شبیر احمد بٹ
پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
بچوں کی تربیت میں والدین کا کلیدی رول بنتا ہے ۔ پچھلے کئی برسوں سے ہماری وادی کے حالات بدل رہے ہیں ۔جرائم میں طرح طرح کے اضافے ہو رہے ہیں جو کافی تشویشناک ہیں ۔موبائل فون نے اخلاقی قدروں کو پامال کر دیاہے،والدین کی نظروں میں ان کے بچے بڑے معصوم ہوتے ہیں ،ان کی چھوٹی غلطیوں کو شرارت سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں مگر کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جو ان کے مستقبل کو بھی تاریک بنا دیتی ہے ۔ایسے میں اگر والدین وقت پر ان کا تدارک کریں تو بچوں کے تئیں ان کے بُنے خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کے بارے میں فکرمند ہوجائے ۔ان کے بچے صبح سویرے اسکول کالج نکل کر دن بھر کن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں ،کیا کرتے ہیں،کیا پڑھتے ہیں اور ان کا رویہ کیسا ہے، وہ پڑھائی کے نام یا جیب خرچ کے نام پر جو پیسہ لیتے ہیں، کہاں پر خرچ کرتے ہیں،ان کی ٹیوشن کب شروع اور کب ختم ہوتی ہے؟ ان کے موبائل صبح شام چیک کرے کہ ان کے رابطے کن کے ساتھ ہیں، رات گئے تک وہ اپنے موبائل فون پر کیا دیکھتے اور پڑھتے ہیں ؟ والدین کا یہ جواب تسلی بخش نہیں ہے کہ ہم دن بھر محنت مزدوری کرتے ہیں، اب ہم بچوں کے پیچھے ہی تھوڑی بھاگتے رہیں گے۔
اپنےبچوں کے اساتذہ کے ساتھ وقتاً فوقتاً بات کرکے دیکھیں کہ وہ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اورکیا رائے رکھتے ہیں ۔ جن کے لئے ہم دن رات محنت کرتے ہیں ۔اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں، خدا نہ کریں اگر وہی کل آپ کانام خراب کریں تو؟ آپ کے بچوں کے پڑھانے والے اساتذہ آپ کے بچوں کو ہر اعتبار سے پرکھتے ہیں ،جانچتے ہیں، اس لئے ان کے ساتھ رابط رکھیں ۔کبھی کبھار بچوں کے اسکول جاکر ان چیزوں کو جاننے کی کوشش کریں اور والدین ہونے کا حق ادا کریں ۔ کم یا زیادہ نمبرات سے اپنے بچوں کے بارے میں اس خوش فہمی یا غلط فہمی میں نہ رہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے یا سب کچھ ٹھیک ہوگا ،بلکہ اساتذہ کے ساتھ بات کرکے ان کے آنے والے کل کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں ۔ اس سلسلے میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے والدین اور اساتذہ کے درمیان میٹنگز کا اہتمام ہورہا ہے جو وقت کی اشد ضرورت بھی ہے اور مفید بھی ۔اس لئے والدین کو چاہیے کہ وہ اساتذہ کے سامنے اپنی بات رکھیںاور ان کی بات سنیں ۔ اساتذہ کا بھی یہ حق بنتا ہے کہ وہ والدین کے ساتھ مل بیٹھ کر خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں اور اچھائیوں کو فروغ دینے کے لئے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کریں ۔جب ہم سیب کے نئے پیڑ لگاتے ہیں تو ہر روز انھیں دیکھنے جاتے ہیں ،ان کی نگرانی کرتے ہیں کہیں بھی کوئی کمزوری یا نقص دکھائی دیتا ہے تو ہم تجربہ کاروں سے مشورہ کرتے ہیں ، ماہرین کوبُلا کر ان پیڑ پودوں کی خرابی اور کمزوری سے انہیں آگاہ کرتے ہیں تاکہ وہ اس کا علاج بتائیں ۔ ہمارے بچے جو ہمارا سرمایہ ہے، آنے والے کل کی پہچان ہے، ان کے لئے بھی ہماری فکر بیدار ہونی چاہیے کہ کہیں کوئی ایسا کیڑا یا سکیب نہ لگ جائے ،جس کو پھر قابو پانامشکل ہوجائے اور ہم پھل سے محروم ہوجائیں ۔ والدین جن چیزوں اور باتوں کو معمولی ، چھوٹی یا بے معنی سمجھتے ہیں، وہی چیزیں اور باتیں پھر بچوں کے تعلیمی ، اخلاقی اور سماجی نشونما کو روکنے اور بگاڑنے کے سبب بن جاتے ہیں۔ اس لئے اس بگاڑ کو روکنے اور ان کے اندر سدھار لانے کے لئے والدین کو اپنے بچوں کے اساتذہ کے ساتھ تال میل رکھنا لازمی ہے۔ اگر وہ ہفتے میں ایک بار بھی اسکول نہیں جاسکتے، تو کم از کم فون پر بات کرسکتے ہیں ۔ اسکول انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ وہ والدین کو ان کے پڑھانے والے اساتذہ کے نمبرات فراہم کریں تاکہ آسانی کےساتھ اساتذہ اور والدین کا رابطہ بنا رہے ۔ڈِسپلن کے نام پر سکولوں کو فوجی چھاونیوں کی طرح تبدیل کرکے والدین کے لئے اسکول کے دروازے بند نہیں کرنے چاہیے، بلکہ اس تال میل اور رابطے کو بڑھانے کے اسکول انتظامیہ کو بھی سنجیدہ ہوکر اقدامات کرنے چاہئیں۔
کتاب سے ان کا رشتہ جڑ جائے
قلم سے ان کی دوستی ہو جائے
رابطہ۔7889894120