آج جب ہم کشمیر کا تصور کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں وہاں کے برفیلے پہاڑ، پھولوں سے معطر وادیاں اور آئینے کے مانند چمکتے ہوئے چشمے اور آبشار اُبھرتے ہیں۔ لیکن اسی جنت نظیر وادی میں دو سیاسی نظریات کے درمیان خون خرابہ بھی ہورہا ہے اور روتی بلکتی عورتوں اور دہشت زدہ معصوموں کے چہرے بھی روزانہ اخباروں اور ٹیلی وژن پر نظر آرہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ گلشن ِ کشمیر میں انسانی زندگی پُرامن اور مسر ّت انگیز نہیں ہے۔
جہاں تک کشمیر کے شعروادب کا سوال ہے وہاں لل دید اور حبہ خاتون سے مہجورؔ کشمیری تک ادیبوں اور شاعروں کی ایک کہکشاں ہے اور اس کہکشاں میں اردو ادباء وشعراء کی تعداد بھی خاصی اہم ہے۔ اگر کشمیری فکشن نگاروں کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں نور شاہ ، علی محمد لون، پریم ناتھ پردیسی، پریم ناتھ در، پشکر ناتھ، پروفیسر حامدی کاشمیری، کلدیپ رعنا، عمر مجید،اشرف آثاری اور مخمور بدخشی وغیرہ کے پہلو بہ پہلو چونکا دینے والے افسانہ نگار وحشی سعید کا نام بھی ضرور لیا جائے گا۔ سعید صاحب نہ صرف کشمیرکے افسانوی منظر نامے کا ایک معتبر نام ہے بلکہ مجلہ ’’نگینہ انٹرنیشنل‘‘ کے مدیر اعلیٰ بھی ہیں۔ مزید برآں وہ جموں کشمیر فکشن رائٹرس گلڈ کے تاحیات سرپرست اعلیٰ بھی ہیں، یعنی اُن کی زندگی اور تمام تر مصروفیات اردو ادب کی توسیع اور فروغ کے نام وقف ہیں ۔ کشمیر میں شاید ہی کوئی ایسا ادبی جلسہ یا اجتماع ہوتا ہے جس میں وحشی سعید کی سرپرستی یا معاونت یا شرکت نہ ہو۔ اسی لئے محترم علیم صبا نویدی نے اپنے ایک سانیٹ میں کہا تھا ؎
نقشہ بدل کے رکھ دیا وحشی سعید نے
اوراقِ گلستاں میں مہک ہے سعید کی
افسانوی ادب میں چمک ہے سعید کی
کتنا عجب سفر کیا وحشی سعید نے
خامہ ہے اُن کے گوہر اظہار کی دھنک
تحریر اُن کی جنت کشمیر کی بہار
اوراق اُن کی سوچ پہ کرتے ہیںجاں نثار
ہے ان کی انگلیوں میں نئے دور کی مہک
جہاں تک وحشی سعید کی تخلیقی عمر کا سوال ہے ، اُنہوں نے ۱۹۶۲ء میں کہانیاں لکھنا شروع کیا۔ اگلے دس برس میں اُن کی تحریریں اردو کے معروف ادبی رسائل میں باقاعدگی سے شائع ہونے لگی تھیں۔ اُن کی تخلیقی قوت اس درجہ شدید تھی کہ وہ بیک وقت کئی ناموں ۔ ۔ محمد بن عبداللہ، میر اکبر علی، اسرار عظمت، اختر سعید احمد، زبیدہ خان، شہزادہ شوکت نسیم، نقیب صدیقی، زاہدہ نسرین، خاقان، کرشن لال، نصرت راہی، جعفر ایوب، قیصر عرفان، راہی بے وفا اور م جاوید سے بھی ایک فرضی وپُر اسرار ادیب کے طور پر شائع ہوتے رہے، مگر آخر میں وحشی سعید ساحل اور پھر وحشی سعید ہی افسانے کے منظرنامے پر چھاگئے۔ انہوں نے اپنے چونکا دینے والے قلمی نام ’’وحشی‘‘ کو منتخب کرنے کی وجہ ماہنامہ ’’شاعر‘‘ کے مدیر افتخار امام صدیقی کو اس طرح بتائی تھی ۔ ۔
’’الانسان حیوان الناطق۔ اشرف المخلوق کو حیوان (سمجھ دار) بھی کہا گیا ہے اور حیوان وحشی ہوسکتا ہے۔ گزارش یہ ہے کہ ’وحشی‘ کو بندھے ٹکے مفاہیم کے تناظر میں نہ لیا جائے۔ یہ لفظ بھاگنے والے، گھبرانے والے، ایک حال پر نہ رہنے والے، مضطرب جیسے دل’ وحشی‘ کے مفاہیم میں بھی استعمال ہوتا ہے جو سب انسان کی خصائل کی دلالت بھی کرتے ہیں ۔ مذکورہ جملہ خصائل کو صرف ایک لفظ یا جملے میں ’سیماب صفت‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے‘‘
