سرحد ِادراک
سید مصطفیٰ احمد
اللہ تعالیٰ نے والدین کا بہترین تحفہ دے کر ہم سب پر بہت بڑا احسان کیا ہیں۔والدین کی قربانیوں کی کوئی گنتی نہیں ہیں۔اگر ہم گننا بھی چاہے،تب بھی نہیں گن سکتے ہیں۔انسان کے پروان چڑھنے میں سب سے زیادہ رول والدین کا ہوتا ہے۔Napoleon سے لے کر Thomas Alva Edison کی عظیم تربیت میں والدین، خاص کر ماں کا کردار سب سے زیادہ اہم تھا۔حضرت امام حسین کی بھی اعلیٰ اور معیاری تربیت کا سہرا بھی ان کی عظیم اور برگزیدہ والدہ صاحبہ کے مقدس سر پر ہی باندھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی مثالیں ہیں جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا کے ہنگاموں سے نکلنے کے لئے والدین کی ناؤ پر سوار انتہائی ضروری ہے۔ان کی غیرموجودگی میں دنیا ایک نہ تھمنے والے طوفان کے مانند ہے۔
جب ہم اپنے ماحول کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اس میں زیادہ تر کام خودغرضی اور لالچ کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔جس شخص سے بھی ہماری ملاقات ہوتی ہے، اس کے پیچھے لالچ اور مفاد کے عناصر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوتے ہیں۔ Capitalism یا Profit-driven economy نے لالچ کی ساری حدود کو پار کر دیا ہے۔ اب انسانوں اور کائنات کی ہر چیز کو نفع اور نقصان کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ان حالات میں والدین جیسی معتبر ہستیوں کا لالچ کے بغیر اپنی اولاد کی خاطر ہر ممکن کوشش کرنا ناقابل قبول لگتا ہے۔دنیا کے حالات نے ایسی کروٹ لی ہے کہ اب سارے رشتے جھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔لیکن ان بُرے حالات میں بھی والدین کا ملائم سایہ دھوپ کی زہریلی تپش کو کم کرتے ہوئے جینے کی امید میں اضافہ کرتے ہیں۔ جب میں نے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے بعد کسی اور کا حق ادا کرنے کے معاملے میں غوروخوض کیا، تو والدین کا ہی اگلا نمبر آتا ہے،ان کی جگہ کوئی بھی شخص نہیں لے سکتا ہے۔حضرت محمد مصطفیٰ ؐکی حیات طیبہ میں بھی ہر موڑ پر والدین کی عظمت کے پھول بکھرے پڑے ہیں۔کوئی بھی انسان کہیں سے بھی والدین کی عظمت کے پھول چُن کر اپنی زندگی کو خوشیوں سے بھر سکتا ہے،مہکتے ہوئے پھولوں سے اپنی دنیا میں مشک کے دریا بہا سکتا ہے۔
لیکن آج والدین کی قدر و قیمت میں نمایاں گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے۔وقت وہی ہے لیکن ترجیحات بدل گئی ہیں۔ماحول میں ہر قسم کی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔اس تیز رفتار دنیا میں رشتوں کے ٹوٹنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ہر رشتے کا ٹوٹ جانا ایک بُرا فعل تو ہےہی، لیکن والدین سے دوری اختیار کرنا ایسا ہے جیسے اعلان جنگ کا بغل بجانا۔ Abhiley اور Father to Son جیسے تحریروں میں ہمیں generation gap کی واضح نشانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔یہی نشانیاں آج کے سماج میں جابجا دکھائی دیتی ہیں۔کہنے کا مطلب ہے کہ وقت،لوگ اور کائنات وہی ہیں لیکن اگر تبدیلیاں آئی ہیں، وہ ترجیحات میں آئی ہیں۔ماحولیاتی کثافت سے ہر قسم کی بدبو پھیل چکی ہے لیکن زمین، ہوا اور پانی اپنی جگہ ہیں۔ہوبہو حال انسان کا بھی ہے۔ہمارے اندر بدبو پیدا ہوچکی ہے،اس بدبو کی وجہ سے ہم حق اور ناحق کے بیچ فرق کرنے سے محروم ہوچکے ہیں۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ موجودہ گھمبیر حالات میں والدین کے منصب کو بحال کیا جانا چاہیے۔ان کی قربانیوں کی کہانیاں مقدس مان کر ان کا ہرسو پرچار کیا جانا چاہیے۔والدین کے سامنے عزت اور احترام کے حدود میں رہ کر ان سے پیار اور محبت کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ان کے احساسات کا خیال کرنا اولاد کا بنیادی فرض ہے۔امید کرتے ہیں کہ ہم سب مل کر اپنے والدین کی خدمت میں جھٹ جانے کی ہر ممکن کوشش کریںگے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے والدین پر رحم کریں!
[email protected] 7006031540رابط۔