ریاست میں پچھلے کئی برسوں سے پانی کی شدید قلت پیداہوئی ہے جس کو پورا کرنے کیلئے پہلے تو جگہ جگہ ہینڈ پمپ نصب کئے گئے تاہم ان کی دیکھ ریکھ نہ ہونے کی وجہ سے جب یہ منصوبہ ناکام ہوگیاتو پھر واٹر سپلائی سکیموں پرکام شروع ہوا،جو ابھی تک اتنا زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوسکاہے ۔ان سکیموں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بھی ان کی دیکھ ریکھ کیلئے کوئی مناسب انتظام نہ ہوناہے اور کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار کرنے کے بعد یہ پروجیکٹ ایک ایک کرکے ناکارہ ہوتے جارہے ہیں جبکہ کچھ جگہوںپہ ابھی کام شروع ہی نہیںہوا۔اگر ان سکیموں کا دھیان رکھاجاتاتو خشک سالی کے موسم میں کئی علاقوں میں پانی کی قلت کا مسئلہ حل ہوسکتاتھا۔اگرچہ پہلے بھی واٹر سپلائی سکیموں پر کام ہواتاہم سپلائی میں بہتری لانے کی غرض سے مرکزی حکومت نے 2014میں ایک جامع سکیم نیشنل رورل ڈرنکنگ واٹر پروگرام کے نام سے شروع کی لیکن پانچ برسوں کے دوران اس کی عمل آوری اتنی زیادہ کامیاب اورسود مند ثابت نہیں ہوسکی جس کی امید کی جارہی تھی۔ اس سکیم کے تحت پہلے تو مقرر کئے گئے اہداف وقت پر پورے نہیں ہوسکے اور پھر بدقسمتی سے ان سکیموں کی دیکھ ریکھ نہیں کی گئی جو اس کے تحت تعمیر ہوئی تھیں ،نتیجہ کے طور پر کروڑوں روپے خرچ کرکے تعمیر کی گئی یہ سکیمیں ناکارہ بن گئی ہیں جن کو دوبارہ سے قابل استعمال بنانے کے اقدامات بھی نہیں کئے جارہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست بھر میںا س پروگرام کے تحت 2511سکیمیں ہاتھ میں لی گئی ہیں جن میں سے 1566صوبہ جموں جبکہ 934صوبہ کشمیر میں تعمیر ہونی ہیں ۔جموں میں سب سے زیادہ ضلع جموںمیں 294،راجوری میں168،پونچھ میں89،کشتواڑ میں99اورکٹھوعہ میں77اور سانبہ میں بھی اتنی ہی سکیموں پر کام ہورہاہے ۔صوبہ جموں کے پہاڑی اضلاع میں خشک سالی کے دوران لوگوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنارہتاہے اور مردو خواتین کو دشوار گزار راستوں سے گزرتے ہوئے کئی کئی کلومیٹر دور سے پانی سروں پر اٹھاکر لاناپڑتاہے جبکہ سڑک کے کنارے واقع گھروں میں رہنے والوں کو منہ مانگی قیمتوں پر پانی ذریعہ خریدکراستعمال کرناپڑتاہے اور اسی طرح سے کئی علاقوں میں پانی ڈھونے کیلئے گھوڑوں اور خچروں کا استعمال کرناپڑتاہے ۔ایسے حالات میں یہ سکیمیں لوگوں کیلئے بہت زیادہ سو دمندثابت ہوسکتی تھیں تاہم نہ ایسا اب تک ہواہے اور نہ ہی مستقبل میں کوئی امیدنظر آرہی ہے ۔عموماًیہ دیکھاگیاہے کہ ایک یونٹ کا موٹرخراب ہونے یا کوئی دوسری تکنیکی خرابی ہونے پر اس کو طویل عرصہ تک ٹھیک نہیں کیاجاتا۔اگر سکیم کاموٹر پونچھ یا کشتواڑ میں خراب ہوگیاہو تو اسے ٹھیک کروانے کیلئے جموں بھیجناپڑتاہے ،جس کے لانے اور لیجانے میں ہی بہت زیادہ وقت صرف ہوجاتاہے اور پھر اوپر سے متعلقہ حکام کی طرف سے غیر ضروری تاخیر کی جاتی ہے اور کئی کئی ہفتوں تک موٹر ایک ہی جگہ پڑا رہتا ہے ۔اسی طرح سے اگر کوئی بڑی خرابی واقع ہوجائے تو اسے ٹھیک کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی جاتی اور نتیجہ کے طور پر یہ سکیم ہی ناکارہ ثابت ہوتی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پانی کے بحران سے دوچار ریاست جموں و کشمیر میں مصنوعی سطح کے اقدامات نہ کئے جائیں بلکہ حقیقی معنوں میں ان سکیموں کی عمل آوری کویقینی بنایاجائے جنہیں قلت ِ آب کو دور کرنے کے مقصد کیلئے شروع کیاگیاہے ۔اگر حکام کی لاپرواہی کا سلسلہ اسی طرح سے جاری رہاتو پھر مستقبل قریب میں کسی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی اور یہ بحران دن بدن شدید سے شدید تر ہوتاجائے گا۔