Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
گوشہ خواتین

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

Mir Ajaz
Last updated: August 24, 2023 7:46 am
Mir Ajaz
Share
15 Min Read
SHARE

مفتی رفیق احمد کولاری قادری

عورت اس کائنات آب وگل کی حسین شاہکار ہے۔ فاطر کائنات نے عورت کو حسن وجمال کا پیکر اور سکون واطمینان کا مرقع بنایا ہے۔ عورت ایک جنسی نام ہے یہ انسانی معاشرے میں الگ الگ روپ دھار کر اپنا کردار نبھاتی ہے۔ کبھی یہی عورت گھر کی رحمت بن کر بیٹی کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ کبھی وہی ننھی منی خوبصورت بچی بڑی ہوکر سج دھج کر دولہن اور بہو بن کر کسی گھر کی زیب وزینت بنتی ہے۔ پھر یہی عورت بچوں کو جنم دے کر کائنات کا سب سے سربلند وارفع منصب ماں کے مقام پر فائز ہوتی ہے۔ پھر یہی عورت گھر کی مالکن اور محافظہ بن کر اپنے پریوار اور خانوادے کی حفاظت کرتی ہے۔الغرض گوناگوں کردار اور مختلف قسم کے کردار نبھاتے وقت وہ متنوع فضیلتوں و عظمتوں کی حامل رہتی ہے۔ بیٹی کا کردار نبھاتے وقت گھر کی رحمت، بہو اور بیوی کا کردار نبھاتے وقت گھر کی زینت اور ماں کا کردار نبھاتے وقت اولاد کے لیے جنت ہے۔ اس سے بلند وبالا مقام کس مخلوق کا ہوسکتا ہے۔ آج اتنی ساری عظمتوں اور بلندیوں کے باوجود وہ معاشرے میں سسکیاں بھررہی ہیں۔ عصمت وآبرو کی حفاظت وصیانت کے خاطر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔ کچھ بدبخت واوباش قسم کے ان پڑھ لوگ عورتوں کے ساتھ درندگی سے بدتر سلوک کررہے ہیں۔
گردش ایام کی خطا کہئے یا لوگوں کی شامت کہ معاشرے میں عورتوں کے تئیں جاہلانہ رویہ وعقیدہ رواج پکڑ رہا ہے۔ بیٹی کی پیدائش لیکر جاہلی دور میں کیا تصور تھا ذرا قرآن سے پوچھئے قرآن برملا اعلان کرتا ہے کہ جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بشارت کی بُرائی کے سبب کیا اسے ذلّت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبادے گا ارے بہت ہی برا حکم لگاتے ہیں(سورۃ النحل:59) اس سے معلوم ہوا کہ لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں کا طریقہ ہے، فی زمانہ مسلمانوں میں بھی بیٹی پیدا ہونے پرغمزدہ ہو جانے، چہرے سے خوشی کا اظہار نہ ہونے، مبارک باد ملنے پر جھینپ جانے، مبارک باد دینے والے کو باتیں سنا دینے، بیٹی کی ولادت کی خوشی میں مٹھائی بانٹنے میں عار محسوس کرنے، صرف بیٹیاں پیدا ہونے کی وجہ سے ماوئوں پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں طلاقیںدے دینے تک کی وبا عام ہے، حالانکہ بیٹی پیدا ہونے اور اس کی پرورش کرنے کی بہت فضیلت ہے، رسولِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جب کسی شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاں فرشتوں کو بھیجتا ہے، وہ آ کر کہتے ہیں: اے گھر والو! تم پر سلامتی نازل ہو، پھر اس بیٹی کا اپنے پروں سے اِحاطہ کر لیتے ہیں اور اس کے سر پر اپنے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ایک کمزور لڑکی ایک کمزور عورت سے پیدا ہوئی ہے، جو اس کی کفالت کرے گا توقیامت کے دن اس کی مدد کی جائے گی۔ (معجم الصغیر للطبرانی)
اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کوعقلِ سلیم عطا کرے اور جس طرح ہم بیٹا پیدا ہونے پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے اسی طرح بیٹی پیدا ہونے پر بھی خوشی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ضمناً بات آگئی تو ہم نے معاشرے کے اس غلط سوچ پر تھوڑی روشنی ڈال دی۔ اگر عورت کے بابت مسلم معاشرے میں پھیلی ہوئی گندی سوچ اور خام خیالیوں کو بیان کیا جائیں تو آپ حیرت واستعجاب کی بھول بھلیوں میں ایسا غوطہ زن ہوجائیں گے کہ پھر نکلنا دشوار ہو جائے گا۔ یہ پہلو آج ہمارا موضوع سخن ہے بھی نہیں۔ ہمارا قلم عورت کے مختلف مناصب اور کردار کے بارے جنبش کررہا تھا۔ ان کرداروں میں بیوی کا کرداربہت ہی اہم ہے۔آج اسی پر گفتگو کا ارادہ بھی ہے۔
