بلاشبہ موجودہ دورمیں ہمارا معاشرہ بھی انتشار اور افراتفری کا شکار نظر آرہا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کا زیادہ تر حصہ اپنی دینی ،اخلاقی اور تہذیبی روایات سے دور ہوتے جارہے ہیں اور آئے روز والدین کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد جیسے غیر اخلاقی جرم کا ارتکاب کرتے چلے جارہے ہیں۔گویا ہمارا نوجوان اپنا اہم فرض اور سب سے بڑی نیکی’’والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک‘‘ کو فراموش کرچکا ہے۔ظاہر ہے کہ دنیا میں کچھ ہی رشتے ایسے ہیں جن سے انسان سچی محبت کرتا ہے، ان میں والدین سر فہرست ہیں، ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے ۔کیونکہ انسان کی پیدائش و پرورش کا ظاہری سبب اس کے والدین ہوتے ہیں۔ ماں راتوں کو جاگ کر اپنا آرام اپنے بچے پر قربان کرتی ہے، باپ اپنے اولاد اور اس کی ماں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے دن بھر محنت و مزدوری کرتا ہے، اگر والدین کے دلوں میں ان کی اولاد کے لیے بے پناہ الفت و محبت اور ایثار کا جذبہ نہ ہوتا تو یقیناً بچے کی صحیح معنوں میں پرورش نہیں ہو پاتی، اب اگر یہی بچہ بڑا ہو کر اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بے یار و مددگار چھوڑ دے، ان کے ساتھ حسن سلوک سے نہ پیش آئے، ان کی گستاخی و بے ادبی کرے تو اس سے زیادہ بے انصافی اور ظلم کیا ہو سکتا ہے؟ ہر مذہب میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی شدید تاکید کی گئی ہے اور بدسلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے، اولاد پر والدین کا اتنا بڑا حق ہے کہ حقوق ِ والدین کو باقی تمام حقوق پر ترجیح دی گئی ہےاور واضح کردیا گیا ہے کہ اولا اپنے والدین کو اُف تک نہیں نہ کہیں،جس سے مراد ہر تکلیف اورناگوار قول و فعل ہے جس سے والدین کو ذہنی یا روحانی اذیت پہنچے، لہٰذا اولاد پر لازم ہے کہ والدین سے نرمی اور اچھے انداز میں بات کریں ۔یہ اس لئے کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے عام طور پر چڑچڑا سا ہو جاتا ہے، اگر اولاد کو والدین کی کسی بات پر غصہ بھی آجائے تو برداشت کرے، انھیں نہ جھڑ کے اور نہ ڈانٹ ڈپٹ کرے بلکہ ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھ کراُن سے عاجزی و انکساری سے بات کریں۔آپ اندازہ لگائیے کہ وضع حمل کے وقت ایک ماں کو کس قدر تکلیف، درد و آلام سے دوچار ہونا پڑتا ہے، لیکن ان تکالیف کے باوجود وہ ہم سب کو عدم سے وجود میں لاتی ہے، اپنا خون ِ جگر پلاکر ہماری ہڈیوں کو مضبوط کرتی ہے، پھر ہمیں چلنے پھرنے اور بولنے کے قابل بناتی ہے، ان سب کے باوجود ہم انھیں بڑھاپے میں اولڈ ایج ہومز کے حوالے کریں ،کسی رشتہ دار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں یا اپنے ہی گھر میں بے یارومددگار چھوڑ دیں اور غیر اخلاقی خود غرضانہ رویے کا شکار بنائیںتو یہ سب کچھ کرنا اولاد کو زیب دیتا ہے؟جو انتہائی شرمنا ک و تشویش ناک فعل ہے بلکہ انسانیت کے اصولوں کے بھی خاف ہے۔حالانکہ اسلام نے انسان کو والدین کے حقوق ، ان کی اطاعت اور فرماںبرداری کا پابند بنایا ہے۔قرآن کریم کی تعلیم جہاں اللہ کی عبادت کا حکم دیتی ہے اور تاکید کرتی ہے وہیںکہ انسان کووالدین کی اطاعت اور فرماں برداری کا بھی درس دیتی ہے۔لہٰذا جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت ضروری ہے ۔وہاں والدین کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔کیونکہ حسن سلوک میں وہ ساری چیزیں شامل ہیں۔ جن سے والدین کی خدمت میں یا ان کی اطاعت و فرماں برداری میں یا ان کے ادب و احترام میں کوتا ہی نہ صرف حسن سلوک کے منافی ہے بلکہ اس کے لئے وعید بھی ہے۔ بہرحال والدین کے ساتھ حسن سلوک بھی افضل اور محبوب ترین اعمال میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نےجہا ں والدین کے لئے اپنی حیثیت کے مطابق بچوں کی پرورش کے تقاضوں کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے وہیںاولاد کے لئے اطاعتِ والدین کے تقاضوں کی ادائیگی لازمی قرار دی ہے ۔ہماری نوجوان نسل اس بات کو ہرگز نہ بھولیںکہ بڑھاپے میں والدین کمزور، بے بس اور لاچار ہوجاتے ہیں،جب کہ اولاد جوان اور وسائل معاش پر قابض و متصرف ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جوانی کے جذبات اور بڑھاپے کے سرد وگرم ، تجربات میں تصادم تو ہوتا ہے اور ان حالات میں بعض اوقات والدین کے ادب و احترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنامشکل ہوجاتا ہے، تاہم اﷲتعالیٰ کے یہاں سرخرو وہی ہوگا جو ان تقاضوں کو ملحوظ رکھتا ہے۔