بلاشبہ خاندان معاشرے کا سب سے اہم اور بنیادی عنصر ہوتا ہے،جہاں والدین کے کردار اور گھریلو ماحول سے بچے اخلاق، اقدار، عادتیں اور روایات سیکھتے ہیں۔ خاندان کے بعد بچوں کی تربیت میںاہم کردار تعلیمی اداروں کا ہوتا ہے،جہاںان کی ذہن سازی ہوجاتی ہےاور پھر ان کی ذہنی ارتقاء کا اندازہ اُن اداروں کی تعلیمی حالت سے ہی لگایا جاتا ہے کہ نسلِ نو کی تعلیم و تربیت، کلچر، تہذیب وثقافت اور دورِ حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہو سکی ہے یا نہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے زیادہ تر تعلیمی اداروں کا کرداراس معاملے میں کافی پیچھےہے۔شائد یہی وجہ ہے ہماری نئی نسل میں سماجی اور اخلاقی اقدار کی بہت کمی ہےجبکہ نوجوان نسل کی زیادہ تعداد دورانِ تعلیم اور ڈگریاں ملنے کے بعد بھی کسی بھی بات پر اور کسی بھی معاملے میں اپنے والدین کی مداخلت قبول ہی نہیں کرتے ۔بلکہ ہر معاملے میںاپنے ماں باپ کو اَن پڑھ یا جاہل قرار دے رہے ہیں۔تعجب ہےکہ یہ کن تعلیمی اداروں پیداوار ہے جن کو اپنے ماں باپ کی باتیں بُری لگتی ہیںاور زندگی کے مصائب و مشکلات اور اُتار وچڑھائو کی ہوا کھائے بغیر اتنے تجربہ کار ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے مستقبل کا ہر فیصلہ خود لینے لگے ہیںاور کسی بھی معاملے میں اپنے ماں باپ کا ساتھ اور رضامندی کی ضرورت نہیں سمجھتے ہیں۔ اُن کو کون سمجھائے کہ ماں باپ کبھی اَن پڑھ اور جاہل نہیں ہوتے۔ وہ جو بھی چاہتے ہیں اولاد کی خوشی اور ترقی کے لئے چاہتے ہیں۔بچے نہیں جانتےکہ مائیں جن کی کوکھ سے انہوں نے جنم لیاہے، وہ اُن کے قدموں کی آہٹ سےہی اپنے بچوںکے دلوں کے وہم و گمان تک جان لیتی ہیں، ایسا اس لئے کہ وہ اللہ کے عطا کردہ منصب ’ماں‘ پر فائز ہیں، اُن کی ممتا اُن خوبیوں سے متصف ہے کہ وہ اپنی اولادکے عادات سے بخوبی واقف ہیں۔ اللہ کا ہی یہ کرم ہےکہ کڑکے کی سردیوں اور دھوپ کے تھپیڑوں میں اولاد کی خاطر پسینہ بہانے والا باپ اور پورا دن گھر میں نوکرانی بن کر بچوں کے قدموں کی دُھول صاف کرنے والی ماں کویہ جذبات و احساسات خدا کی طرف سے ہی عطا ہوئے ہیں۔چنانچہ مغربی تہذیب کے جن نظریات کی آبیاری آج ہمارے یہاں کی جا رہی ہے، وہ اُن قوموں کی ترقی کا راز ہو سکتے ہیں،لیکن جواُن کےکئی نظریات ہم فی الفور ان کو اپناتےہیں وہ ہمارے معاشرتی نظریات اور خاندانی نظام سے بالکل متصادم ہیں۔ کیا اب ہمارے بچے ایسی تہذیب کو اپنے اسلامی اصولوں ،ادب و آداب پر ترجیح دیں گے، جن قوموں میں خاندان کا تصور ہی نہیں۔ جہاں ایک بڑی تعداد کے پاس والد ین جیسی عظیم ہستی کا سایہ ہی ساتھ نہیں۔ نسلِ نو کو بتانا ہو گا ماں کے آنچل میں جو سکون ملتا ہے اور باپ کی دعا جو مشکل وقت میں سہارا بن جاتی ہے، وہ صرف اور صرف ہماری تہذیب کا حسن ہے۔ ماں باپ کی اولادسے لازوال محبت دیکھ کرتپتی دھوپ بھی سایہ دینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ بچے کے چہرے پر خاموشی پڑھ کر ماں کا تسلی دینا اور بخار کی صورت ساری رات گود میں سر رکھے دعائیں کرنا، اپنی عمراُسے لگا دینا، یہ حوصلے خالصتا ًہماری تہذیب کی ماوئوں کےہی ہیں ۔اپنی جاں فشانی، خدمات، عنایات کے عوض اُسےاپنے جگرگوشوں سے کچھ خاص غرض و طلب بھی نہیں ہوتی، نہ ہی صلےو ستائش کی چاہ۔لیکن جب ماہ وسال کی مالا جپتے، وقت گزرتا ہے، تو یہی اولاد ان کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی بجائے شکوے شکایات کے باب کھولنے لگ جاتی ہیںاور اُنہیں جاہل و گنوار کہہ دیتی ہے۔اب تو ہماری نوجوان نسل ایسی غفلت میں پڑی ہے کہ وہ محسوس ہی نہیں کرتے ہیںکہ آج وہ جوکچھ بھی ہیں،اپنے والدین کے ہی مرہونِ منت ہیں۔شائد وہ یہ بھی بھول جاتی ہے کہ یہ دنیا مکافات ِ عمل ہے،جیسا رویہ تم اپنے والدین کے ساتھ رکھیں گے ،آپ کی اولاد بھی ویسا ہی آپ کے ساتھ کرے گی۔نوجوان نسل کو چاہئے کہ اپنے والدین کو بُرا بھلا کہنے کا مشغلہ چھوڑ دیںاور دنیا کی ان عطیم ہستیوں کی بے قدری سے ہر ممکن بچیں،ان کے مشوروں اور رضا کی قدر کریں،کیونکہ والدین دنیا کی بہت بڑی نعمت ہے، جو آپ کے لئے شجر دار درخت ہیں۔