Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

واقعہ معراج میں حضور اکرمؐ کے مشاہدات فرِ لامکاں

Mir Ajaz
Last updated: February 9, 2024 2:06 am
Mir Ajaz
Share
20 Min Read
SHARE
ڈاکٹر جوہرؔقدوسی
(گذشتہ سے پیوستہ)
آفتابِ نبوت ؐ مسجد اقصیٰ میں طلوع ہوتے ہیں
اس کے بعدآفتابِ نبوتصلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصیٰ میں طلوع ہوتے ہیں۔ صحن حرم سے فلک تک نور ہی نور چھایا ہوا ہے۔ ستارے ماند پڑچکے ہیں، قدسی سلامی دے رہے ہیں، حضرت جبرائیل علیہ السلام اذان دے رہے ہیں، تمام انبیاء و رسل صف در صف کھڑے منتظر تھے کہ نماز کی امامت کون کرائے گا۔ جب صفیں بن چکیں تو  حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر آپﷺ  کو امامت کے لیے آگے کیا۔امام الانبیاء فخر دوجہاں حضرت محمدمصطفےٰصلی اللہ علیہ وسلم  امامت فرمانے تشریف لاتے ہیں۔ تمام انبیاء و رسل امام الانبیاءﷺ کی اِقتداء میں دو رکعت نماز ادا کرکے اپنی نیاز مندی کا اعلان کرتے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تین پیالے پیش کیے جاتے ہیں۔ ایک میں پانی، دوسرے میں دودھ اور تیسرے میں شراب تھی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم  نے دودھ کو پسند فرمایا۔ اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مبارکباد دی کہ آپ ﷺ فطرت کی راہ پا گئے۔یہاں ملائکہ اور انبیاء کرام سب کے سب سرتسلیم خم کئے ہوئے کھڑے ہیں۔ بیت المقدس نے آج تک ایسا دلنواز منظر اور روح پرور سماں نہیں دیکھا ہوگا۔ وہاں سے فارغ ہوتےہی عظمت و رفعت کے پرچم پھر بلند ہونے شروع ہوتے ہیں۔ درود و سلام سے فضا ایک مرتبہ پھر گونج اٹھتی ہے۔ سرورِ کونین ،تاجدارِ کائناتصلی اللہ علیہ وسلم  نوری مخلوق کے جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
خودحضورِپُرنورصلی اللہ علیہ وسلم اِرشاد فرماتے ہیں: پھر مجھے اوپر لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ کی انتہاء ہوتی وہاں براق کاپہلا قدم پڑتا۔ فوراً ہی پہلا آسمان آگیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دربان نے پوچھا: کون ہے؟ جواب دیا: جبرائیل! دربان نے پوچھا:تمہارے ساتھ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا :خاتم الانبیاء حضرت محمد(ﷺ)! دربان نے کہا: مرحبا !! دروازے انہی کے لئے کھولے جائیں گے۔ چنانچہ پہلے آسمان کا دروازہ کھول دیا گیا۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نورانی صورت بزرگ کو دیکھا ،جن کی بناوٹ، چہرے مہرے میں کسی قسم کا کوئی نقص نہ تھا۔یہ آدم ؑ تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ آپ کے جلیل القدر فرزند ہیں۔ ختم المرسلین ہیں۔ یہی حضرت محمدﷺ ہیں۔ یہی کل انبیاء کے سرتاج ہیں۔ آقائے دوجہاں ﷺ نے دادا جان کہہ کر آدم علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام ارشاد فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا،مرحبا کہا اورآپ ﷺکی نبوت کا اقرار کیا۔