بہرحال ’’وحشی‘‘ کی وجہ تسمیہ جو بھی ہو ، ان کے افسانے قاری کو ایسی دنیائوں کی سیر کراتے ہیں جہاں تک اوسط ذہن اور تجربات کا حامل تخلیق کار نہیں پہنچ پاتا ہے۔ وحشی سعید کے تجربات ومشاہدات صرف وادیٔ کشمیر کے مرغزاروں تک ہی محدود نہیں ہیں ، انہوں نے ملک اور بیرون ملک کے لاتعداد شہروں میں زندگی کے ہزار رنگوں کو نزدیک سے دیکھا اور پرکھا ہے ۔ اس لئے ان کے افسانے مقامیت کے شکار نہیں بلکہ تنوع اور وسعت لئے ہوئے ہیں۔ وحشی سعید کے تادم تحریر مندرجہ ذیل افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔ ۔
۱۔ کنوارے الفاظ کا جزیرہ
۲۔ سڑک جارہی ہے
۳۔ آسمان میری مٹھی میں
۴۔ ماضی اور حال
۵۔ ارسطو کی واپسی
وحشی سعید کے مجموعے ’’کنوارے الفاظ کا جزیرہ‘‘ کے افسانے زیادہ تر داستانوی رنگ لئے ہوئے ہیں۔ مثلاً افسانہ ’’آب حیات‘‘ کو لیجئے۔ اس سطوری افسانے میں ایسے تین دوستوں کا ذکر کیا گیا ہے جو ایک قدیم نسخے کی مدد سے چشمہ جیوان تک پہنچ جاتے ہیں۔ تینوں آب حیات پی کر حیات جاودانی حاصل کرلیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی موت کے امکان کو ہمیشہ کے لئے مٹادیا ہے۔ لیکن وہ حیرت زدہ اور مایوس ہوجاتے ہیں جب اُن کو ایک اخبار سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ریل حادثے میں اُن کی موت واقع ہوچکی ہے۔ اس مجموعے کے اکثر افسانوں پر اسرار اورتحیرکی ایک دھند چھائی ہوئی ہے۔
ہر ادیب اور شاعر اپنے ذاتی حالات اور اپنے اطراف کے سیاسی وسماجی حالات کا زائیدہ ہوتا ہے۔ جن ادیبوں اور شاعروں کے کائناتی تجربات ومشاہدات محدود ہوتے ہیں وہ یاتو تھوڑے عرصے کے بعد خود کو دہرانے لگتے ہیں یا ادبی تاریخ کی گرد میں گم ہوجاتے ہیں۔ لیکن وحشی سعید اس کلیے سے مبرا ہیں، کیونکہ ان کے تجربات ومشاہدات وسیع ہیں اور انہوں نے مشرق و مغرب دونوں جہانوں کی روز مر ّہ زندگی کو نہایت قریب سے دیکھا ہے، اسی لئے اُن کے یہاں موضوعات کی خشک سالی اور تخلیقیت کا فقدان نہیں ہے، حالانکہ اُن کا بنیادی ونسلی تعلق وادیٔ کشمیر سے ہے لیکن اُن کی کہانیوں میں دنیا جہاں کے موضوع اور مسائل پائے جاتے ہیں۔
آئیے اب وحشی سعید کی افسانہ نگاری کا تجزیہ اُن کی چند کہانیوں کو مدنظر رکھ کر کیا جائے۔ اُن کا ایک افسانہ ’’ملک کا آخری بادشاہ‘‘ ہے جو علامتی مگر سیاسی نوعیت کا افسانہ ہے۔ ایک شہر میں ایک نیک دل بادشاہ کی حکومت ہے لیکن اقتدار کا اصل دارومدار فوج پر ہے جو چھ ماہ سے تنخواہ سے محروم ہونے کی بنا پر بادشاہ کی مخالف ہوگئی ہے۔ ملک کی قسمت کا فیصلہ پیر صاحب کرتے ہیں جن کو عبادت وپرہیز گاری کے سوا کسی دنیاوی معاملے سے دلچسپی نہیں ہے۔ بادشاہ کی طرف سے پیر صاحب کو ہرقسم کا آرام وسکون مہیا کرایا گیا ہے لیکن اُن کا نوجوان خدمت کار بادشاہ کا اقتدار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک دن اقتدار حاصل کرلیتا ہے اور اس کے بعد ملک میں ظلم وستم کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ کہانی کے آخر میں افسانہ نگار بیان کرتا ہے ۔ ۔ ۔
