کافی عرصے سے بہت کچھ لکھتا رہا ہوں ۔ ہر موضوع پر ، ہر واقعے پر اور ہر صورتحال پر لکھتا رہا لیکن 21ڈسمبر کو مجھ پر وہ سانحہ گزرا جس نے میرے جسم و ذہن کی ساری قوتوں اور صلاحیتوں کو ماوف کرکے رکھ دیا ۔ میں اپنی ماں کی محبت و شفقت سے محروم ہوگیا ۔اس سانحے نے مجھے کچھ ایسے تجربوں سے آشنا کردیا جن کے سامنے دنیا کے کسی بھی موضوع کی کوئی حقیقت نہیں ۔اس لئے میں آج انہی تجربوں کو آپ کے ساتھ بانٹوں گا ۔یہ ظاہری طور میری اپنی بات ہے اور مجھے یہ حق ہے کہ ایک بار اپنی بھی بات کروں لیکن میری اس بات میں زندگی کی وہ حقیقت ہے جس کی گہرائیوں میں وہ راز پوشیدہ ہیں جوبہت سے درپردہ رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں ۔ سب کی طرح میرا بھی ایمان ہے کہ کل نفس ذائقہ الموت ۔ پھر میرے ساتھ وہ سب کچھ کیوں ہوا جس پر میں اب بھی حیران ہوں ۔ میں پچھلے دو ہفتوں سے ایک حرف بھی نہ لکھ سکا ۔کیوں نہیں لکھ سکا یہ میں بھی نہیں جانتا ۔میں بے ہوش تھا ۔ شاید اس دنیا میں ہی نہیں تھا ۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ اس عرصے میں دنیا میں کیا ہوا ۔ میرے عزیز وطن میں کیا ہوا ۔ میرے گرد و نواح میں کیا ہوا ۔میں کسی اور ہی دنیا میں تھا۔
21ڈسمبر کو جمعہ المبارک کا دن تھا جب میری ماں بستر علالت پر دراز تھی۔ قریباً آٹھ بجے کا وقت تھا ۔ میرا چھوٹا بھائی اس کے سرہانے سورہ یاسین پڑھ رہا تھا ۔ تلاوت ختم کرتے ہی اس کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی ۔ماں اس دنیا سے رخصت ہوچکی تھی ۔میری آنکھوں سے بھی آنسووں کی دھار ٹپکی لیکن میں حواس باختہ نہیں ہوا ۔ مجھے لگا کہ میری ماں مجھے آواز دے رہی ہے ۔ مجھے ہدایتیں دے رہی ہیں ۔مجھ سے کہہ رہی ہے کہ یہ کرو ، وہ کرو ، فلاں رشتے دار کو خبر کرو ، غسالہ کو بلاو ، چائے تیار کراو ۔ وہ جو کچھ کہتی تھی میں کرتا جاتا تھا ۔ غسل ہوا ۔ میں نے اس کا چہرہ دیکھا ۔بے حد حسین ، نور میں نہایا ہوا ۔ مجھے اس چہرے میں اسی کا نور دکھائی دے رہا تھا جس نے اس جہاں کو پیدا کیا ہے ۔جنازہ ہوا ۔ تدفین ہوئی ۔سب واپس آگئے ۔ میں بھی آگیا ۔ وہ اب بھی میرے ساتھ تھی ۔میں ایک جگہ بیٹھنے کا قطعی عادی نہیں لیکن اس نے مجھے حکم دیا اور میں مہمان خانے میں بیٹھ گیا ۔اس وقت تک بیٹھا رہا جب تک تعزیہ کرنے والے چلے گئے ۔دوسرے دن بھی وہ میرے ہی ساتھ تھی اور تیسرے دن بھی لیکن جب سب چلے گئے ۔شام ہوگئی تومیں نہ جانے کیوں اس کمرے میں گیا جہاں ماں بیماری کی حالت میں ہوا کرتی تھی ۔ وہ کمرہ خالی تھا ۔ اس کی کئی چیزیں وہاں موجود تھیں ۔ میں اب اس کی آواز سننا چاہتا تھا لیکن اب اس کی آواز نہیں تھی ۔ اس کے ہونے کا جو احساس اس کی تدفین کے بعد بھی تین دن تک میرے ساتھ تھا وہ اب نہیں تھا ۔ اب ماں نہیں تھی ۔ کچھ نہیں تھا ۔ سب کچھ ختم ہوچکا تھا ۔ میں تنہا ہوگیا تھا ۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رویا ۔ پھر میرے ہوش و حواس ختم ہوگئے ۔ میرا وجود ہی جیسے ختم ہوگیا اور مجھے محسوس ہوا کہ جیسے جنت میں میرے وجود کے عناصر ترتیب پارہے ہیں ۔ماں کے شکم میں میری تخلیق ہورہی ہے ۔اس کے بعد میں نے وہ ایک ایک لمحہ پھر سے جیا جو میں اب تک جیتاآیا ہوں ۔