ایک بیٹی جیسے ہی بلوغ کی منزل پر قدم رکھتی ہے تو باپ کا دل و جسم بیٹی کی شادی کو لیکر پریشان رہتا ہے اپنی حیثیت کے مطابق اچھے سے اچھا رشتہ تلاش کرکے بڑی ارمانوں کے ساتھ شادی کراتا ہے۔ باپ بیٹی کی خوشی کے خاطر ہر دکھ درد کو سہنے تیار رہتاہے۔ اس کے عقل وخرد میں یہی چلتے رہتاہے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک، نور نظر، لخت جگر سسرال میں خوش وخرم رہیں۔ اس کی خوشیوں کے خاطر اپنے سر کی چھت تک بیج ڈالتا ہے۔ اتنی ارمان اور حسرتوں کے ساتھ جب ایک بیٹی کسی کی بہو یا بیوی بن کر آتی ہے تو کیا اس کے ارمانوں کا لاج رکھا جاتا ہے یا نہیں؟ چلئے آج اسی کا جائزہ لیتے ہیں۔
بیوی لفظ سنتے ہی سکون اور اطمینان یاد آنا چاہیے کیونکہ قرآن نے جہاں بیویوں کے متعلق کہا تو وہاں بیویوں سے حاصل ہونے والی چیز کو سکون کہا ہے۔ سنئے قرآن کہتا اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف آرام پائو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھی۔ بے شک اس میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں (سورۃ الروم:21) اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو شوہر کے سکون اور آرام کے لئے پیدا فرمایا ہے اور عورت سے سکون حاصل کرنے کا ایک ذریعہ شرعی نکاح کے بعد ازدواجی تعلق قائم کرنا ہے۔آپ نے غور کیا ہوگا کہ قرآن نے بیویوں کا ذکر کرنے کے بعد جو الفاظ استعمال کئے وہ یہ ہے’’بیوی تسکین قلب اور تسکین روح کا سامان فراہم کرتی ہے۔ اور شوہر کو محبت اور الفت کے ذریعے ذہنی آرام وراحت دیتی ہے‘‘۔ آج مسلم معاشرے میں بسنے والے ذہنی سکون سے محروم ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بیوی اور عورت کو صرف جنسی تسکین اور شہوت کی آسودگی کی بنیاد بنایا۔ اور اس طرح قرآن کی تعلیمات سے بھی دور ہوگئے۔
بیوی گھر کی مالکن ہے نا کہ وہ گھر کی نوکرانی۔ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، ان کی دکھ درد میں شریک ہونا، انکی عزت وعصمت کی حفاظت کرنا، ان کے بنیادی حقوق کی پاسداری کرنا اور انہیں محبت کرنا دینی فریضہ ہے۔ کچھ گھروں میں ان سب کے عکس ہوتا ہے جیسے ہی ایک لڑکی بہو یا بیوی بن کر آتی ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ ابھی گھر میں کام کرنے والی آگئی۔ اس کے ساتھ نوکرانی وکنیز جیسا بہیمانہ سلوک کیاجاتا ہے۔ اسلام مذکورہ تمام ناروا برتاؤ سے پاک و منزہ ہے۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا ہے شاید کہ کوئی مذہب دیا ہو۔ صرف منصب ومقام تک محدود نہیں بلکہ وجود اور جینے کا حق بھی چھینا جارہا تھا اسلام نے ان درندوں سے انہیں بچاکر زندگی کا پورا حق عطا کیا۔ ایک مرد کی اچھائی وبرائی کا معیار بھی اپنی عورتوں سے حسن سلوک اور نیک برتاؤ پر منحصر ہے۔ آقائے دوجہاں ﷺ فرماتے ہیں ایمان کے اعتبار سے کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہترہ و اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو‘‘(الترمذی) ہم جو اپنی عورتوں پر خرچ کرتے ہیں اس کا بھی ہمیں ثواب دیا جاتا ہے جیسے کہ آقائے دوجہاں ﷺ فرماتے ہیں تم کوئی چیز بھی خرچ نہیں کرتے جس کے ذریعے سے تم اللہ کی رضا چاہتے ہو، مگر تمہیں اس کا اجر دیا جاتا ہے حتی کہ اس لقمے کا بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔(مسلم)
ایک صحابی رسول ﷺ سرکار دوعالم ﷺ کی بارگاہ میں آکر بیوی کے حقوق کے متعلق سوال کرتے ہیں اور سرور کونین ﷺ اس شخص کو مختصر انداز میں بیان کرتے ہیں کہ تم پر بیوی کے کیا کیا حقوق ہیں تو چلئے حدیث سنئے معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنی عورتوں کے پاس کدھر سے آئیں، اور کدھر سے نہ آئیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’اپنی کھیتی میں جدھر سے بھی چاہو آؤ، جب خود کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، اور جب خود پہنو تو اسے بھی پہناؤ، اس کے چہرہ کی برائی نہ کرو، اور نہ ہی اس کو مارو‘‘۔(ابوداؤد) بیوی سے حسن سلوک کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو(سورۃ النساء:19) اس آیت کے آگے کا حصہ کافی اہمیت والا ہے۔ گھروں کو امن وامان کا گہوارہ بنانے کا نظریہ قرآن پیش کررہا ہے کہ ”ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو۔” (سورۃ النساء) گھروں کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے ایک بہت عمدہ نفسیاتی طریقہ بیان کیا جارہا ہے۔ بیوی کے حوالے سے فرمایا کہ اگر بدخُلقی یا صورت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے عورت تمہیں پسند نہ ہو تو صبر کرو۔کیونکہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی بیوی سے تمہیں ایسی اولاد دے جو نیک اور فرماں بردار ہو، بڑھاپے کی بیکسی میں تمہارا سہارا بنے۔
