کچھ عرصہ سے کشمیر کی سرزمین پر خون آشام نحوستوں کا سایہ متواتر دراز سے دراز سے درازتر ہورہاہے ۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب یہاں کشت وخون کا کوئی دل دہلانے والاواقعہ رونما نہیں ہوتا ۔ مسلح جھڑپیں، عوامی مظاہرے اور پھر مظاہرین پر گولیوں اور چھروں کی بارشیں، عوام کی مارپیٹ ، آزادی پسندوں کی گرفتاریاں اور طرح طرح کے دوسرے مظالم دیکھ کر ہر باشعور انسان کلیجہ کو منہ کو آتا ہے ۔ میری نگاہ میں غالباً یہی مسئلہ کشمیر کا وہ’’ حل‘‘ ہے جس کے لئے ہندوستان کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے تین ماہ کا وقفہ مانگا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بیچ ہمارے طالع آزما لیڈر اور حکمران کیا کر رہے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں ۔ پی ڈی پی سے گلہ ہی نہیں کہ وہ زخموں کامرہم اور گولی نہیں بولی کے بالکل اُلٹ جارہی ہے کیونکہ اس کی شہ رگ جن سنگھ کے ہاتھ میں ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ مرکز کو صلاح دے گئے کہ بھاجپا پی ڈی پی سے رشتہ توڑدے کیونکہ بقول ان کے یہ پارٹی حریت سے ملی بھگت کر رہی ہے ، اور یہ کہ اس کے بیانات حریت (گ ) سے مماثلت رکھتے ہیں ۔ قبل ا زیں ڈاکٹر صاحب حریت کو علی الاعلان اپنی غیر مشروط حمایت دے گئے ، اسے تحریک ِآزادی زوروشور سے چلانے کا مشورہ دیا ، اپنے حامیوں کو ہدایت دی کہ تحریک میں جوق درجوق شامل ہوجاؤ، ناراض کشمیری نوجوانوں کی ایجی ٹیشن بشمول عسکریت پسند ی کو حق بجانب کہا،انہیں قوم کا ہیرو جتلایا ۔اب دلی میں ذہنی تھکاوٹ دور کرنے کے بعد قائد ثانی پھر اپنی وضع پر آگئے ہیںکہ عوامی جذبات کے بالکل برعکس ابو دجانہ کو جان بحق کر نے والے فورسز کوشاباشیاںدے رہے ہیں اور کشمیر کی خصوصی پوزیشن کوبچانے کی دہائیاں دے رہے ہیں ۔ حالانکہ تاریخ کا کڑوا سچ یہ ہے کہ لینڈگرانٹس بل سے لے کر این ایچ پی سی ، پی ایس اے ، پوٹا اور این آئی اے تک این سی کی ہی دین ہے جس نے کشمیر کی خودمختاری یعنی دفعہ ۳۷۰؍ کے پرخچے اڑادئے۔ کیا پتہ کل قائد ثانی اور کیا کیا گل افشانیاں فرمائیں گے ۔یہ کیسی دوہری سیاست ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ اہل کشمیر نے ایسے لیڈروں اور حاکموں کو دیکھا ہی نہیںجنہوں نے قوم کو لوٹنے اور اس کا جذباتی استحصال کر نے کی بجائے کبھی ایک بار کشمیر کی بھلائی اور بہتری کے لئے اپنے دل اور دماغ کی توانائیاں صرف کی ہوں۔ ہم نے قائد اعظم جیسا بے لوث رہنما ، گاندھی جیسا بے نفس نیتا ، واجپائی جیسا قوم پرست پردھان منتری ، اڈوانی جیسا ایک ہی موقف پر قائم رہنے والا شخص اپنی صفوں میں دیکھا ہی نہیں۔ لیڈروں کی بھیڑ میں کیا آج بھی کوئی لیڈر ہے جس کے خلوص ودیانت اور ثابت قدمی پر ہم آنکھ بند کر کے اعتماد واعتبار کرسکیں ؟