ساتھ ہی اپنے عظیم فرزند کو دعاؤں سے بھی نوازا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دائیں بائیں جو لوگ تھے،وہ ان کی اولادوں کی روحیں تھیں۔ آپ دائیں جانب والوں کو دیکھتے تو مسکراتے اور بائیں جانب والوں کو دیکھتے تو روتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےپوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔جبرائیل ؑ نے جواب دیا کہ یہ نسل آدم ہے،بابا آدم ( علیہ السلام ) جب دائیں جانب کے نیک لوگوں کو،جو اہلِ جنت ہیں، دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اورجب بائیں جانب کے برے لوگوں کو،جو اہلِ جہنم ہیں، دیکھتے ہیں،توغمگین ہوجاتے ہیں ( بخاری،مسلم،مسند احمد، )
یہاں پر رسولِ کائناتصلی اللہ علیہ وسلم کوربِ کائنات نے سعادت مندوں کی روحوں اور بدبختوں کی روحوں کا مشاہدہ کرایا۔(الرحیق المختوم،از:صفی الرحمٰن مباکپوری:ص 220)چنانچہ ایک جگہآپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جو کھیتی بوتے اور اُسی دن اُسے کاٹ بھی لیتے تھے۔ جو نہی وہ کھیتی کاٹتے وہ پھر ویسی کی ویسی ہوجاتی۔اس کی وجہ جاننے کے لیےرحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم  نے جبرائیلؑ سے فرمایا:’’یہ کیاہے؟‘‘
 جبرائیلؑ عرض گزار ہوئے:’’یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہا دکرنے والے ہیں، اِن کی نیکی کوسات سوگنا بڑھادیا جاتاہے۔ یہ مجاہدین جو کچھ خرچ کرتے ہیں، وہی اُن کو پھر مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رزق دینے والا بہترین رب ہے۔ ‘‘
ایک اور جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے۔ اُن لوگوں کے سرجونہی کچلے جاتے، وہ پھر سے صحیح سالم حالت میں آجاتے۔ یہ عمل مسلسل جاری رہتا تھا۔آپ ﷺ  نے پوچھا: ’’جبریل !یہ کیا ہے؟‘‘۔
جبرائیلؑ نے جواباً عرض کیا:’’یہ وہ لوگ ہیں ،جن کے بوجھل سر انہیں فرض نمازوں سے روک دیتے ہیں۔‘‘
انہی(بے شمار) مشاہدات کے سلسلے میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلمکی ملاقات ایک ایسے فرشتے سے ہوئی، جو آپ ﷺ سے نہایت ترش روئی سے ملا۔ آپ ﷺ نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ اب تک جتنے بھی فرشتے ملے ، سب کے سب خندہ پیشانی اور بشاش چہروں کے ساتھ ملے۔ لیکن ان کی خشک مزاجی کا کیا سبب ہے۔ حضرت جبرائیل نے فرمایا کہ اس کے پاس ہنسی کا کیا کام، یہ تو دوزخ کا داروغہ ہے۔ یہ سن کر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس نے یکایک آپ ﷺ کی نظر کے سامنے سے پردہ اٹھا دیا اور دوزخ اپنی تمام ہولناکیوں کے ساتھ نمودار ہوگئی۔( سیرت ابن ہشام )
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسری وادی میں تشریف لے گئے،جہاں آپ ﷺنے ایک ناپسندیدہ آواز سنی اور ایک بدبو کو محسوس کیا۔
