بلال فرقانی
سرینگر//سرینگر میں محکمہ آب پر دہرے کنٹرول اور پی ایچ ای سے سرینگر میونسپل کارپوریشن کو اختیارات کی منتقلی میں طریقہ کار طے نہ کرنے کے نتیجے میں ایک لاکھ35ہزار کے قریب صارفین تذبذب مبتلا ہوگئے ۔ تاہم میونسپل کمشنر نے اس بات کو مسترد کیا کہ طریقہ کار اور سپردگی نہیں ہوئی ہے۔ سرکار کی جانب سے2سال قبل15فروری2021کو ایک حکم نامہ زیر نمبر39/JKJSD/2021جاری ہوا ،جس میں سرینگر اور جموں میں میونسپل کارپوریشنوں کے تابع کئی محکموں کو رکھا گیا،جن میں محکمہ آب بھی شامل تھا۔ جموں میں احکامات کی تعمیل عمل میں لائی گئی اور محکمہ پی ایچ کے5ڈویژنوں کو جموں میونسپل کارپوریشن میں ضم کیا گیا تاہم سرینگر میں محکمہ کے شہرکے ڈویژنوں کو ناہی مکمل طور پر ’ایس ایم سی‘ میں ضم کیا گیا اور نا ہی ان کو اپنے اصل محکمہ کے ساتھ رکھا گیا۔ محکمہ کے ملازمین اس شش پنج میں مبتلا ہیںکہ وہ سرینگر میونسپل کارپوریشن کے ملازم ہیں یا محکمہ جل شکتی۔ ذرائع نے بتایا کہ واٹر ورکس ڈویژن میں،ماسٹر پلان،سٹی سب ڈویژن،رورل واٹر سپلائی ڈویژن گاندربل،لال نگر سب ڈویژن چاڈورہ اور پی ایچ ای میکنکل سرینگر میں1117مستقل اور1352روزنہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین ہیں تاہم ان میں سے500مستقل ملازمین اور600ڈیلی ویجروں کو سرینگر میونسپل کارپوریشن میں منتقل کیا گیا۔محکمانہ ذرائع نے بتایا کہ ان احکامات کے تحت جموں کشمیر میں مجموعی طور پر140اسکیموں کو میونسپل کارپوریشنوں میں ضم کرنا تھا،تاہم سرینگر میں 61واٹر اسکیموں میں سے صرف4کو ہی ضم کیا گیا۔ اس نیٹ ورک کی لمبائی3233 کلو میٹروں پر مشتمل ہے۔ سرینگر میں صارفین کی تعداد قریب1لاکھ35ہزار601ہیں،جنہیں پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کی ذمہ اری سرینگر میونسپل کارپوریشن کو سونپی گئی،تاہم قریب ایک ہزار ملازمین ایس ایم سی کے ساتھ منسلک ہونے کے باوجود بھی محکمہ ’پی ایچ ای‘ ہی صارفین کو پانی فراہم کر رہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ان ملازمین کو اگر چہ تنخواہ سرینگر میونسپل کارپوریشن سے مل رہی ہے تاہم جو پانی کا فیس صارفین ادا کرتے ہیں وہ محکمہ’ پی ایچ ای‘ ہی وصول کرتا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ سرینگر واٹر ورکس ڈویژن میں مجموعی طور پر صارفین کو188کروڑ22لاکھ74ہزار روپے واجب الادا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ3سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک سرینگر میونسپل کارپوریشن اور پی ایچ ای میں طریقہ کار ہی نہیں طے ہوا کہ شہر میں نظام آب کون چلائے گااور نا ہی حوالے گی یا سپردگی ہوئی۔ سرینگر میونسپل کارپوریشن کے کمشنر اطہر عامر خان نے تاہم دہرے کنٹرول اور طریقہ کار طے کرنے کے علاوہ سپردگی نہ ہونے کے معاملے کو سرے سے نکارتے ہوئے کہا کہ واٹر ورکس ڈویژن کی ٹیم جو سرینگر میں ہے وہ سرینگر میونسپل کارپوریشن کا ہی حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان ملازمین کا بجٹ اور دیگر معاملات بھی ایس ایم سی ہی دیکھتی ہے۔ ملازمین کے مطابق فرمان جاری کرنے کے دوران دونوں محکمے ان پر اپنا حق جتاتے ہیں،تاہم ان کے مسائل کے وقت دونوں پلو جھاڑتے ہیں۔ پی ایچ ای ایمپلائز ایسوسی ایشن کے صدر سجاد احمد پرے نے کہا’’محکمہ پی ایچ ای کے سابق اعلی آفیسران نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے74 آئینی ترمیم کی آڑ میں ایک منصوبہ بند سازش کے تحت واٹر ورکس ڈویڑن سرینگرکے تشخص،افادیت ، اہمیت کم کرنے اور غریب ملازمین بشمول ڈیلی ویجرس و کیجول لیبرس کے مستقبل کو تاریک بناکے ایک کنفیویژن پیدا کیا۔جسکے سبب پورا واٹر ورکس ڈویڑن سرینگر کا نظام و ملازمین کے دو طرفہ کنٹرول کے شکار ہیں۔