’’ملک کو نیا بادشاہ مل گیا، نئی حکومت مل گئی۔ اُس دن کے بعد سے اس ملک نے ظلم و تشدد کے سوا کچھ نہ دیکھا۔ آہ وبکا کی آوازوں کے بغیر کچھ نہ سنا۔ اس واقعے کو کئی صدیاں گزر گئیں لیکن آج بھی وہ ملک ماتم کی وادی بنا ہوا ہے۔ اس وادی میں تشدد وظلم کا بول بالا ہے‘‘
اس افسانے کی لسانی رمزیات کو اگر چاک کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ افسانہ وادیٔ کشمیر میں جاری ظلم وتشدد کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔اسی نوعیت کا وحشی سعید کا تحریر کردہ ایک اور افسانہ ’’ارسطو کی واپسی‘‘ ہے۔ ارسطو یونان کے مایہ ناز فلسفی سقراط کا شاگرد اور وہاں کے بادشاہ سکندر مقدونی کا مشیر اعلیٰ تھا۔ یہی مشیر اعلیٰ وادیٔ کشمیر میں ایک بے گناہ شہری کو اپنی گاڑی کے آگے باندھ کر شیلڈ کے بطور استعمال کرتا ہے۔ ارسطو نے سکندر کو نصیحت کی تھی کہ وہ کبھی انسانی قدروں کو پامال نہ ہونے دے، لیکن کشمیر کی مصیبت زدہ سرزمین پر ظلم و بربریت رقص کررہی تھی ۔ ۔ ۔
’’وہ صبح بھی کالی تھی، وہ شام بھی سیاہ تھی جس نے ایک عام شہری کو انسانی سپر بنتے ہوئے دیکھا۔ جس فوجی نے انسانیت کو پامال کیا اُس کو اپنے کمانڈر نے بہادری کے تمغے سے نوازا‘‘اس افسانے میں ارسطو، سکندر اور پورس کی تثلیث کی کرداری عظمت کے بالمقابل کشمیر میں فوجی طاقت وروں کے غیر انسانی سلوک کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ اسی نوعیت کا ایک افسانہ ’’سامری‘‘ ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے دھوکہ باز ساحر سامری کی تلمیح کو بیانیہ کا مرکز بنایا گیا ہے۔ بقول علامہ اقبال ؎
خون ِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری
یہاں سامری ہندوستان کا جادوگر ہے جس نے قوم کو وعدوں کے سبز باغ دکھا کر اقتدار حاصل کیا ہے، لیکن عوام بدستور افلاس اور جہالت کے اندھیروں میں زندگی بسر کررہی ہے۔ دور حاضر کا یہ جادوگر جرمنی کے آمر ہٹلر کی تقلید کرتا ہے اور اپنے چاروں طرف وحشیوں اور خون کے سپاہیوں کی بھیڑ اکٹھی رکھتا ہے ۔ ۔ ۔
’’پسماندہ قوم کا ایک نیا سامری ہر تقریر میں سنہرے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا وعدہ کرتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ وہ اُن کی سوچ کا مسیحا نظر آرہا ہے۔ سب کے سب اُس کے پیچھے چلتے نظر آرہے ہیں۔ ہجوم در ہجوم بلند آواز سے کہتے ہیں ۔ ۔ ’’سامری ۔ ۔ سامری‘‘
خوبصورت خوابوں کا سوداگر انسانوں کی قربانی دیتا ہے۔ جانوروں کی پرستش کرتا ہے‘‘
ظاہر ہے کہ ’’سامری‘‘ علامتی نوعیت کا افسانہ ہے جس کی لفظیات داستانوی ہے۔وحشی سعید نے افسانہ ’’کب آئے گا وہ سقراط‘‘ میں ایک ایسے خطے کو موضوع بنایا ہے جہاں کی وادیاں سرسبز ہیں، رنگ برنگے پھولوں کے باغیچے ہیں اور میٹھے پانی کے جھرنے ہیں۔ لیکن اس ملک کا عوام شیخ چلی نما چانکیائوں سے اس درجہ نالاں ہیں کہ دن کو بھی چراغ جلاتے ہیں ، مرگ کو حیات اور حیات کا درجہ دیتے ہیں۔ دراصل اس ملک کے نام نہاد رہنمائوں نے عوام کو اتنے دھوکے دئے ہیں کہ اُنہیں اب اپنی قوم کا مستقبل ہی تاریک نظر آنے لگا ہے لیکن کہانی کا مرکزی کردار جو واحد متکلم ہے جو اُس سقراط کا انتظار کررہا ہے جس نے صدیوں پہلے کے یونان میں زہر کا پیالہ پیا تھا، کیونکہ وہ راستی اور نیکی کا شعار ترک کرنا نہیں چاہتا تھا۔ افسانہ ان الفاظ پر ختم ہوتا ہے ۔ ۔ ۔