آپﷺنے پوچھا : ’’یہ کیسی آواز اورکیسی بدبو ہے؟‘‘جبرئیلِ امین عرض گزار ہوئے : ’’یہ جہنم کی آواز ہے، جوکہہ رہی ہے: ’’اے اللہ!مجھے وہ لوگ عطافرما ،جن کا تونے مجھ سے وعدہ فرمایاہے، میری زنجیریں، ہتھکڑیاں، آگ کے شعلے، حرارت، پیپ اور بدبو میں اضافہ ہوگیا ہے، میری گہرائی اور حدَّت بڑھ گئی ہے، لہٰذا مجھے وہ لوگ عطا فرما دے، جن کا تونے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تیرے لئے ہر مشرک اورمشرکہ، ہرکافر اورکافرہ اور ہر وہ سرکش ہے جو روزِ حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔‘‘ یہ سن کر دوزخ نے کہا: ’’میں راضی ہوں۔‘‘
رسول برحق ؐ کوآسمانوں اور جنت کا تفصیلی مشاہدہ کرایا گیا
اس مرحلہ سے گزر کر آپ  صلی اللہ علیہ وسلمدوسرے آسمان پر پہنچے۔  پہلے آسمان کی طرح بوّاب نے دوسرے آسمان کا بھی دروازہ کھولا۔دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام نے حضور ﷺکو خوش آمدید کہا۔ سلام کا جواب دیا،مرحبا کہا اورآپ ﷺکی نبوت کا اقرار کیا۔اس یادگار ملاقات اور آسمان کے ملکوتی مشاہدات کے بعد آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کو تیسرے آسمان کی طرف پہونچایا گیا۔  تیسرے آسمان پر حضور ﷺ کی ملاقات سیدنا یوسف علیہ السلام سے کرائی گئی،جنہوں نے  سلام کا جواب دیا،مرحبا کہا اورآپ   صلی اللہ علیہ وسلمکی نبوت کا اقرار کیا۔ تیسرے آسمان کے مشاہداتِ نورانی کے بعد حضورﷺ کو چوتھے آسمان پر پہنچایا گیا۔ چوتھے آسمان پر تاجدارِ کائنات ﷺ کی ملاقات  حضرت ادریس علیہ السلام سے ہوئی۔انہوں نے بھی  سلام کا جواب دیا،مرحبا کہا اورآپ ﷺکی نبوت کا اقرار کیا۔پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سےملاقات کرائی گئی۔آپؐ نے سلام کیا،حضرت ہارونؑ نے  سلام کا جواب دیا،مرحبا کہا اورآپ ﷺکی نبوت کا اقرار کیا۔چھٹے آسمان پر پہنچے ،تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔آپ ؐ نے سلام کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چشمانِ مقدس اشکبار ہو گئیں، سلام کا جواب دیا،مرحبا کہا اورآپ ﷺکی نبوت کا اقرار کیا۔ حضور   صلی اللہ علیہ وسلمکی عظمت و رفعت کو دیکھ کرحضرت موسیٰ ؑ کی آنکھوں سے رشک کے آنسو چھلک پڑے۔ آپ کی زبانِ اقدس سے بے اختیار نکلا کہ خدائے بزرگ و برتر کے یہ وہ برگزیدہ رسول ہیں، جن کی امت کو میری امت پر شرف عطا کیا گیا۔ یہ وہی رسولِ برحقﷺ ہیں، جن کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں کےمقابلے میں کثرت کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے۔
 ساتویں آسمان پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ایک ایسے بزرگ سے ہوئی، جو آپ ﷺ سے نہایت مشابہ تھے ۔تعارف پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔آپؐ نے سلام کیا،حضرت ابراہیم ؑ نے مرحبا!اے پیغمبر صالح اور اے فرزند صالح سے مخاطب کرکے   سلام کا جواب دیااورآپ ﷺکی نبوت کا اقرار کیا۔ ( بخاری،مسلم ،مسند احمد )۔حضرت ابراہیم ؑ بیت المعمور سے پیٹھ لگائے بیٹھے تھے،جس میں ہرروز ستّر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں۔(سیرۃ النبی :علامہ شبلی نعمانی،ج:۳،ص:232)
