محمد امین نحوی کا آبائی وطن سرینگر کشمیر میں شمس واری کلاشپورہ تھا۔ان کا جنم دو اگست ۱۹۲۰ء کو ہوا تھا۔وہ مولوی محمد یاسین کے فرزند اکبر تھے۔جو انجمن نصرۃالاسلام کے فائناشل سیکرٹری تھے۔جنہوں نے نصرۃالاسلام کی والہانہ خدمت کی ہے۔انکے دادا مولوی سلام الدین نحوی عربی اور فارسی میں یکسان ماھر تھے۔انجمن نصرۃالاسلام کے جلسوں میں اکثر ان کے اشعار یا نظمیں پڑھیں جاتی تھیں۔
محمد امین نحوی صاحب میرے والد بزرگوار نے میٹرک پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۳۸ء میں کیا۔بی اے کی ڈگری بھی انہوں نے ۱۹۴۲ ء میںپنجاب یونیور سٹی سے حاصل کی۔۱۹۴۷ء میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیور سٹی میں LLB کا داخلہ لیا۔اور وہاں ہی ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کی ۔ انہوں نےs morning classe میں ایم اے فارسی کیا اور evening classes میںLLB۔اس دوران بہت سے علمی اور ادبی مشاغل کے ساتھ وابستہ رہے۔’’ہماری آواز‘‘دوہفتہ گی اردو اخبار تھا جو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے نکلنا شروع ہو چکا تھاجس کا مقصد طالب علموں میں سیاسی،سماجی اور تعلیمی شعور اور شوق پیدا کرنا تھا۔اس کے ایڈیٹر ظفر مرہاروی تھے اور نحوی صاحب اس کے منیجر تھے۔
علی گڈھ ایکنامکس رائٹرس ایسو سی ایشن میں سیکرٹری کا عہدہ سنبھا ل کر انہوں نے ادبی خدمات بھی سر انجام دیں۔میگزین ’’پرتاپ‘‘ میں ان کا اردو کلام فصیح ؔ کے نام سے چھپا ہے۔(فصیحؔ تخلص کرتے تھے)۔اس کے علاوہ کشمیری زبان میں انہوں نے ’’ٹیگور سند جذبات‘‘ اور ’’شیلے سند فلسفۂ محبت‘‘ بھی لکھے۔روزنامہ ’’خدمت ‘‘ سرینگر نے ’’مدنی پیاؐ کی یاد۔۔ذکر حبیب کم نہیںؐ وصل حبیب سے‘‘ کے نام سے ایک فکرانگیز مقالہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر لکھا اورہفتہ وار ’’خدمت ‘‘ نے ’’ اردو زبان پر ایک طائرانہ نظر‘‘تحقیقی مقالہ ۱۹۴۳ء میں شائع کر کے دادتحسین حاصل کی۔
۱۹۴۸ ء میں باقاعدہ طور ایس پی کالج میں فارسی کے لیکچرار ہوگئے۔تب ایس پی کالج میں آرٹس پڑھایا جاتا تھا۔ان کے ساتھ وہاں استاد پنڈت نند لعل طالبؔ تھے اور ان ایام میں مفتی جلال الدین شعبہ ٔ فارسی کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ تھے جن کی ادبی ، علمی اور مذہبی شخصیت کاعزت واحترام مرحوم والدصاحب کے دل میں تا دمِ حیات رہی اور ہمیشہ ان کا ذکر خیر کیا کرتے تھے۔زندگی کے ایک مرحلے پر احمداللہ نقاش جو مولوی یوسف صاحب کے ہم پیالہ و ہم نوالہ تھے ،کی دختر نیک اختر ان کے عقد نکاح میں آگئیں۔پھر دورۂ پاکستان بھی کیا، جہاں ان کو جج کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ تب تک انہوں نے سیاست میں بھی اپنے قدم جمالئے تھے اور کشمیر پولٹیکل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری ہو گئے تھے جس کے بانی صدر محی الدین قرہ تھے۔پاکستان سے واپس آتے ہی ان کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔تین سال انہوں نے ادھم پور جیل میں کاٹے اور پھر وقتاً فوقتاً سات سال کی سزا سرینگر کے سنٹرل جیل میں اٹھائی۔ پھر۱۹۶۰ ء میں جیل سے خلاصی مل گئی۔۱۹۶۲ء میں انہوں نے سرینگر کشمیر میں باقاعدہ طور کارگاہ ِعدل جوائین کر لی اور ساری عمر وکالت کرتے رہے۔ وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے،اپنی زبان کے پکے اور سچائی کے دھنی تھے۔انہیںجھوٹ اورجھوٹ بولنے والے دونوں سے سخت نفرت تھی۔اقبال کے اشعار انہیں اَزبر رہتے تھے اور انہیں گنگنانارو ز مرہ شغل تھا۔مرحوم والد صاحب تہجد گزار،نماز گذاراورقرآن خوان تھے۔۲۰۰۰ء میں ان کی رفیقِ حیات ( ہماری والدہ )نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا کہ دل برداشتہ ہوکر عدالت کو خیر باد کہا۔اس کے بعد سولہ سال تک گھر میں ہی مقیم علمی مشاغل اور عبادات میں مصروف رہ کر ۲۰۱۶۔۲۵؍ اپریل کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔اللہ والدین کرام کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔(آمین)
نمونہ ٔکلام :
فارسی
سینۂ من ہمہ سامان محبت دارد
کہ الم دارد و غم دارد و عشرت دارد
چہ کند عاشق بی چارہ ندارد زر و سیم
جان و دل دارد و دم دارد و ہمت دارد
اردو
میخانۂ الفت ہے پیمانہ مرا ساقی
غم ، جور و الم سے پُر کاشانہ مرا ساقی
راضی ہوں مقدر پہ جو کچھ بھی ہو یاں باقی
رہ جائے گا دنیا میں افسانہ مرا ساقی