’’کب آئے گا وہ سقراط ۔ ۔ !‘‘
اسی اساطیری وتاریخی نوعیت کی ایک کہانی ۔ ۔ ’’نجات دہندہ‘‘ بھی ہے جس میں ارسطو اور ناگ راج کی تلمیحات کو مرکز میں رکھا گیا ہے۔ یہاں حکمران کا تصور امن یہ ہے کہ وہ جبر اور خوف کا ایسا ماحول ریاست میں پیدا کردیتا ہے کہ عوام احتجاج کی قوت وہمت کھوبیٹھتے ہیں۔وحشی سعید کی انسانی رشتوں پر گہری نظر ہے۔ ان کی بہت سی ایسی کہانیاں ہیں جن میں انسانی نفسیات کے منفرد پہلوئوں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ افسانہ ’’آسمان میری مٹھی میں‘‘ شہر سرینگر کی ایک شاندار کالونی بادشاہ باغ کی کہانی ہے۔ زیب بٹ کا مکان اس کالونی کا جادو محل تصور کیا جاتا تھا جسے دیکھنے لوگ بطور خاص آتے تھے۔ زیب بٹ غریبی سے نکل کر محنت کرکے یہاں تک پہنچا تھا۔اس کے افراد خانہ اس سے عرصہ پہلے الگ ہوگئے تھے۔ لیکن جب اُمید کے خلاف کالونی میں سیلاب آجاتا ہے تو صرف اس کے بچے محفوظ رہ پاتے ہیں۔ یہاں قسمت کی ستم ظریفی کی عکاسی کی گئی ہے کہ کس طرح انسان کے بنائے ہوئے محل اور ایوان فطرف کی اندھی قوتوں کے ہاتھوں تنکوں کی طرح بہہ جاتے ہیں۔
وحشی سعید کا افسانہ ’’دولت ، طاقت ، سیاست‘‘ جدید سیاسی منظر نامے کے مجرمانہ چہرے کو سامنے لاتی ہے۔ ایک وزیر کا درندہ صفت بیٹا راہ چلتی دوشیزائوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے اور سڑکوں پر پھینک دیتا ہے۔ لیکن ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک مظلوم دوشیزہ کے والدین اس کو خود سزا دینے کا فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ پولیس اور انتظامیہ مجرم کو سزا دلانے کے بجائے اس کی اعانت بھی کرتے ہیں۔ لیکن خدائی انصاف یہ ہوتا ہے کہ وزیر ،اس کی بیوی اور اس کا بیٹا تینوں یکے بعد دیگرے مارے جاتے ہیں اور یہ عبرت ناک کہانی اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔
وحشی سعید کا ایک دلچسپ افسانہ ’’غیرت ، نفرت محبت‘‘ ہے ۔ یہ افسانہ ایسے دل دہلانے والے انجام پر ختم ہوتا ہے کہ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ کہانی کا مرکزی کردار ایک نوجوان ہے جو اپنے کفیل چاچا کی موت کے بعد غیر اخلاقتی اور غیر انسانی راہوں پر چل پڑتا ہے۔ انجام یہ ہوتا ہے کہ ایک دن وہ اپنی سگی بہن کو ہی آلودہ کردیتا ہے اور جب اُسے حقیقت معلوم ہوتی ہے تو وہ ایک گاڑی کی زد میں آکر کچلا جاتا ہے۔ یہ ایک طرح کا خدائی انصاف ہے جس کا شکار وہ زانی نوجوان ہوتاہے جس نے کسی طرح سے ناجائز دولت حاصل کرلی تھی۔ یہ افسانہ کافی دلچسپ اور چونکا دینے والا افسانہ ہے جس کو وحشی سعید جیسا تجربہ کار تخلیق کار ہی لکھ سکتا تھا۔ ایک اور افسانہ ’’قاتل مقتول‘‘ بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے۔ ایک شخص حالات کے تقاضے سے مجبور ہوکر ایک ایسے ہردل عزیز انسان کو قتل کردیتا ہے جس کے بارے میں اس کو گمراہ کیا گیا ہے کہ اس کا وجود انسانیت کے لئے خطرہ ثابت ہوگا۔ لیکن قدرت اس قاتل سے اس طرح انتقام لیتی ہے کہ اس کا ضمیر خود اس کو ملامت کرتا ہے اور وہ خود کشی کرکے اپنے گنہگار وجود کو ختم کرلیتا ہے۔ یہاں وحشی سعید نے ایک بار پھر خدا کے انصاف کو اُجاگر کیا ہے جس کو زیادہ تر لوگ تسلیم نہیں کرتے۔