ایک انسانی وجود کے شکم میں میرا وجود تشکیل پارہا تھا ۔اسی وجود کے عناصر سے میری ہڈیا ں ، میرے جوڑ ، میرے ہاتھ ، میرے پاوں ، میرا دل ، میرا دماغ ، میری آنکھیں ، میرا چہرہ اور میرا پورا جسم تشکیل پارہا تھا ۔اس کے کھانے سے مجھے توانائی ملتی تھی ، اس کے ہنسنے سے میرے وجود میں شہنائیاں بجتی تھیں ۔ اس کے دل کی دھڑکنیں میں سن رہا تھا۔وہ میری ماں تھی جو مجھے تخلیق کررہی تھی اور جب میں ایک مکمل انسان بن گیا تو اس نے مجھے ایک آزاد ہستی کی صورت میں اپنے وجود سے الگ کردیا ۔میں اپنی پوری قوت سے چیخا اور چلایا ۔ مجھے جنت سے نکالا گیا تھا ۔ میںبہت رویا ۔ وہ جنت جہاں مجھے سب کچھ حاصل تھا ۔ جہاں بلا پوچھے مجھے سب کچھ ملتا تھا ۔نہ کوئی غم تھا نہ کوئی الم تھا ۔ نہ گرمی تھی نہ سردی تھی ۔مجھے اس جنت سے کیوں نکالا گیا ۔ مجھے کپڑے میں لپیٹا گیا کیونکہ اب دنیا کی ہواوں کا اچھا برا اثر مجھ پر پڑنے والا تھا اور پھر سب سے پہلی آواز جو میں نے سنی ۔ وہ اذان تھی ۔ اللہ بہت بڑا ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں ۔ یہ الفاظ میرے لاشعور میں محفوظ ہوگئے ۔میری ماں نے مجھے اپنی چھاتی کا دودھ پلایا ۔اس میںوہ سب کچھ موجود تھا جو میرے جسم اور میرے ذہن کو پختگی اور قوت عطا کرنے کیلئے ضروری تھا ۔اسی قوت سے میں نے بولنا سیکھا ۔ چلنا سیکھا ۔ سمجھنا اور سوچنا سیکھا۔جوں جوں میرے ذہن اور شعور کا ارتقاء ہورہا تھا وہ الفاظ جو اس دنیا میں آکر پہلی بار میں نے سنے تھے کبھی کبھی میرے وجود میں گونجا کرتے تھے اور کچھ سوال پیدا ہوتے تھے ۔ اللہ کون ہے ؟۔ وہ کیا ہے ؟۔ان سوالوں کا کوئی جواب میرے پاس نہیں تھا اور میرا تجسس مجھے بے چین کئے جارہا تھا ۔میری ماں نے مجھے قرآن پڑھنے کیلئے مولوی صاحب کے پاس بھیجا جس نے مجھے سمجھایا کہ اس کائنات کو تخلیق کرنے والا اللہ ہے ۔ اسی نے ہر انسان کو پیدا کیا ۔ وہی ہر ایک کو رزق فراہم کرتا ہے ۔اسی کی مرضی سے صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے ۔ سورج چڑھتا ہے اور ڈوب جاتا ہے ۔وہی عبادت کے لائق ہے ۔ اسی نے انسان کوجنت سے نکال کر دنیا میں لایا ۔ اس دنیا میں انسان ایک مختصر مدت کیلئے ہے ۔ ایک دن ہر انسان کو موت آتی ہے اور موت کے بعد جو کچھ اس نے دنیا میں کیا ہے اس کا حساب لیا جائے گا ۔ اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا اور فرمانبرداروں کو جنت ملے گی ۔میں سوچنے لگا ۔ میں تو ماں کے شکم میں پیدا ہوا اور جب میرا وجود انسانی جسم میں ڈھل گیا میں اُس جنت میں شاد و آباد تھا ۔ مجھے پھر اس جنت سے نکال دیا گیا ۔ میری ماں نے مجھے اپنے جسم سے الگ کردیا اور دنیا کی روشنی مجھ پر پڑگئی ۔اسی نے اپنی چھاتی سے مجھے رزق دیا ۔ اس نے میری ہر خواہش پوری کی ۔ جو میں نے مانگا اس نے دیا ۔ جو بھی خواہش میں نے کی میرے بتائے بغیر اس نے پوری کی ۔اسی نے مجھے چلنا سکھایا ۔ بولنا سکھایا ۔اللہ کہاں ہے ۔ اس نے مجھے کیا دیا ہے ۔ میری ماں میرے سامنے ہے ۔ میں اس سے کچھ بھی مانگ سکتا ہوں اور وہ مجھے لاکر دے گی ۔ اللہ کو میں نے نہ دیکھا ہے ۔ نہ میں نے اس سے کچھ مانگا ہے نہ اس نے مجھے کچھ دیا ہے ۔ میں ان دیکھے اور ان جانے خدا پر کیوں یقین کروں ۔سوالوں کاایک طوفان تھا جو میرے اندر اٹھ رہا تھا اور ایک روز میں نیٍ اپنی ماں سے پوچھ ہی لیا کہ اللہ کون ہے ۔