ایک گھر اور پریوار کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے قرآن نے کتنا خیال رکھا اور ایک سے ایک عمدہ ونفیس نظریات پیش کئے تاکہ بنی نوع انسانی اس پر عمل پیرا ہوکر گھروں سے لیکر معاشرے تک کو پرسکون بنائے رکھیں۔ قرآن نے عورتوں کے تمام معاملات کو بڑے اچھے انداز میں سورۃ النساء میں بیان کیا۔ لیکن ہم قرآن سے دور۔ قرآن کی تعلیمات سے دور ہیں۔ اسی کی نحوست کہئے کہ ہم آج نفسیاتی طور پر بیمار وپریشان ہیں۔ اس کے حل کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ کاش امت پھر سے قرآن اور تعلیمات قرآن کو سینے سے لگالیتی تو وہ دن دور نہیں پھر سے ایک خوشگوار زندگی اور خوشگوار معاشرہ تشکیل پائے گا۔ حضور ﷺ اپنی ازواجِ مطہرات سے کس طرح برتاؤ کیا کرتے تھے اگر ہمیں اس کا علم ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ آپ ﷺبیوی سے ہنسی مزاق بھی کرتے، شگوفہ اور ظرافت آمیز باتیں سناکر ان کے دل کو سکون فراہم کرتے، گھر کے اندر ان کے کاموں میں ہاتھ بٹا کر ان کی دلجوئی کرتے۔ یہ کسی معمولی انسان کی طرز زندگی نہیں بلکہ تاجدار کائناتﷺ کی روشن زندگی کے چند تابناک پہلو ہیں۔ اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر میں کیا کرتے تھے؟ تو جواب دیا: ”آپ ایک عام انسان کی طرح رہتے۔ اپنے کپڑے سے پسو اور چچڑی وغیرہ نکالتے، اپنی بکری دوہتے اور اپنے کام خود کرتے (مسند احمد)
اس کے علاوہ بھی سرکار دو عالمﷺ کی ازدواجی زندگی کے ڈھیر ساری حدیثیں ہمیں ملتی ہیں جو ہمارے لیے اسوئہ حسنہ اور نمونہء حیات ہیں۔ ایک انسان کی بھلائی وبرائی کا معیار بھی اپنی بیوی سے حسن سلوک اور برتاؤ پر مبنی ہے جو اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرتا ہے وہ تمام سماج اور معاشرے کے ہر فرد کے ساتھ نیک تعامل کرے گا۔ لیکن المیہ یہ کہ آج کل ہم میں سے ہر فرد لوگوں کے سامنے نیک اور صالح بننے کا ڈھونگ رچاتے پھرتے ہیں۔ مگر گھر والوں کے ساتھ ہمارا تعامل اور سلوک ٹھیک نہیں رہتا۔ اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں۔ لہذا ہمارے جملہ قارئین سے مخلصانہ اپیل ہے کہ اپنے اہل وعیال اور بالخصوص بیوی کے ساتھ ہمارا سلوک اچھا رہیں تو گھر جنت ہے ورنہ وہ گھر جہاں میاں بیوی کے درمیان ہمیشہ ان بن ہو اس بہتر جہنم ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو حسن معاشرت کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری بیویوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔
رابطہ۔پرنسپل شمس العلماء عربک کالج، توڈار، منگلور کرناٹک
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیںا ور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
ہندوستان نے امن کی بحالی کے لئے بڑے بھائی کا رول نبھایا: الطاف کالو
تازہ ترین
جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کے بعد جموں وکشمیر کے سرحد خاموش، بازاروں میں گہماگہمی
تازہ ترین
ہندوستان جنگ نہیں چاہتا لیکن ملی ٹینسی کے بنیادی ڈھانچے پر کارروائی ضروری تھی: ڈوبھال
برصغیر
اب کشمیر معاملے کوحل کے لیے کام کروں گا: ٹرمپ
برصغیر

Related

گوشہ خواتین

عصر ِ حاضر کا انسان، حقیقت یا دکھاوا؟ قسط۔۲

May 7, 2025
گوشہ خواتین

باپ کا سایہ ۔رحمت کی چادر ہے فکروادراک

May 7, 2025
گوشہ خواتین

خاندان کی تربیت میںخواتین کا کردار معلوماتی مطالعہ

May 7, 2025
گوشہ خواتین

خواتین اپنا وقار دُنیا کے سامنے لائیں فکر انگیز

April 30, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?