جس طرح شریعت میں والدین کے حقوق کا خیال رکھنا اور پوراکرنا اولاد پرواجب ہے اسی طرح شریعت میںاولاد کے لئے بھی حقوق متعین فرمائے ہیں جن کا اہتمام کرنا والدین پر فرض ہے۔ بعض والّدین انپے بچوں کو اکثر معمولی باتوں پر سختی کرتے ہیںجس سے بچوں میں تخلیقی صلاحتیں دم توڑ جاتی ہیںاور وہ گھر کو زندان خانہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ بچوں میں انپے گھروالوں کے تئیں جذبہ مروت ختم ہو جاتی ہے اور ان سے دور رہنے میں ہی انپی عافیت سمجھتے ہیں ۔ آہستہ آہستہ سخت مزاج اور شریر بن جاتے ہیںاور بعض اوقات انتہائی سخت اقدام اُٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔حدیث شریف میں آیا ہے ــجو بڑوں کی عزت نہ کریں اور چھوٹوں پر شفقت نہ کریں وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔آج کل کے والدین مادیت پرستی کو انپے ذہن و دل پر سوار کر رکھا ہے اوراپنا ساراوقت دھن دولت جمع کرنے میں صرف کرتے ہیں، اس طرح ان مصروفیات کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو مناسب وقت دینے سے قاصر رہتے ہیں ۔ اس وجہ سے بچے اپنے آپ کو گویا زندگی کے تپتے صحرا میں اکیلے محسوس کرتے ہیں۔ مال کمانا روزی کے اسباب تلاش کرنا انسان کے لئے ضروری ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنے بچوں کی ذمہ داریوں سے غافل ہو جائے۔ بعض والدین اپنے بچوں کے ساتھ مساوی برتاو نہیں کرتے ہیں۔ بڑے کو چھوٹے اورچھوٹے کو بڑے پر بیٹے کو بیٹی،اور بیٹی کو بیٹے پر فوقیت دیتے ہیں۔جن بچوں کے ساتھ زیادہ شفقت پیار ومحبت رکھا جاتا ہے وہ سر پھرے ہوجاتے ہیں اور جن بچوں کی حق تلفی ہو وہ ضدی ،ہٹ دھرم اور درد سر بن جاتے ہیں ۔ اس لئے بچوں سے مساوی برتاوؤ کرنا چاہے۔اکثر والدین بچوں کی سرگرمیوں اور دلچسپیوں پر کم دھیان دیتے ہیں اور اس چیز سے بھی بے خبر رہتے ہیں کہ ان کا بچہ کون سا لٹریچر اور کونسی کتابوں کا شوقین ہے یا ان کے زیر استعمال کون سی چیزیں ہیں؟ان کی سرگرمیاں کیا ہیں؟ ان کی سوچ کس سمت جارہی ہے ؟ان سب امور پر اگر والدین اگر بر وقت نظر گزرنہ رکھ پائیں تو بچے کی اخلاقی و سماجی نشوونما بری طرح متاثر ہوگی او بعد میںوالدین کے قابو سے ایسے بچے باہر جاتے ہیں ۔بعض والدین اتنے غافل اور غیر ذمہ دار ہوتے ہیں کہ ان کا بچہ جب اپنے بڑوں سے بد تمیزی کرتا ہے ،تب والدین اس کے آگے کے اثرات کو نظرا نداز کر جاتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے ۔ بعض والدین اپنے بچوں کو آیا اور ڈرائیوروں کے سپرد کرکے اپنی ذمہ داریوں کا حق ادا نہیںکرتے ۔ اگر چہ بعض اوقات ان سب لوگوں سے مدد لینا ضروری بھی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو ماں کی آغوش ممتا اور باپ کی شفقت سے محروم رکھیں ۔ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے پھر اگر یہی ماں بچے سے دور رہے تو بچہ کیا سیکھ پائے گا ؟بچے کی تربیت اور پرورش میں ماں باپ کا زیادہ سے زیادہ حصہ ہونا چاہیے ۔بچوں کے سامنے لڑنے جھگڑے کرنے سے بچے جھگڑالو اور بد اخلاق بن جاتے ہیں ۔بعض والدین بچوں کے سامنے گالی گلوچ ،بد عنوانی،دھوکہ دہی کرتے ہیں ۔ بچے کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ اپنے بڑوں کی نقل کرتا ہے اور اپنے والدین کے طور طریقے اپنانے کا مظاہرہ کرتے رہتا ہے ۔بچے کے سامنے خودبُرے کام انجام دینا اور انہیں اچھے کاموں کی تلقین کرنا ایسا ہی عمل ہے جیسے آپ اپنے بچے کوکسی کنویں میں دھکا دیں اور ساتھ ہی یہ کہیں بیٹا احتیاط سے اپنے کپڑے گیلے نہ کرنا۔ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق آپ کا بچہ جب سات سال کا ہوجائے تو اس کو نماز(صلوٰۃ) کی ترغیب دیں اور جب دس سال کا ہوجائے تو اگر پھر بھی نماز کا عادی نہ بنے تو اس کو سختی سے نماز کا عادی بنادیں ، اور جواں سال ہوجائے تو اس کی شادی کرو ۔غرض اولاد اﷲمیاں کی عظیم دولت ہے، یہ ایک ایسی نعمت غیر مترقبہ ہے جس کانعم ا لبدل ہی نہیں ۔اس نعمت کی قدر کرنا اور ان کی تربیت کرناوالدین پر فرض ہے ۔