امتیازعلی شاکر
کیا عورت انسان نہیں؟ آج یہ سوال اس لیے اُٹھا رہاہوں کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ موجودہ دور میں عورت کو انسان سمجھا جارہاہے۔مشرق ہو یا مغرب ہر طرف مردوں کی اجارداری قائم ہے۔عوت تو بس ایک جسم بن کررہ گئی ہے۔ عورت کی اس حالت کی ذمہ داری کہیں نہ کہیں عورت پر بھی عائدہوتی ہے۔مرد کایہ سوچنا کہ وہ عورت کو سب کچھ دے رہا ہے، انتہائی غلط ہے۔ وہ مرد جو پیدا ہوتے ہی عورت کے سامنے رونے لگتا ہے۔وہ مردعورت کو کیا حقوق دے گا،جسے اس دنیا میں آنے کے لیے ایک عورت کے ہی دودھ کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ مرد جسے اپنی نسل آگے چلانے کے لیے کبھی کبھی ایک سے بھی زیادہ عورتوں کیضرورت پڑتی ہے۔ مرد کیوں یہ بات بھول جاتا ہے کہ جس نے اسے نو ماہ تک اپنے پیٹ میں پالااور پھر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر اسے جنم دیا۔ وہ عورت ہی ہے جو اپنی تمام تر خواہشات کو زندہ دفن کرکے رات دن مرد کی بے لوث خدمت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کوپیدا کرنے سے پہلے ہی اس کی فطرت میں شرم وحیاء پیدا فرما کر اْسے ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے رشتے میں مرد کو ایسا تحفہ دیا ہے، جس کا کوئی متبادل نہیں اور نہ ہی مرد کا وجود عورت کے وجود کے بغیر باقی رہ سکتا ہے۔ افسوس کہ دور قدیم سے دورجدید تک عورت مظلوم ہی رہی۔ یہ بات سچ ہے کہ عورت میں بھی کچھ خامیاں ہیں۔ کیونکہ عورت میری ماں بھی ہے میری بہن بھی ہے اور بیوی بھی ہے ،اس لیے عورت کی کردار کشی نہیں کروں گا اور نہ ہی عورت کی خامیاں گنوائوں گا۔ عورت کی ان خامیوں کا ذمہ دار بھی مرد کو ہی سمجھتا ہوں۔ کیونکہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے اس لیے معاشرے میں پیدا ہونے والے اچھے یا برے کرداروں کی ذمہ داری بھی مرد پر ہی عائدہوتی ہے۔دورجدید میں سب سے بڑا لمحہ فکریہ ، یہ ہے کہ کبھی کو ئی عورت اچھا اور قابل فخر کارنامہ سرانجام دیتی ہے تو اس کا سہرا بھی مرد کے سر ہوتا ہے کیونکہ مرد نے اسے اس کا موقعہ فراہم کیاہوتا ہے۔
جبکہ ہر ناکامی اور برائی کی ذمہ داری عورت پر ڈال دی جاتی ہے۔ جو معاشرے جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں غرق ہوجاتے ہیں، وہ بے گناہوں کو ایسی سزائیں دیتے ہیں جو گناہ گاروں کو بھی دی جائیں تو زیادہ ہیں۔ دورجہالت میں عرب لوگ بیٹی کوزندہ دفن کردیاکرتے تھے جبکہ دورحاضر میں بیٹی کوپیداہونے سے قبل ماں کے پیٹ میں قتل کردیاجاتاہے۔ وہ معصوم کیا جانے کہ اسے کتنی بڑی سزا ملنے والی ہے، جسے ابھی اس دنیا میں آنا ہے اور ابھی تو اس معصوم نے اپنی ماں کے وجود سے باہر کی دنیامیں چند سانسیں ہی لی تھیں۔ وہ بالکل تندرست اور توانا تھی۔ابھی اسے مذہب ،ذات پات ،رنگ ونسل، خاندانوں اور فرقوں کی تقسیم کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ابھی تو اس نے ہنسنا بھی نہیں سیکھا تھا، ابھی تو اسے بس رونا آتا تھا اور نہ ہی اسے اپنی جنس کا کچھ علم تھا،اس کی قسمت میں زندہ دفن ہونالکھا تھا کیونکہ وہ جس دور میں پیدا ہوئی تھی وہ دور جہالت تھا،جب بیٹی کو ایک گالی سمجھا جاتا تھااور اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہ تھا،ایسے میں اسے علم ہوتا کہ اس کو پیدا ہوتے ہی یاپیداہونے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں قتل کردیا جائے گا اور علم کے ساتھ اسے اختیار بھی ہوتا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی جنس منتخب کرلے تو شاید وہ کبھی بھی عورت ہونا پسند نہ کرتی، اسے کیاپتہ تھا کہ وہ کس زمانے میں پیدا ہو رہی ہے۔
جی ہاں!قارئین یہ حالات تھے اسلام سے پہلے کے، جب عربوں میں بیٹی کو زندہ ہی دفن کردیا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین میں عورت کو وہ مقام دیا، جس کی وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حقدار تھی۔اسلام نے عورت کو نہ صرف جینے کا حق دیا بلکہ دنیا میں پہلی مرتبہ بیٹی کو وراثت کا حقدار بنا کر اسے معاشرے میں با عزت فرد ہونے کامقام عطا کیا۔ یاد رہے یہ حق صرف اسلام نے دیا اور انسانوں پر اللہ کا احسان ہے۔ عور ت مغرب میں پیدا ہو یا مشرق میں کسی بھی معاشرے نے سوائے اسلام کے عورت کو انسان ہونے کا درجہ نہیں دیا۔ عورت کے وجود سے کائنات کا حسن باقی ہے۔عورت ماں بھی ہے۔عورت بہن بھی ہے۔عورت بیوی بھی ہے اور عورت بیٹی بھی ہے۔عورت کے بغیر نظام زندگی چل ہی نہیں سکتاتوپھرکیوں بیٹیوں کوقتل کرنے کی رسم صدیاں گزرجانے کے بعد بھی قائم ہیں؟ افسوس کہ آج بھی مسلم معاشرے میں خواتین کووہ مقام نہیں دیاجاتا،جس اللہ تعالیٰ ورسول اللہ ؐ نے حکم فرمایاہے۔ توکیاہم اللہ تعالیٰ کے حضورجواب دہی سے بچ جائیں گے اور اپنے آپ کوحضرت محمدؐکااُمتی کہلانے کے حق دارہیں؟۔
(مضمون میں ظاہر ک گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)