۔23ستمبر کو ’’نگینہ انٹرنیشنل ‘‘ کی گولڈن جوبلی تقریب بڑے تُزک و احتشام کےساتھ شہنشاہ ہوٹل ڈل گیٹ میں منعقدکی گئی۔اسی حوالے سے کچھ باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔’’ نگینہ انٹرنیشنل‘‘ کے روح رواں وحشیؔ سعید صاحب کو میں اُن کے نام سے جانتا ہوں، اُن کا کچھ لکھا چھپا پڑھا نہیں ہے مگر اخباروں کی وساطت سے جتنی ان کے حوالے سے جان کاری ملتی رہی ہے، اس سے اس بات کا قائل ہو اہوں کہ وہ اردو ادب کے فروغ اور اس کی تشہیر کے علاوہ ایک بڑا کام یہ بھی کررہے ہیں کہ یہاں کے ادیبوں ، شاعروں،صحافیوں اور قلم کاروں ، جنہیں وقت کے تھپیڑوں نے ایک دوسرے سے ملنے جلنے کا کوئی ٹھکانا کہیں نہ چھوڑا ، کو جمع کر کے آپ ادبی مجالس کا انعقاد کراتے ہیں اور جس کام کو حکومت کرنے میں ناکام ہے، اسے وحشیؔ سعید بڑی عرق ریزی ، خوبصورتی اور کامیابی سے انجام دے رہے ہیں۔ ’’نگینہ انٹرنیشنل ‘‘ کی حالیہ گولڈن جوبلی تقریب کے حوالے سے منعقد ہ ادبی تقریب اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، مگر تقریب کے شرکاء دیکھ کر یوں لگا کہ انہی ادیبوں کو بلایا گیا ہےجو وحشی ؔ سعید صاحب کے ’’گوشوارے‘‘ میں درج ہیں، جن کے ساتھ وحشیؔ صاحب کا رابطہ نہیں یا جن کا خودوحشیؔ صاحب سے روابط نہیں ،وہ اس ادبی کہکشاںمیں کہیںنمودار نہ تھے ۔ اس تقریب میں جناب حامدی کشمیری، جناب خالد بشیر، جناب ستیش ومل، جناب رفیق مسعودی اور ادبی دنیا کے کئی دوسرے شہسواروں کو نہ دیکھ کر حیرانی ہوئی۔بہرحال وحشیؔ صاحب کا یہ جذبہ اور اقدام قابل صد ستائش ہے کہ اپنی تجارتی سرگرمیوں میں مشغولیت کے باوجود آپ ادبی اور تخلیقی سرگرمیوں کے لئے وقت نکالتے ہیں، یہ اُن کے ادب سے گہری دلچسپی اور شغف کا مخلصانہ اظہار ہے اور وہ اس کے لئے مبارکبادی کے مستحق ہیں۔
دوسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک کشمیری کی حیثیت سے وحشیؔ سعید پر کشمیری زبان اور ادب کا بھی حق بنتا ہے ،کہیں ان کا صرف اردو زبان پر ہی قانع رہنا کشمیری ادب سے اُن کےبخل کے مترادف نہ سمجھا جائے۔ کشمیری ادب اردو زبان میں ہی نہیں بلکہ انگریزی اور کشمیری زبانوں میں بھی منتقل ہوا ہے۔ اس لئے اس طرف بھی ان کو اپنی ادبی توجہات کا کچھ حصہ دینا چاہئے۔زمانہ بدل گیا ہے مگر میرے نزدیک زمانے کے بدلنے کا جو مطلب ہے وہ اُس معنی سے قطعاً مختلف اور متضاد ہے جو کچھ لوگ زمانہ بدلنے کی بات سے ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ بہت پہلے کی بات ہے ،میں اپنے ایک ڈرامے کے سلسلے میں ریڈیو کشمیر میں ڈرامے کے پروڈیوسر سے بات کررہا تھا، زیر بحث میرا ہی ڈرامہ تھا۔ میرے ڈرامے کےایک سین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اس پروڈیوسر صاحب نے مجھے کہا: جہانگیر صاحب! اب زمانہ پہلے کے مقابلے میں بہت بدل گیا ہے۔ میں نے جواب میں پوچھا: جناب! پہلے ماں باپ کی خدمت کو فرض جانا جاتا تھا، کیا اب بدلتے وقت میں انہیں گھر سے باہر پھینکنا واجب بن گیا ہے؟ پہلے چوری بری بات سمجھی جاتی تھی، کیا اب بدلتے وقت نے اُسے حلال بنادیا ہے؟
جب ہم زمانے کے بدلنے کی بات کرتے ہیں تو اتنا کہہ سکتے ہیں کہ بے حیائی پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوگئی ہے، مگر بہت زیادہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ بے حیائی عام ہونے کی صورت حال نے اس کو جائز اور حلال بنادیا ہے اور حیا مندی اب بدلتے وقتوں میں ناجائز اور حرام ہے؟اسی طرح ادبی اعتبار سے ترقی کا یہ مطلب نہیں کہ روحانی، اخلاقی، انسانی اور سماجی قدریں فرسودہ روایات مان کر انہیں فراموش کیا جائے کیونکہ انہیں مادیت پرست لوگ اب اپنی جعل سازیوں اور بدکاریوں میں رُکاوٹ جان رہے ہیں اور ہم بدلتی دنیا کی منطق کا سہار الئے فریب اور جھوٹ کی ہی وکالت کرنے لگیںاور ایسے ہی رزیل کاموں کو حق مانیں۔ میری نگاہ میں ضروری نہیں کہ ہر لکھنے والا ادیب اور دانشور ہی ہو۔ کوئی ایساقانون وضع نہیں ہواجو کسی کم فہم کو قلم تھامنے سے روکے۔ حق تو یہ ہے کہ آج کل بے دانش حضرات ہی زیادہ لکھنے والے بن گئے ہیں۔ اس کثرت میں دانائی کا چراغ ٹمٹمانے لگا ہے اور یہ بات محتاج وضاحت نہیں کہ روشنی کی ٹمٹماہٹ سے تو اندھیرا ہی پھیلتا ہے۔ سنجیدہ قلم کار کے لئے یہ لازم ہے کہ قلم چلانے سے پہلے وہ ان بندشوں اور ذمہ داریوں سے بھی واقف ہو جو قلم کاری سے متعلق ہیں، ورنہ تحریر میں تصوف کی اُڑانیں بھی ہوں یا فلسفے کے نکتے بھی ہوں، پھر بھی قلم کار اپنے قاری پر کچھ بہتر تاثر نہیں چھوڑسکتا بلکہ قاری کے ذہن میں اپنی ایک ایسی شبیہ بناتا ہے جو متعفن مواد میں لپٹی رہتی ہے۔
آج بہت کم لوگ ایسے نظر آرہے ہیں جو اپنی ادبی استعداد سے ایسا تاثر دے پاتے ہیں کہ ان کی تخلیقات کو معتبر مانا جائے۔ ایک شور ضرور ہے جو سنائی تو دے رہا ہے مگر یہ لوگ کہہ کیا رہے ہیں وہ سمجھ ہی نہیں آرہا ہے۔ بس تُکہ بازی سی لگ رہی ہے، کوئی مطالعے کی تک مار رہا ہے اور کوئی معیار کی۔ مطالعے کی ضرورت ہے تو کس کو ہے؟ ا س کی کوئی وضاحت نہیں۔ ارے نادان! کوئی مثال تو دو کہ فلاں ادیب کی یہ یہ یہ کہانی ہے، دیکھو اس میں یہ یہ یہ خامیاں اور نقائص ہیں، اس لئے اس قلم کار کو گہرےمطالعے کی ضرورت ہے۔کچھ سر پھرے سے نظر آرہے ہیں جو نقاد بن گئے ہیں۔ انگلی کٹا کے شہیدوں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ کوئی معیار کا مسلٔہ اُٹھاتا ہے،مگر یہ نہیں بتاتا کہ وہ معیار کس چیز کو سمجھتا ہے؟ جس سے یہ باور ہوتا ہے کہ یہ مسلٔہ اُٹھانے والا محض سوال کرنا جانتا ہے جب کہ خود اس بات سے واقف نہیں کہ ادبی معیار کیا چیز ہے؟ جب کوئی کسی چیز کے 'معیاری اور 'غیر معیاری ہونے کا مسلٔہ اُٹھاتا ہے تو اس کو جان لینا چاہئے کہ 'معیار ایک Comparative termہے اور وہ کسی ایک چیز کا موازنہ کسی دوسری چیز سے کر رہا ہوتا ہے۔ پھر دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ آیا جو 'دوسری چیز اس نے اپنے ذہن میں معیار کے میزان کی بنائی ہے، آیا وہ دوسرے لوگوں کے اذہان میں بھی معتبر ہے بھی یا نہیں؟
میں اس بات کا قائل ہوں کہ حقیقی ادیب جو کچھ بھی لکھتا ہے، وہ ادب ہوتا ہے۔ البتہ ادب ذہنی پراگندگی، ذہنی عیاشی، کسی اُلجھن یا پہیلی یا وقوف سے خالی باتوں کا نام نہیں ہے بلکہ ادب وہ عمدہ خیالات ہیں جو ادیب کسی خاص واقعہ یا مخصوص حالت سے قلباًوذہناً متاثر ہوکر لکھتا ہے، بلکہ اگر یوں کہیں کہ واقعات اورحالات ہی ادیب سے کچھ لکھواتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ لفظوں کے انبار کو ادب نہیں کہا جاسکتابلکہ الفاظ قاری تک کوئی نہ کوئی مطلب کی بات پہنچانے چاہئیں ،اسی لئے الفاظ کا استعمال قلم کار کی مہارت اور قلمی استعداد اور اُس کی ادبی سطح کا تعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ شاعروں کا کام ہے کہ رَگِ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں یا چیونٹیوں کے بلوں میں ہاتھیوں کو قیام کرواتے ہیں یا کبھی خوشبو کے بھی کان کھنچتے ہیں، یا پتھروں سے لہو چاٹتے ہیں،یا یہ اُن کی ککڑی ہوتی ہے جو ٹماٹروں سے چوزے پیدا کرتی ہے، یا یہ اُن کااونٹ ہوتا ہے جو رکشے پر بیٹھتا ہے، وہ جگنوؤںکو پنجروں میں پالتے ہیں، تتلی کو کھونٹی سے باندھتے ہیں‘وغیرہ وغیرہ!
اب دیکھا جا رہا ہے کہ ادبی نقاروں سے پھر ویژن اور جدیدیت کی آوازیں اُبھرنا شروع ہوگئی ہیں۔ جن کہانیوں میں کوئی مقصد کی بات ہوتی ہے، اُنہیں دقیانوسی ذہن کی پیداوار بتایا جاتا ہے اور جہاں افسانوں سے فحاشی کا بے ہنگم شور سنایاجاتا ہو، وہ بڑی تخلیقات مانی جاتی ہیں۔ حالات کے تھپیڑوں نے منٹوؔ کا ذہن بیمار کیا تھا، چنانچہ اُس کے ادب کی ’’کومنٹری‘‘ عورت کے محور پر گھومتی رہی۔ لوگوں کو اس میں ’’ذہنی عیاشی‘‘ نظر آئی ، جو عیش پسند لوگوں کو خوب بھائی اور انہوں نے اسے شہرت دی۔حالانکہ غور سے دیکھا جائے تو ’’کھول دو‘‘ اور اس جیسی منٹوؔ کی دیگر کہانیوں کو پڑھ کر حساس دل تڑپ جاتا ہے۔ میں اُس کی اکثر کہانیوں میں جنسی ہیجان اُبھارنے والی کوئی بات نہیں پاتابلکہ درد اور محرومی کا تڑپتا ہوا طوفان دیکھتا ہوں۔ منٹوؔ کی کہانیاں واجدہ تبسم کی ’’اترن‘‘ جیسی شہوانی طور برانگیختہ کرنے والے افسانوں سے مختلف ہیں مگر اب پھر سے جو شہوت پسند ادیب سرگرم ہوگئے ہیں ،وہ بدقسمتی سے اپنی کہانیوں کے شہوانی منظرناموں کو ویژن اور جدیدیت سے جوڑرہے ہیں۔ ان ادیبوں کے پردے میں لگ رہا ہے کہ شیطان بول رہا ہے۔کہانی کہیں سے بھی شروع ہو مگر اُس کا اختتام’ ’پلنگ‘‘ پر کیا جاتا ہے۔ اگر یہی جدیدیت ہے تو اس میں نئی بات کیا ہے؟ ہر انسان پلنگ ہی سے تو آتا ہے اور آئندہ بھی جب آئے گا تو پلنگ سے ہی آئے گا، تو بھلا اس میں جدیدیت کا کونسا ’’ردیف قافیہ‘‘ ہے جو کہانی کا ’’جغرافیہ‘‘ بدل دیتا ہے ؟ بس اتنا ہوتا ہے کہ ایسے خیالات اور طریقے افسانے کی ’’ہسٹری‘ ‘کو تہذیب کی حدود سے نکال کر تجارتی اپروچ کی ’’ایکانومکس‘ ‘پر لے آتی ہیں۔
یہ بات میں انہی کالموں میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں کہ آج ادب تصوراتی سطح سے ہٹ کر احتجاجی نوعیت کا بن گیا ہے۔ آج ادیب کے لئے عورت موضوع نہیں ہے، وہ لیلیٰ مجنون اور شیرین فرہاد کے زمانے سے بہت دور چلاگیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آج مجنون صرف لیلیٰ پر قناعت نہیں کرسکتا اور نہ ہی فرہاد کے لئے شیرین کا حصول کوئی اہم مسئلہ ہے۔ آج ادیب کے پاس اخلاقیاتی موضوعات ہیں ، نسلی مسائل ہیں، ماحولیاتی مسائل ہیں،سماجی مسائل ہیں، وہ دیکھ رہا ہے کہ انسان نسلی تعصب کا شکار ہوکر مر رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ مذہب انسانی بقا اور انسانی آگہی کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ اس کی ایک ایسی خوف ناک صورت بنادی گئی کہ اب انسان اس کی پناہ لینے کے بجائے اس سے ڈرنے لگا ہے۔ آج زندگی لین دین اور بیوپار کے محور پر گھوم رہی ہے اور قدروں کے معانی اور تفسیریں بدل گئی ہیں۔آج ماحولیاتی آلودگیوں نے زندگی کے لئے خطرات پیدا کئے ہیں۔ آج کا تخلیق کار خوابوں سے نکل کر زمین پر آگیا ہے اور وہ اپنی تخلیق کو خوابوں اور ذہنی عیاشیوں سے چھڑا چکا ہے۔ آج اُس کے تخیل میں وہ حالات ہیں جس سے انسان دوچار ہورہا ہے۔ پہلے کے مقابلے میں آج کے حقیقی تخلیق کار کو اظہار کی آزادی بھی زیادہ ہے اور اُس کا شعور بھی وسعت پاگیا ہے۔ اس لئے وہ اپنی تخلیقات کے ذریعہ بالواسطہ پرچار بھی کرتا ہے اور اپنے درد کو بھی ظاہر کرتا ہے اور ظلم کے خلاف آواز بھی بلند کرتا ہے۔ تخلیق کار بہت حساس ہوتا ہے۔ وہ پہلے بھی حساس تھا اور آج بھی حساس ہے مگر پہلے اُس کے پاس اپنے جذبات ظاہر کرنے میں اتنی آزادی نہ تھی جو آج ہے کیونکہ وہ طوائف الملوکی کا دور تھا ،اس لئے وہ اپنی ذات کو اپنے اندر ہی بند کئے ہوئے تھا اور جو درد اندر ہی اندر اُسے تڑپائے دیتا تھا ،اُسے وہ مناجاتی ادب اور صوفی علامتوں میں ظاہر کرتا تھا مگر آج تخلیق کار اپنے داخلی طنابوں کو کاٹ کر باہر آیا ہے اور خارجی سطح پر اپنے جذبات کا اظہار کر رہا ہے۔ہاں، ادب میں کبھی کبھی نامور ادبا بھی لغزشوں میں پڑجاتے ہیں۔ ایک مقامی روزنامہ میں ایک معروف قلم کار کا مضمون نظر سے گذرا جس کی عبارت کچھ یوں تھی’ ’مشتاق یوسفیؔ اردو مزاح کا چارلی چپلن‘‘۔ مجھے یہ عبارت عجیب ہی نہیں بلکہ معیوب بھی لگی۔ مشتاق یوسفیؔ صاحب قلم کار تھے اور چارلی چپلن اداکار تھے،تو بھلا قلم کار کااداکار سے کیا موازنہ؟ یہ تو کشمیری محاورے کے مطابق ’’کُجا ناوِد یار تہ کُجا پروردگار‘‘ جیسا معاملہ ہے۔ تھامس ہارڈی کو دلیپ کمار سے موازنہ کیا جائے تومضحکہ خیز ہوگامگر کوتاہیوں کے باوجود جو بات ایک ادیب لکھے وہ ادب ہی قرار پائے گا۔قلم کار کے تخلیقی عمل کا گہرا تعلق داخلی کیفیات سے ہوتا ہے اور داخلی موج تہ نشین پر خارجی حالات وواقعات کا براہ راست اثر رہتا ہے۔ قلم کار جب درد وکرب کی کیفیات کے منجدھار میں پھنس جاتا ہے تو یہ تلاطم اسے ’’کراہنے‘ ‘پر مجبور کرتا ہے اور جذبہ ٔ دروں کا یہی اخراج اس کا جذباتی ہیجان کم کردیتا ہے۔ہمارے ایک عزیز دوست پروفیسرمنصور صاحب لکھتےہیں:’’ فن کار کے مزاج، شعور، زبان اور تحت الشعور پر اس کے کلچر کی دھوپ چھاؤں لرزاں ہوتی ہے۔ وہ قلب ونظر کے سامنے گزرنے والی یہی پرچھائیاں پیش کرتا ہے۔‘‘ وہ لکھتے ہیں: ’’انسان کے دیگر اعمال کی طرح ادب بھی ایک سماجی عمل ہے۔ فن کار کا تجربہ درحقیقت سماجی تجربہ ہوتا ہے۔ یہاں اس امر کا اعادہ ضروری ہے کہ تہذیبی، سیاسی اور سماجی میلانات فن کار کو مسلسل متاثر کرتے ہیں اور یہی تاثرات کی شکل میں اس کی نفسیاتی زندگی میں تحلیل ہوکر شخصیت میں رَچے بسے بے کراں تاثراتی سمندر میں تیرتے رہتے ہیں اور تخلیقی لمحات میں یہ گھلے ملے تاثرات نفسی کوائف بن کر ضاعت وفن میں اظہار پاتے ہیں ……….‘‘ ہاں، یہ ضرور ہے کہ ادب کو مختلف درجات میں بانٹا جاسکتا ہے۔ کوئی ادبی نوشتہ اعلیٰ درجے کا ہوتا ہے اور کوئی پست درجے کا۔ تاہم کسی مضمون کی درجہ بندی کرتے وقت یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ اس درجہ بندی کرنے والے کا ادبی ذوق اور مزاج کس پایہ کا ہے؟اُن کے اذہان معتبر ہے بھی کہ نہیں؟
������