اس کے بعد رسول برحق  صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت کا تفصیلی مشاہدہ کرایا گیا۔ آپ ﷺ نے جنت کا مشاہدے میںدیکھا کہ اللہ نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ مہیا کررکھا ہے ،جو کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا ،نہ کسی ذہن میں اس کا تصور آسکتا ہے۔پھر آپ ﷺاُس مقام تک پہنچے ،جہاں قلم ِقدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔
مشاہداتِ آسمانی کے نورانی جلوؤں ،نیک و بد روحوںکے حالات و کوائف اور جنت کے چشم دید مشاہدے کے بعد تاجدارِ کائنات   صلی اللہ علیہ وسلم کو سدرۃ المنتہیٰ کے مقام تک لے جایا گیا ۔یہ وہ مقامِ عظیم ہے جہاں آ کر ملائکہ، حتیٰ کہ انبیاء و رْسل کی بھی پرواز ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں مقرب فرشتوں کے بھی پرجلتے ہیں۔ گویا ملاقات کا سارا نظام اور عالمِ امکان کی ساری بلندیاں سدرۃْ المنتہیٰ پر ختم ہو جاتی ہیں۔کتابوں میں درج ہے کہ سدرۃْ المنتہیٰ کا مقامِ اولیٰ عالمِ مکان کی آخری حد اور لامکاں کا ابتدائی کنارہ ہے۔جب مہمانِ عرش ﷺ آگے بڑھنے لگے تو جبرئیلِ امین رک گئے۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : جبرئیل چلو! تو عرض کیا :اگر میں ایک چیونٹی برابر بھی آگے بڑھا تو (تجلیاتِ الٰہی کے پرتو سے) جل جاؤں گا۔(الیواقیت و الجواہر، 3 : 34:از:مام عبد الوھاب بن احمد علی الشعرانی رحمۃ اللہ علیہ (973ھ))۔ سبحان اللہ! حضورﷺ کی رفعت و عظمت کا اندازہ لگایئے کہ جہاں شہبازِ سدرہ کے بازو تھک جائیں اور روح الامین کی حد ختم ہوجائے، وہاں سے حضور ﷺ کی پرواز شروع ہوتی ہے۔
  یہ بات قابلِ غور ہے کہ محب اور محبوب کے درمیان تنہائی کی ملاقات میں جو باتیں ہوئیں، اُن کا بیان نہیں فرمایا، لہٰذا محب اور محبوب میں کیا کیا باتیں ہوئیں، اس کلام کی حقیقتوں کی کسی کو کچھ خبر نہیں۔اس میں سے کچھ باتیں ہماری سکت کےمطابق ،ہماری طاقت اور ہمت کےمطابق جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نےافشاءکردیں ، وہ دنیا والوں کو معلوم ہوگئیں ۔جو افشاءنہیں کیں، اس کی کوئی خبر نہیں۔
 نبی ٔ کریمؐ نے بارگاہِ الٰہی میں تین تحفے پیش کئے
روایات میں آیا ہے کہ حضورنبی ٔکریم  صلی اللہ علیہ وسلمجب قاب قوسین سے بھی زیادہ قرب پر فائز ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں’السلام علیکم‘نہیں کہا۔کوئی اُس ذات ِ اقدس کو کیسے سلام کہے،جوخود پیکرِ سلام اورساری سلامتیوں کا خالق و مالک ہے ۔ پس حضور نبی ٔ کریمﷺنے سلام کے بدلے بارگاہِ الٰہی میں تین تحفے پیش کئے۔ عرض کیا:التحیات لِلّٰہ والصلوات والطیبات(معارج النبوۃ، 3 : 149)[ترجمہ]:’’میری تمام قولی، مالی اور بدنی عبادتیں اللہ کی بارگاہ میں  (صرف اللہ کے لئے ہیں)حاضر ہیں۔‘‘جواب میں حسبِ قاعدہ اللہ تعالیٰ نے بھی تین تحفے پیش کئے ۔فرمایا:اَلسَّلَامْ عَلَیْکَ ایُّہَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃْ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتْہ(معارج النبوۃ، 3 : 149)
[ترجمہ]:’’اے نبی! تمہارے اوپر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں۔‘‘حضور اکرمﷺ نے قبول فرمایا، مگر ساتھ ہی اپنی اس سلامتی میں اپنی امت کے نیکو کاروں کو بھی شامل کیا۔فرمایا  :اَلسَّلَامْ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ (معارج النبوۃ، 3:149)۔[ترجمہ]:’’سلامتی ہو ہم پراور اللہ کے نیک بندوں پر۔‘‘جب اتنی گفتگو ہو چکی،تو  اللہ اور اس کے حبیب  صلی اللہ علیہ وسلمکے مابین اِس مکالمے پر ملائکہ پکار اٹھے :اَشھد ان لا الٰہ الا اللہ واشھد انّ محمداً عبدُہٗ ورسولہٗ (معارج النبوۃ، 3:149)۔[ترجمہ]’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
 امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہفرشتوں کی اس تصدیق کے بیان کے بعد کہ معراج حق ہے اور ان تحائف کا لینا دینا بھی حق ہے، جب تم السلام علیک ایھا النبی پر پہنچو تو تصورایسا کرو کہ:’’اپنے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکو جلوہ گر سمجھو اور کہو: اے اللہ کے نبی! آپ پر سلامتی اور اللہ کی رحمتیں ہوں اور اس کی برکتیں ہوں۔‘‘(احیاء العلوم، 1 : 169)
نماز کو امت کے لیےمعراج بنادیاگیا
نماز کو امت کے لیےمعراج بنادیاگیا۔’’الصلوة معراج المومنین ‘‘ حدیث پاک میں آتا ہے کہ آقائے نامدار  صلی اللہ علیہ وسلم کوجب کبھی اُس ملاقات کی یاد آتی، عجب بےچینی اور اضطراب ہوتا اور حضرت بلالؓ کو فرماتے:’’ بلال! آج ہماری روح میں تھوڑی بےچینی ہے،ذرا ہمارےدل کو سکون دےدے۔‘‘حضرت بلالؓ اذان کہتے۔حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: حضرت بلال اذان کہتے،حضور   صلی اللہ علیہ وسلمہم سےگفتگو کررہےہوتےمگر اللہ اکبر کی آواز بلند ہوتی، اذان کےالفاظ آقا کےکان میں پڑتے،تواذان کی آواز سنتےہی شب معراج کی تنہائیاں یاد آتیں۔ اس طرح حالت ہوجاتی کہ حضور ہمیں پہچاننا بھی چھوڑ دیتے۔   ؎
دو عالم سےکرتی ہےبیگانہ دل کو
عجب چیز ہےلذّت آشنائی
  دوست کو دوست یاد آجائے،توساری دنیا کی شناسائی بھول جاتی ہےاور انسان محبوب کو تکتا رہ جاتا ہے۔یقیناً جب رسولِ کائنات ﷺ کوخلوت ِ شب ِ معراج اورمقام’’اَو اَدنیٰ‘‘ کےبےنقاب جلوؤں کی یاد آتی ہوگی، پھر’’ اللہ اکبر‘‘ کی مٹھاس آقا ؐکےکانوں میں پڑتی ہوگی، اُس وقت تو دل دہل جاتےہونگےاور حسن الہٰی آگےسےبےنقاب ہوتا ہوگا ۔پھر حضور  صلی اللہ علیہ وسلمکی نگاہیں کسی کو کیوں پہچانتیں، پھر نماز پڑھتےہر ایک کو بھول جاتے۔
کسی عارف نے کیا خوب لکھا ہے کہ :جب اللہ تعالیٰ نے یہ دیکھا کہ حضور نبی کریم ﷺ امت کی فکر اور غم میں راتوں کو بھی نہیں سوتے، تو امت سے متعلق خوشخبری سنانے کے لئے اپنے پیارے محبوبؐ کو اپنے پاس معراج کی صورت میں بلایا اور امت کے لئے عام معافی کی خوشخبری بھی سنائی اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلمکو شب ِ معراج میںاپنا دیدار بھی کرایا۔
 صبح ہوتے ہی حضور سرور کونین   صلی اللہ علیہ وسلمنےاس واقعہ کا ذکر اپنی چچا زاد بہن اُم ہانی ؓسے فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا:کہ قریش سے اس کا تذکرہ نہ کیا جائے، لوگ انکار کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں حق بات ضرور کروں گا، میرا رب سچا ہے اور جو کچھ میں نے دیکھا ،وہی سچ ہے۔
