رئیس یاسین
مسلمان گھرانوں میں عموماً شادیاں والدین طے کرتے ہیں، اس لئے والدین کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے دین دار اور بااخلاق شریکِ حیات کا انتخاب کریں۔ محض چہرے کی خوبصورتی یا دنیاوی مال و دولت دیکھ کر فیصلے کرنا آگے چل کر افسوس کا سبب بن سکتا ہے۔ نبی کریمؐ نے دین کو سب سے بڑا معیار قرار دیا ہے، کیونکہ دین اور اخلاق ہی کامیاب ازدواجی زندگی کی ضمانت
ہیں۔حضرت عمر فاروقؓ کے پاس ایک باپ اپنے بیٹے کی شکایت لے کر آیا۔ آپؓ نے بیٹے کو بلا کر پوچھا تو اُس نے کہا،’’امیرالمؤمنین! کیا اولاد کے بھی والدین پر حقوق نہیں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا،’’بچے کا حق یہ ہے کہ باپ اس کے لئے نیک ماں کا انتخاب کرے، اچھا نام رکھے اور اچھی تعلیم دے۔‘‘ بیٹے نے کہا،’’میرے والد نے مجوسی باندی سے شادی کی، میرابُرا نام رکھا اور مجھے قرآن نہیں سکھایا۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمرؓ باپ سے ناراض ہوئے اور فرمایا،’’اب تم اپنے بیٹے سے کیا توقع رکھتے ہو؟‘‘ یہ واقعہ اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ والدین کی غفلت اولاد کی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو سب سے پہلے پاکیزہ اور حلال رزق دیں۔ کیونکہ حرام رزق دل کو اندھا اور روح کو مردہ کر دیتا ہے۔ ہدایت سامنے بھی ہو تو انسان اس سے محروم رہتا ہے۔ دنیا میں برکت ختم ہو جاتی ہے اور آخرت میں جنت کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ اس لئے اولاد کی اچھی تربیت کے ساتھ ساتھ حلال کمائی کا اہتمام بھی والدین پر لازم ہے۔اولاد کی تربیت صرف نصیحت سے نہیں بلکہ عملی نمونے سے ہوتی ہے۔ بچے وہی دہراتے ہیں جو وہ والدین کو کرتے دیکھتے ہیں۔ ماں باپ کی گفتگو، میل جول کے طریقے، دوست احباب، حتیٰ کہ اخبارات، ٹی وی اور موبائل فون کا استعمال بھی بچوں کی شخصیت پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اصل تربیت کا امتحان اس وقت سامنے آتا ہے جب بچہ والدین کی غیر موجودگی میں بھی نیک راستہ اختیار کرے۔
تاریخ میں کئی مثالیں ملتی ہیں کہ نیک باپ نے نیک بیٹے اور نیک بیٹے نے نیک باپ کی نصیحت قبول کی۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے بیٹے نے اپنے والد کو متوجہ کیا کہ خلافت سنبھالتے ہی ناجائز زمینوں کو واپس کیا جائے۔ والد نے کہا ’’کل یہ کام کریں گے‘‘ تو بیٹے نے کہا ’’کیا آپ کو کل تک زندہ رہنے کا یقین ہے؟‘‘ یہ سن کر والد نے اسی وقت حکم جاری کر دیا۔ یہ ہے نیک تربیت کا حقیقی اثر۔
تربیت کا آغاز ماں کی گود سے ہوتا ہے لیکن یہ صرف ماں کی ذمہ داری نہیں بلکہ باپ بھی برابر کا شریک ہے۔ پیارے نبیؐ نے فرمایا: ’’باپ اپنی اولاد کو جو سب سے بہترین تحفہ دیتا ہے وہ اچھی تربیت ہے۔‘‘ اس تربیت میں نرمی، محبت، صبر اور اخلاص ضروری ہے۔ شور و غل اور سختی بچوں کو ضدی اور باغی بنا دیتی ہے۔آج کے اس پُرفتن دور میں والدین پر لازم ہے کہ اپنی اولاد کو بری صحبت سے بچائیں، اُن پر نگاہ رکھیں، اُن کی دعاؤں میں غفلت نہ کریں اور اُنہیں قرآن و سنت کے ساتھ جوڑیں۔ یہی وہ عمل ہے جو ہماری اولاد کو ہمارے لیے سکونِ قلب بنائے گا اور قیامت کے دن ہمارے لئے صدقہ جاریہ ثابت ہوگا۔