ویب ڈیسک
ماہرین نے ایک نئی تحقیق میں معلوم کیا ہے کہ اگر کوئی خلاء میں موجود ’’وارم ہول‘‘میں گرجائے تو اس کا واپس آنا ممکن نہیں ہوگا لیکن اس کے پاس اتنا وقت ضرور ہوگا کہ دنیا میں واپس پیغام بھیج سکے۔وارم ہول ایک فرضی شے ہے، جس کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہمیں کائنات کے دور دراز حصوں تک یا دوسری کائناتوں میں پہنچانے میں ایک راہ داری فراہم کرسکتا ہے۔ لیکن ابھی تک کسی قسم کا کوئی وارم ہول سائنس دانوں کے مشاہدے میں نہیں آیا ہے۔ماہرین طبیعیات کے مطابق زیر مطالعہ رہنے والی وارم ہولز کی سب سے عام قسم میں اگر کوئی مادّہ داخل ہو تو وہ انتہائی غیر مستحکم ہوتے ہوئے منہدم ہو جائے گا، تاہم یہ بات واضح نہیں ہے کہ انہدام کا یہ عمل کتنی تیزی سے ہوگا۔ حال ہی میں ایک نئے کمپیوٹر پروگرام نے بتایا ہے کہ ایک قسم کا وارم ہول میں سے اگر مادّہ گزارا جائے تو اس کا ردِ عمل کیسا ہوگا۔ میساچوسیٹس کے شہر وسٹر میں قائم کالج آف ہولی کراس کے طبیعیات دان بین کائن نے کمپیوٹر سِمیولیشن میں ایک مشن کو وارم ہول میں بھیجا۔
ان کا کہنا ہےکہ کیوں کہ آپ جانتے ہیں وارم ہول منہدم ہوجائے گا ،اس لیے آپ اس کو واپس لانے کی کوشش نہیں کریں گے لیکن کیا اس انہدام سے قبل کوئی سگنل واپس آسکتا ہے؟ تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔بین کائن نے کہا کہ اس سے قبل وارم ہول پر کیے جانے والے مطالعوں میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ان خلائی راہ داریوں میں اگر مادّے کی عجیب و غریب قسم، جس کو بھوت مادّہ (گھوسٹ میٹر) کہا جاتا ہے، موجود ہو تو یہ ممکنہ طور پر کائنات میں دور دراز علاقوں میں جانے اور وہاں سے واپس آنے کے لیے کھلی رہ سکتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق نظری اعتبار سے اس بھوت مادّےکا کششِ ثقل پر ردِ عمل عام مادّے سے مکمل الٹ ہوتا ہے۔ یعنی بھوت مادّے کا سیب اگر درخت کی شاخ سے گرے تو وہ نیچے جانے کے بجائے اوپر جائے گا۔جب کہ آئن اسٹائن کی تھیوری آف جنرل ریلیٹیویٹی کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ بھوت مادّہ وجود ہی نہ رکھتا ہو۔ اس کے باوجود بین کائن نے کمپیوٹر پروگرام میں ایک گھوسٹ میٹر کو وارم ہول سے گزارا اور دیکھا کہ اس کے سبب وارم ہول بند ہونے کے بجائے متوقع طور پر پھیلا۔ لیکن بین کائن کی سِمیولیشن نے اس بات کی تصدیق کی کہ عام مادّے کا ان وارم ہول سے گزرنا یکسر مختلف تجربہ ہوگا۔ اس کے سبب یہ وارم ہول بند ہوجائے گا ،جس کے بعد اس کی جگہ بلیک ہول نما چیز رہ جائے گی، تاہم یہ عمل اتنا آہستہ ہوگا کہ تیزی سے چلنے والا مشن وارم ہول مکمل طور پر بند ہونے سے قبل روشنی کی رفتار سے سگنل واپس بھیج سکے گا۔سائنس داں اس ترقی یافتہ دور میں انوکھی چیزیں تیار کررہے ہیں۔ انجینئروں نے ایک کشتی تیار کی ہے جو دیکھنے میں بالکل شارک جیسی ہے جو پانی کی سطح پر اور زیرِ آب بآسانی سفر کر سکتی ہے۔ تخلیق کاروں کے مطابق جیٹ شارک کیو ماڈل نامی کشتی کا یہ نمونہ 72 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتا ہے لیکن مارکیٹ میں متعارف کروایا جانے والا ورژن 89 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلایا جا سکے گا۔
اس کشتی کو نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے جیٹ شارک کمپنی کے بانی روب اِنیز نے تیار کیا ہے۔ دو سیٹوں والی یہ کشتی شارک، کلر وہیل یا ڈولفن کی صورت میں بنائی گئی تھی، لیکن روب اس کشتی میں مزید افراد کی گنجائش چاہتے تھے۔ کیو ماڈل 20 فِٹ لمبا ہے اور اس میں چار افراد سفر کر سکتے ہیں لیکن کمپنی اس کے سائز کو مزید بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے، تاکہ چھ افراد کی جگہ بنائی جاسکے۔ روب اِنیز کے مطابق جیٹ شارک کا مقصد آرام دہ کشتی میں زیر آب منفرد تجربہ فراہم کرنا تھا۔