اہل ایمان نے اس واقعے کی سچائی کو دل سے مانا اور اس کی تصدیق کی مگر ابوجہل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس دوڑا دوڑا گیا اور کہنے لگا: اے ابوبکر! تو نے سنا کہ محمد(ﷺ) کیا کہتے ہیں؟۔ کیا یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ رات کو وہ بیت المقدس گئے اور آسمانوں کا سفر طے کرکے آبھی گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:’’ اگر میرے آقا(ﷺ) نے فرمایا تو ضرور سچ فرمایا ہے، کیونکہ انؐ کی زبان پر جھوٹ نہیں آسکتا۔ میں اپنے نبی کی سچائی پر ایمان لاتا ہوں۔ کفار بولے۔ ابوبکر ؓ:’’تم کھلم کھلا ایسی خلافِ عقل بات کیوں صحیح سمجھتے ہو؟‘‘۔ اُس عاشق ِ صادق نے جواب دیا:’’ میں تو اس سے بھی زیادہ خلاف ِ عقل بات پر یقین رکھتا ہوں‘‘۔ اُسی دن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دربارِ نبوت سے ’’صدیق ‘‘کا لقب ملا۔
سفرِمعراج میں محبوبِ کبریا  صلی اللہ علیہ وسلمنے اتنا طویل سفر طے کیا، اِتنی طویل سیر کی، اِتنی طویل گفتگو کی، لیکن جب واپس تشریف لائے، توآپ ﷺ کے وضو کا پانی بھی بہہ رہا تھا،دروازے کی کنڈی بھی ہل رہی تھی اور بستر بھی گرم تھا۔ عظمتوں اور رفعتوں کے اِس سفر میں حضور   صلی اللہ علیہ وسلمکو اَن گنت عجائبات بھی دکھائے گئے۔ اللہ کے فضل و کرم کی گھٹائیں آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمرکاب رہیں، کارخانہ قدرت میں کارکنانِ قضا و قدر نے وقت کی طنابیں کھینچ لیں، حضورﷺ کی سرعت ِ رفتار کا یہ عالم تھا کہ ایک ہی جست میں تمام مسافتیں طے ہو گئیں، فاصلے سمٹ گئے اور وقت اُسی نقطے پر ٹھہر گیا، جہاں صاحبِ معراج   صلی اللہ علیہ وسلم اِسے چھوڑ کر گئے تھے۔بقول اقبالؒ؎
عشق کی ایک جَست نے طے کر دیا قصّہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
رابطہ۔9906662404
مدیر: ماہنامہ ’ الحیات‘
[email protected]
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
کشتواڑ کے جنگلات میں دوسرے روز بھی تلاشی آپریشن جاری
تازہ ترین
اپوزیشن کو ایوان میں بولنے کی اجازت نہیں: راہل-پرینکا گاندھی
تازہ ترین
جموں کشمیر ہائی کورٹ کا اہم اقدام، عدالت کے احاطے میں وکلاء کے علاوہ وکیلوں جیسا لباس پہننے پر پابندی عائد کر دی
تازہ ترین
مودی کو پہلگام حملہ، آپریشن سندور، ٹرمپ کے بیان پر جواب دینا چاہیے: کھڑگے
برصغیر

Related

کالممضامین

امریکہ میں زہران ممدانی کے خلاف اسلامو فوبک تحریک ندائے حق

July 20, 2025
کالممضامین

! چشم ہائے گہر بار:بڑے کام کا ہے یہ آنکھ کا پانی تجلیات ادراک

July 20, 2025
کالممضامین

افسانوی مجموعہ’’تسکین دل‘‘ کا مطالعہ چند تاثرات

July 18, 2025
کالممضامین

’’تذکرہ‘‘ — ایک فراموش شدہ علمی اور فکری معجزہ تبصرہ

July 18, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?