معروف افسانہ نگار وحشی ؔ سعید کا ادبی سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے ۔ انہوں نے ناول بھی لکھے اور افسانے بھی ۔ ان کے ادبی سفر میں کئی پڑائو بھی آئے اور ایک پڑائو پر ان کا یہ سفر رُک گیا تھا لیکن بقول شاعر چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی ، ان کے اندر کا ادیب دوبارہ تصنیف و تالیف کی دنیا میں لوٹ آیا۔ حالانکہ تجارت کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے کیلئے پیچھے مڑ کر دیکھنا ناممکن ہوتا ہے لیکن دل میں لگن اور تڑپ ہو تو انگلیاں خود بخود قلم کو تھامنے کیلئے بے قرار ہوجاتی ہیں۔ یہاں تک کہ ادبی شاہ پارے مختلف صورتوں میں کاغذ پر حرفوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
وحشیؔ سعید نے علامتی افسانے لکھ کر ادبی دنیا میں ایک خاص جگہ بنا لی تھی لیکن ادبی سفر کے دوسرے (موجودہ پڑائو میں ) انہوں نے رومانی افسانے بھی لکھے اور کشمیر کی موجودہ صورتحال کے پیش منظر کے حوالے سے بھی کہانیاں قلمبند کیں۔ اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ اس دوران کہانی نویسی کا ان کا فن تسلسل کے ساتھ نکھرتا گیا۔ حالیہ برسوں میں وحشیؔ سعید نے کشمیر کے پُر آشوب حالات کو تاریخی واقعات سے جوڑ کر کہانیاں لکھنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ان ہی کا خاصہ ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس حوالے سے انہوں نے کئی شاہکار کہانیاں لکھ کر ادبی حلقوں کو ہی نہیں قارئین کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ اپنے ارد گرد رونما ہونے والے المناک واقعات کو تاریخ کے ساتھ جوڑنا اور انہیں افسانے کی شکل دے کر اس انداز میں پیش کرنا کہ پڑھنے والا محصور ہو کر رہ جائے ، کہانی کار وحشی سعید کا کمال ہے۔ ’’ارسطوکی واپسی ‘‘اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔
کچھ عرصہ پہلے وادی کشمیر کے ضلع بڈگام کے ایک علاقے میں قائم فوجی کیمپ کے ایک افسر نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گشت کے دوران ایک راہ چلتے نوجوان کو اچانک پکڑ کر جیپ کے اگلے حصے پر بٹھاکر باندھ دیا اور کئی گھنٹوں تک گائوں گائوں گھماتے رہے ، مقصد لوگوں پر ہیبت طاری کرنا تھا۔ نوجوان پر اس دوران کیا بیتی ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ حالانکہ اس واقعہ کے خلاف نہ صرف ریاستی بلکہ عالمی سطح پر بھی احتجاج ہوا لیکن افسر مذکورہ کی سرزنش کرنے کے بجائے اس کو شاباشی بھی ملی اور انعام سے بھی نوازا گیا۔
’’ارسطو کی واپسی‘‘ اسی واقعہ کے پیش منظر میں لکھی گئی کہانی ہے جسے وحشیؔ سعید کی بہترین کہانیوں میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔ سکندر اعظم کے استاد اور مشیر خاص ارسطو نے سکندر کو سکندر اعظم بنانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ ’’ارسطو کی واپسی‘‘کی ایک ایک سطر اور ایک ایک جملہ معنی خیز ہے اور قاری کے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اس کہانی میں وحشیؔ سعید کے کہانی لکھنے کا فن عروج پر نظر آتا ہے ۔ ایک عظیم فاتح اسکندر اعظم کے ہندوستان کو فتح کرنے اور راجا پورس کو قیدی بنانے کے باوجود اس کی انسانی اقدار کی پاسداری اور فوجی افسر کی رعونت و انسانی قدروں کو پامال کرنے کا موازنہ حسین پیرائے اور بہترین الفاظ میں کیا گیا ہے جس سے نہ صرف کہانی کے حسن میں اضافہ ہوا ہے بلکہ کہانی پڑھنے والے کے ذہن پر نقش ہو کر رہ جاتی ہے۔
’’فوجی جیپ ایک عام شہری کے سامنے رُک گئی فوجیوں نے اس کو گھیرے میں لے لیا اور خود سے سوال کر رہا تھا یہ کیا ہو رہا ہے؟ اس سے پہلے کہ وہ اپنے سوال کا جواب ڈھونڈتا فوجیوں نے اس کو فوجی جیپ کے سامنے باندھ دیا اور گلے میں ایک تختی آویزاں کر دی ’’دہشت گرد‘‘ ۔
’’ لیکن سکندر ،سکندر تھا ، وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا ، سوچوں کے بیچ اُسے محسوس ہوا کہ ارسطو اس کے سامنے کھڑا ہے ‘‘۔ ’’ میرے سب سے بڑے اور عزیز شاگرد سکندر !تمہیں تاریخ نے ایک سنہرا موقع فراہم کیا ہے اب تک تم صرف فاتح عالم تھے اب سکندرِ اعظم بننے جارہے ہو شرط یہ ہے کہ انسانی اقدار کو پامال نہیں ہونے دوگے ‘‘۔
’’سکندر اپنے تخت سے کھڑا ہوگیا اور بلند آواز میں بول پڑا ،سپاہیو راجہ پورس کو زنجیروں سے آزاد کر دو ، مقدونیہ کا بادشاہ ہندوستان کے بادشاہ سے بغلگیر ہوگا‘‘۔
’’ارسطو نے اپنے عظیم شاگر د سکندر اعظم کی موت پر آنسو نہیں بہائے کیونکہ سکندر اعظم انسانی تاریخ میں امر بن گیا تھا۔ کئی ہزار سال گذر گئے جب ارسطو کی واپسی ہوئی لیکن اس ارسطو کی آنکھیں خون کے آنسو بہا رہی تھیں‘‘۔
کہانی ’’ارسطو کی واپسی ‘‘ کے مندرجہ بالا اقتباسات پڑھ کر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کہانی کار وحشیؔ سعید نے ایک المناک واقعہ کو تاریخ کے ایک یادگار اور عظیم واقعہ کے ساتھ مربوط کرکے ایک بہترین کہانی تخلیق کی ہے جس کے ہر لفظ اور ہر جملے سے درد کا احساس جھکتا ہے وہ درد جو اس قوم کا مقدر بن چکا ہے ۔ حالیہ برسوں میں جو مزاحمتی ادب تخلیق ہوا ہے ہمارے لئے کسی سرمایہ سے کم نہیں ۔ ارسطو کی واپسی مزاحمتی ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے اور اس کیلئے وحشی ؔسعید کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
موبائل نمبر؛9797015597