اس نے میرے گال چومے اور جواب دیا ۔ وہی تو ہے جس نے اس کائنات کو پیدا کیا۔ اس میں موجود ہر ایک شئے کو پیدا کیا اور مجھے پیدا کیا ۔جب اس نے یہ کہا کہ وہی تو ہے جس نے مجھے پیدا کیا تو پہلی بار مجھ پر یہ منکشف ہوا کہ میری ماں کو بھی کسی نے پیدا کیا ہے ۔ یہ انکشاف ایک زلزلہ تھا جس نے میرے سوچوں کو پلٹ کر رکھ دیا ۔وہ کتنا بے کراں ، کتنا عظیم اور کتنا بلند و برتر ہوگا جس نے میری ماں کو پیدا کیا ۔ ماں تو عظمت کا آسماں ہے ۔ ماں کو پیدا کرنے والا کیا ہوگا ۔میں نے اللہ کو جان لیا ۔ پہچان لیا ۔اس کا عکس میری ماں میں تھا ۔ مجھے اب اس کے ہونے کے ثبوت کی کیا ضرورت تھی ۔ میں نے قرآن پڑھ لیا تھا لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس میں کیا لکھا ہے ۔اب میں جاننا چاہتاتھا کہ اللہ کی کتاب میں کیا لکھا ہے ۔ میں نے ترجمہ اور تشریح پڑھنے کا آغاز کیا ۔اور جب میں نے اللہ کی صفات پڑھیں تو ان میں تقریباً ستر فیصد صفات میں اپنی ماں میں دیکھ چکا تھا ۔پھر جب اللہ کا یہ فرمان میری نظروں سے گزرا کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔تو مجھے خدا کی خدائی ، اس کی کتاب اور اس کے آخری رسول صلعم پر ایسا اٹل یقین ہوا جس میں کبھی کوئی لغزش ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اللہ کو تلاش کرنے کے لئے کسی صحرا نوردی کی ضرورت ہی کیا ہے ۔
وہ ماں کے اندر موجود ہے اور ہمارے سامنے ہے ۔زندگی پیدا کرنے کی صلاحیت اللہ کے بعد صرف ماں میں ہے ۔مجھے فخر ہوا کہ میں ایسا مسلمان نہیں ہوں جس کے والدین مسلمان ہیں تو وہ بھی مسلمان ہے ، میں نے اللہ کی تلاش کی ہے اور اس کو پایا ہے ۔اس کا نور میری ماں کے وجود میں موجود ہے ۔
میری ماں کی زندگی کوئی آساں زندگی نہیں تھی ۔ بے پناہ دکھوں اور مشکلوں کی زندگی تھی ۔لیکن اس نے ہر دکھ کا سامنا ہنستے ہوئے کیا ۔میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا جب میرے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا ۔ میرے تین چھوٹے بھائی ہیں ۔ میری ماں نے ہم سب کی پرورش کی ۔ وہ پڑھی لکھی ضرور تھی لیکن ملازمہ نہیں تھی ۔ سوت کات کات کر اس نے بچوں کو پڑھایا ۔ اور انہیں کبھی باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ۔اس نے نہ صرف بچوں کو پڑھایا بلکہ انہیں اچھی تربیت بھی دی ۔ اس کی زبان پر دعاؤں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔ میرا ایک دوست شمس الدین شمیم مرحوم تھا ۔ایک بار اسے مجھ سے بات کرنی تھی تو اس نے گھر فون کیا ۔ میں گھر میں نہیں تھا ۔ ماں نے فون اٹھایا ۔ اس کے بعد شمیم ہر روز میرے گھر فون کرتا تھا اور میری ماں کو ڈھونڈتا تھا ۔ ایک روز اس نے مجھے بتایا میں صبح اٹھ کر تمہاری ماں سے بات کرتا ہوں مجھے اتنی دعائیں ملتی ہیں کہ لگتا ہے دنیا کے سارے خزانے مجھے حاصل ہوئے ۔شمیم کی ماںنہیں تھی لیکن اسے میرے گھر میںماں مل گئی تھی ۔وہ ایسی ہستیاں تھیں جنہیں اللہ خود پوچھتا ہوگا کہ بتا تیری رضا کیا ہے ۔میرے بچوں کی بھی ماں ہے لیکن وہ صرف اپنے ہی بچوں کی ماں ہے ۔اسی لئے میرے بچوں کو اس کے اندر وہ روشن حق نہیں ملا جو مجھے میری ماں میں ملا ۔
……………………….
بشکر یہ ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر