ابو نعمان محمد اشرف بن سلام
معراج نبی ؐ انسانی تاریخ کے ان بڑے واقعات میں سے ہے جنہوں نے زمانے کی رفتار کو بدل ڈالا اور تاریخ پر اپنا مستقل اثر چھوڑا۔ رسول اللہؐ کے حیاتِ مبارکہ میں معراج اہم ترین واقعہ ہے۔ یہ واقعہ تاریخ اسلام کے اس مرحلے میں پیش آیا ۔جب پیغمبر آخرالزماںؐآواز حق بلند کرتے ہوئے تقریباً 12 سال گزر چکے تھے اورمخالفین آپؐ کا راستہ روکنے کے لیے تمام ہتھکنڈے آزما چکے تھے، مگر ان کی مزاحمتوں کے باوجود پیغمبرانقلابؐکی آواز ملک عرب میں کے ہر گوشے میں گونج رہی تھی۔قرآن میں سورة بنی اسرائیل میں اس کی ذکر کیا گیا ہے اور اس سفر کا مقصد اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر آخر الزماںؐ کو بے شمارآیات و معجزات سے نوازا ہے، تاکہ لوگ ان معجزات کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں اور ان میں سے ایک سب سے بڑا معجزہ واقعہ معراج ہے۔جو بظاہر چشم زدن میں رونما ہوا، لیکن حقیقتن اس میں کتنا وقت لگا صرف اللہ تعالیٰ اور رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ میں اپنے محبوبؐ کو اپنی قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرایا۔
معراج سرور دوعالمؐ کا امتیاز اور ایک عظیم معجزہ ہے۔جو رسول اللہؐ کو تمام انبیائے کرام اور رسولوں پر عظمت ورفعت عطا کرتا ہے۔ واقعۂ معراج نہ صرف تاریخ اسلامی بلکہ تاریخ انسانی کا بھی عظیم واقعہ ہے۔ جس نے تاریخ پر اپنا مستقل اور گہرا اثر چھوڑا ہے۔
اس کائنات کا مالک حقیقی نے جب اپنے محبوبؐ کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھانے کے لیے بلایا تو اس میں کتنا وقت لگا ہوگا، اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔اہل ایمان نے اس واقعے کی سچائی کو دل سے مانا اور اس کی تصدیق کی، جس کی مثال حضرت صدیق اکبرؒ ہے۔ کیونکہ صبح کے وقت رسول اللہؐ خانہ کعبہ میں تشریف لائے۔ خانہ کعبہ کے آس پاس قریش کے بڑے بڑے لوگ جمع تھے۔ آپؐمقام حجر میں بیٹھ گئے اور لوگوں کو مخاطب کرکے واقعہ معراج بیان فرمایا۔پیغمبر انقلابؐ کے تذکرہ کو سن کر کفارو مشرکین ہنسنے لگے اور مذاق اڑانے لگے اور ابوجہل دوڑتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے۔ اے ابوبکر! تونے سنا کہ (محمدؐ) کیا کہتے ہیں؟ کیا یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے۔حضرت ابو بکرؓ نے بغیر کسی تذبذب اور ہچکچاہٹ کے رسول اللہؐ کی تصدیق کر دی۔ اس واقعے کے بعد آپؓ کا لقب صدیق ہوگیا۔ واقعہ معراج نبوت کے دسویں سال اور ہجرت سے ایک سال پہلے مکہ میں پیش آیا۔ ماہ رجب کی ستائیسویں رات ہے۔سورہ بنی اسرائیل میں شبِ معراج کے بیان کا مفہوم ہے کہ پاک ہے وہ ذات جو لے گیا اپنے بندے کو راتوں رات مسجدِ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک جس کے اردگرد کو اس نے برکت دی، تاکہ اسے اپنی قدرت کے کچھ نمونے دکھائے۔ واقعہ معراج رسول اللہؐ کا خصوصی اعزاز اور منفرد، ممتاز ا اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ۔ معراج نبیؐ کی تفصیل قرآن پاک کے علاوہ احادیث اور سیرت کی مختلف کتابوں میں ہے، لیکن اس کے دو پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک پہلوتو وہ تحائف ہیں، جو رسول اللہؐ کو اپنی امت کے لیے عطا ہو ئے اور دوسرے وہ مشاہدات ہیں جو رسول اللہؐ کو اس لیے کرائے گئے تاکہ مسلمان ان کی روشنی میں اپنی زندگی کا نظام استوار کرسکیں۔۔ پیغمبر آخر الزماںؐ کو معراج کے اس سفرمیں ہر طرح کا مشاہدہ کروایا گیا۔آسمانوں کی سیر کے ساتھ ساتھ انبیاءسے ملاقات اور انکی امامت بھی، پھرجنت کی سیر ،دوزخ کا مشاہدہ ، جبریل امین جیسے مقرب فرشتے رفیق سفر، جگہ جگہ فرشتوں کے ذریعے والہانہ استقبال اور سدرة المنتہیٰ کا خوبصورت نظارہ،اس سے آگے بڑھنے سے جبرائیل امینؑ نے معذوری کا اعتراف کیا۔ اب معزز مہمان کو خود آگے جانا، یہ بھی تکریم کا ایک نرالا انداز ہے، نورِ اعظم کا جو دراصل ذاتِ الٰہی کا استعارہ ہے دیدار، پھر شرفِ تکلم بھی۔ یہ شرف آج تک کسی بشر کو نہ مل سکا تھا، آج اللہ نے اپنے محبوب بندے اور رسول کو افضل البشر، سید الانبیاءاور نوع انسانی کی سب سے برگزیدہ ہستی کو عطا کرکے اس کی افضلیت اور کاملیت پر اپنی مہر دوام ثبت کردی۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے رات کے مختصر سے حصے میں اپنے پیارے محبوبؐ کو بیت المقدس اور پھر ساتوں آسمانوں نیز عرش وکرسی سے بھی ا وپر لامکاں کی سیر کرائی۔بے شک اللہ تعالیٰ تمام اور لامحدود طاقتوں کا مالک ہے ،ا س نے رات کے کچھ حصّے میں اِتنا لمبا سفر طے کروا دیا کہ عقل اِنسانی حیرت میں مبتلا ہے۔ رَبِّ ذوالجلال نے آنکھوں سے سب پردے ہٹا دئیے، دنیاوی قوانین منسوخ فرما دئیے، مکان و زمان کی قیود کی تمام فرضی بیڑیاں کاٹ دیں اور آسمان و زمین کے مخفی مناظر بے حجابانہ آپ کے سامنے آ جاتے ہیں۔لاکھوں کروڑوں کلومیٹرز کی و سعتوں میں بکھری مسافتوں کے ایک جنبشِ قدم میں سِمٹ آنے کو اِصطلاحاً ’طئی مکانی‘ کہتے ہیںاورصدیوں پر محیط وقت کے چند لمحوں میں سمٹ آنے کو اِصطلاحاً ’طئی زمانی‘ کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ انبیائے کرام اور اولیائے عظام میں سے کسی کو معجزہ اور کرامت کے طور پر طئی زمانی اور کسی کو طئی مکانی کے کمالات عطا کرتا ہے لیکن سروردوعالمؐ کاسفر معراج معجزاتِ طئی زمانی اور طئی مکانی دونوں کی جامعیت کا مظہر ہے۔ سفر کا ایک رخ اگر طئی زمانی کا آئینہ دار ہے تو ا س کا دوسرا رخ طئی مکانی پر محیط نظر آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں پیغمبر اسلام کے فرمودات پر عمل کرنے اور خلفائے راشدین ؓ کے طرز حیات کواپنانے کی توفیق نصیب کرے۔آمین۔
رابطہ۔ اوم پورہ بڈگام 9419500008