مختار احمد قریشی
علامہ اقبال، جنہیں مفکرِ، شاعرِ مشرق اور حکیم الامت کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے، عورت کی شخصیت اور اس کے وجود کو محض ایک صنف نہیں بلکہ کائنات کے حسن و بقا کی بنیاد تصور کرتے ہیں۔ ان کا مشہور مصروعہ،’’وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ‘‘ دراصل نسوانیت کی عظمت، اہمیت اور تخلیقی پہلو کی گہرائیوں کو بیان کرتا ہے۔ اقبال عورت کو محض گھر کی زینت یا مرد کی تابع مخلوق نہیں سمجھتے بلکہ وہ عورت کو تمدن کی معمار، نسلوں کی معلمہ اور روحانی ارتقاء کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک عورت نہ صرف ایک خاندان کی پرورش کرتی ہے بلکہ ایک مضبوط اور اخلاقی معاشرے کی بنیاد بھی رکھتی ہےاور عورت کا وجود محض ایک جسمانی حقیقت نہیں بلکہ ایک فکری، اخلاقی اور روحانی قوت ہے جو انسانی سماج کو اعتدال، وقار اور محبت عطا کرتی ہےاور اس کی حیثیت تہذیب و تمدن کے گرد گھومتی ہے۔ اقبال اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر عورت کو اس کا جائز مقام نہ دیا جائے تو قومیں پستی میں گر جاتی ہیں۔ انہوں نے ’’ماں‘‘ کو خاص طور پر وہ کردار قرار دیا ہے جو بچے کی ابتدائی شخصیت کو تراشتی ہے اور قوم کے مستقبل کی بنیاد رکھتی ہے۔ اقبال عورت کو محض جسمانی خوبصورتی کا استعارہ نہیں بلکہ فہم و شعور کی روشنی سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک باشعور عورت نہ صرف اپنے خاندان کو بہتر بناتی ہے بلکہ وہ پوری نسل کو تہذیبی، دینی اور فکری اعتبار سے جلا بخشتی ہے۔ اسی لیے وہ تعلیم نسواں کے حامی تھے اور عورت کو علم، خودی اور شعور کے زیور سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے ۔
اقبال نے اپنی نظموں اور خطبات میں عورت کو مشرقی اقدار کی محافظ اور مغربی فحاشی کے خلاف ایک مزاحمتی قوت کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے مغرب کی عورت کو آزادی کے نام پر بے راہ روی کا شکار قرار دیا اور مشرقی عورت کی عصمت، شرم و حیا اور اخلاقی عظمت کو سراہا۔ اقبال اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اگر عورت کو اس کی اصل عظمت کے ساتھ تسلیم کیا جائے تو وہ نہ صرف ایک خوشحال گھرانہ بلکہ ایک صالح معاشرہ اور ترقی یافتہ قوم وجود میں لا سکتی ہے۔ ان کے افکار آج کے دور میں بھی عورت کے حقوق، مقام اور کردار پر جاری بحثوں میں راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔اقبال اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ عورت کو مغرب کی اندھی تقلید سے بچنا چاہیے، کیونکہ مغربی تہذیب نے عورت کو اس کے اصل منصب سے ہٹا کر محض جسمانی حسن کا نمائندہ بنا دیا ہے۔ وہ اس تقلید کو عورت کے وقار کے خلاف سمجھتے ہیں اور مشرقی عورت کو اس کی روحانی، اخلاقی اور تمدنی عظمت کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول، ’’شرف میں بڑھ کے ہے گردوں سے انساں کا مقام‘‘ اور عورت چونکہ انسانیت کی اساس ہے، اس کا مقام بہت بلند ہونا چاہیے۔ عورت معاشرے کی اخلاقی اقدار کی پاسبان ہے، اگروہ تعلیم یافتہ، باشعور اور باکردار ہو، تو نسلیں سنورتی ہیں۔ اس لیے اقبال کی فکر میں عورت کا وجود صرف ایک صنف نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک تحریک اور ایک امید ہے جو دنیا کو خوبصورتی، توازن اور اخلاقی بلندی عطا کرتی ہے۔
رابطہ۔8082403001
[email protected]
����������������