہے ، رفاقت ہے جس ڈر سے ہم اجودھیا چھوڑ کر بھاگے تھے وہ حادثہ یہاں بھی تو ہوگیا‘‘
’’اگر ابا اجودھیا چھوڑ کر نہ آئے ہوتے تو شاید ہمارے سب گھروالے زندہ ہوتے ‘‘
’’جہاں خطرہ ہوتا ہے وہ ہاں تحفظ کی راہیں بھی ہوتی ہیں۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں وہیں رہ کر حالات کا سامنا کرنا چاہئے تھا سب اپنے ہی تو تھے۔ وہ تو حالات کی ستم ظریفی تھی۔ کچھ دنوں کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوگیا‘‘
’’ابا کہا کرتے تھے موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب مرنا ہے تو اسی مٹی میں، جہاں جنم لیا ہے ، دفن ہوا جائے۔ ابا شاید خوف کے عالم میں اپنی کہی ہوئی بات بھول گئے تھے‘‘
وطن کی محبت انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ وطن سے ہجرت انسان انتہائی مجبوری میں تو کرتا ہے لیکن اس کا دل وہیں اٹکا رہتا ہے اور یہ محبت اسے بے چین کئے دیتی ہے۔ ’’سزا کس جرم کی‘‘ کے مرکزی کردار بابری مسجد کے انہدام کی کارروائی کے نتیجے میں خوفزدہ ہو کر ممبئی ہجرت تو کرتے ہیں لیکن اجودھیا کی محبت انہیں بے چین کئے رہتی ہے۔ ستم ظریفی دیکھے یہی صورتحال انہیںممبئی میں بھی پیش آتی ہے اور ممبئی بھی بم دھماکوں سے دہل اٹھتا ہے۔ سکندر نیویارک پہنچتا ہے تو یہاں بھی اس کا واسطہ دھماکوں سے پڑتا ہے۔ اور جب گجرات پہنچتا ہے تو ایک زبردست بم دھماکے کے نتیجے میں زخمی ہو کر داعی اجل کو لبیک کہتا ہے۔ لیکن مرتے وقت بھی اجودھیا اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ وہ اجودھیا کی مٹی میں دفن ہونے کی خواہش بھی رکھتا ہے اور اپنی بیوی کو مستقل طور اجودھیا میں رہنے کی ہدایت بھی دیتا ہے۔
کہانی کا مرکزی خیال بھی یہی ہے کہ موت کے خوف سے وطن کو چھوڑنا دانائی نہیں۔ خاص طور پر اس پیش منظر میں کہ دنیا کے تقریباً سبھی ممالک فی الوقت دہشت گردی کے نشانے پر ہیں اور بم دھماکے کہیں بھی کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں۔
کہانی کی طوالت کچھ کم بھی کی جاسکتی تھی اور کہانی کار اس کا حجم کم کر کے بھی اپنی بات قارئین تک پہنچا سکتے تھے۔تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ کہانی کی طوالت پڑھنے والے کو بور نہیں کرتی۔ یہ بھی کہانی کی کامیابی کا ایک ثبوت ہے۔