وحشی سعید کے دو افسانے ٹری ریڈیکل نوعیت کے ہیں۔ پہلا افسانہ ’’مجرم‘‘ ہے جوپچھلے تیس سال سے جاری خطہ ٔ کشمیر کی سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے، یعنی حالات بظاہر جس قدر تبدیل ہوتے ہیںبباطن اُتنے ہی جامد رہتے ہیں۔ سیاسی سطح پر مختلف قسم کے دائو پیچ کھیلے جاتے ہیں۔ مختلف فریقین مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کے ساتھ مشترکہ محاذ بناتے ہیں اور پھر اُن کو توڑ بھی دیتے ہیں، لیکن سماجی ومعاشی سطح پر ایسا جمود اور ٹھہرائو طاری ہے کہ عام زندگی بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ تین کے والدفوج کی گولیوں کا شکار ہوکر اس کو بے سہارا چھوڑ گئے تھے۔ آہستہ آہستہ تین ایک بڑی فنکارہ بن جاتی ہے اور ایک دن اپنے والدین کے قاتل کو ہی قتل کرڈالتی ہے۔ عدالت جب اُسے اس کے کئے ہوئے جرم پر سرزنش کرتی ہے تو وہ جواب دیتی ہے کہ ۔ ۔
’’حکومتوں کو مہان بناتے ہوئے عوام کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ اُنہیں حکومت عوام پر ہی کرنی ہے‘‘اس اقتباس میں ایک بڑے سیاسی فلسفے کو بیان کیا گیا ہے کہ حکومتیں عوام کے لئے اورعوام کے ذریعے ہوتی ہیں، ورنہ جوڑ توڑ اور باہری سازشوں سے بنائی گئی حکومتیں عوام دشمن ثابت ہوئی ہیں اور عوام بھی ان کے دشمن بن جاتے ہیں۔
اسی طرح وحشی سعید کا ایک افسانہ ۔ ۔ ’’اصلی مجرم کو پیش کرو‘‘ ہے ۔ یہاں پچھلے ساٹھ برسوں میں راوی کے بچپن سے بڑھاپے تک کے کشمیر کی بدلتی ہوئی تصویروں کا کولاج بنایا گیا ہے۔ یہاں ’’وہ‘‘ ایک ایسا کردار ہے جو بار بار پیدا ہوتا ہے اور بار بار پولیس کی گولی کا شکار ہوتا ہے۔ ایک بار وہ یونیورسٹی کے طلبا کے ساتھ مل کر Free Thinker's Forumبناتا ہے جو آہستہ آہستہ مقبول ہوتی چلی جاتی ہے۔ لیکن ایک دن ’’وہ‘‘ کو گرفتار کرلیا جاتا ہے اور ’’وہ‘‘ دریائے جہلم میں کود کر جان دے دیتا ہے۔ عوام ایک بار پھر سوال کرتے ہیں کہ ۔ ۔ ’’اصلی مجرم کو پیش کرو‘‘
یعنی عوام ’’وہ‘‘ کے قاتل کو تلاش کررہے ہیں جو ہردل عزیز ہوتے ہی بار بار قتل کردیا جاتا ہے یعنی ’’وہ‘‘ ایک علامتی ہیرو ہے جس کو عوام دشمن قوتیں باربار قتل کرتی ہیں مگر وہ قفس کی طرح از سر نوزندہ ہوجاتا ہے۔
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وحشی سعید کے افسانوں کے موضوعات بہت وسیع ہیں کیونکہ ان کے تجربات ومشاہدات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ ان کے افسانوں کی زبان سادہ اور کسی حدتک انگریزی آمیز ہے۔ وحشی سعید کے یہاں تجرباتی اور علامتی نوعیت کے افسانے بھی پائے جاتے ہیں کیونکہ وہ ہر قسم کی کلاسیکی اور جدید ادبی روایات سے واقف ہیں۔
فون نمبر 8800489012