شفیع نقیب
ادب کی دنیا میں کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے نہ صرف قلم کو زبان دی بلکہ انسان کے درد، جذبے، آنسو اور حسرتوں کو لفظوں میں ڈھال کر ایک پوری نسل کو سوچنے پر مجبور کیا۔ کرشن چندر اُن ہی لازوال افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں جن کی تخلیقات آج بھی تازگی، سچائی اور انسان دوستی کا پیکر نظر آتی ہیں۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’واردات‘‘ محض افسانوں کی فہرست نہیں بلکہ ہندوستان کی دیہی زندگی کی وہ تصویریں ہیں جو غربت، پیار، محرومی، اور انسانیت کی اصل شکل کو قاری کے دل میں یوں ثبت کرتی ہیں کہ وہ دیر تک اثرانداز رہتی ہیں۔
اگرچہ میں سائنس کا طالبعلم رہا ہوں، لیکن اردو ادب اور شاعری میرے دل کی گہرائیوں سے جُڑی رہی ہے۔ میرے لئے ادب صرف مطالعہ کا ایک ذریعہ نہیں بلکہ ایک روحانی تجربہ ہے۔ اسی جذبے کے تحت میں نے کرشن چندر کی ’’واردات‘‘ کو نہ صرف پڑھا بلکہ اسے محسوس کیا ۔اس کے کرداروں کے ساتھ جیا، ان کے دکھ سہے، ان کے درد کو دل سے محسوس کیا۔
’’واردات‘‘کے افسانوں میں کرشن چندر نے دیہی ہندوستان کی زندگی کو اس خوبصورتی اور سچائی سے پیش کیا ہے کہ قاری ان کرداروں سے بیگانہ نہیں رہ پاتا۔ چاہے وہ ’’شکوہ شکایت‘‘ میں بیوی کا شوہر سے گلہ ہو یا ’’معصوم بچہ، بدنصیب ماں‘‘ میں ممتا کی ٹوٹتی ہوئی کرچیاں — ہر افسانہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں صرف کردار نہیں بلکہ قاری اپنی جھلک بھی دیکھتا ہے۔
کرشن چندر کے افسانے نہ صرف کہانی سناتے ہیں بلکہ سوالات بھی اُٹھاتے ہیں۔ وہ کہتے کچھ ہیں لیکن دکھاتے اور زیادہ ہیں۔ مثلاً ’’روشنی‘‘ جیسے افسانے میں جہاں ایک عام سی گھریلو ملازمہ انسانی وقار کی روشن علامت بن جاتی ہے، وہیں ’’مالکن‘‘ میں انسانی فطرت کی پیچیدگی، نفسیاتی الجھن، اور سماجی درجہ بندی پر گہری تنقید ملتی ہے۔
کرداروں کی سچائی :
کرشن چندر کے کردار کوئی خوابیدہ مخلوق نہیں بلکہ ہمارے ہی آس پاس کے لوگ ہیں۔ جوکھو کا سادہ اور بے لوث پیار، بیوہ کی مجبوری، نئی بیوی کی جوان تمنائیں اور گھر کے نوکر سے اس کی نوک جھونک ۔ یہ سب کچھ نہایت سادہ پیرائے میں پیش کیا گیا ہے مگر ان کا اثر دل پر گہرا ہوتا ہے۔
’’سوانگ‘‘ اور ’’گلی ڈنڈا‘‘ جیسے افسانے دیہات کے ثقافتی پہلو کو اجاگر کرتے ہیں، جہاں کھیل تماشے صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ دلوں کے زخموں پر مرہم بھی ہوتے ہیں۔ ’’انصاف کی پولیس‘‘ میں ایک طنز بھی ہے، ایک تلخی بھی اور وہ کھری حقیقت بھی جو سماجی ڈھانچے کی قلعی کھول دیتی ہے۔
زبان و اسلوب :کرشن چندر کی سب سے بڑی خوبی اُن کا سادہ مگر پُراثر اَسلوب ہے۔ وہ لفظوں سے تصویریں بناتے ہیں۔ اُن کے جملے بھاری بھرکم نہیں ہوتے لیکن دل پر دستک ضرور دیتے ہیں۔ وہ محض کہانیاں نہیں سناتے، وہ قاری کو کہانی میں کھینچ لاتے ہیں۔ ان کی تحریر میں شاعرانہ چاشنی بھی ہے اور انقلابی صداقت بھی۔
اُن کا طنز شائستہ ہے، مزاح شفاف ہےاور درد بےساختہ۔ ان کی زبان میں کوئی بناوٹ نہیں، کوئی غیر ضروری آرائش نہیں ۔۔ایک سادہ کسان کی بیٹی ہو یا تھانے کا کانسٹیبل، سب اپنی فطری بولی میں بولتے ہیں۔
اردو ادب کے لئے خدمات :
کرشن چندر نے اردو افسانے کو عوامی بنایا۔ وہ اردو زبان کو ایوانِ اقتدار سے نکال کر کھلی کھیتوں، کچے راستوں، اور عام انسان کے دل میں لے آئے۔ ان کی تحریر نے بتا دیا کہ ادب صرف خواص کے لئے نہیں، بلکہ وہ آئینہ ہے جس میں ہر فرد خود کو دیکھ سکتا ہے۔اُنھوں نے نہ صرف اردو افسانے کو نئی جہت دی بلکہ انسانی دکھ، سیاسی ناانصافی، اور معاشرتی تضادات کو ایسا ادبی جامہ پہنایا جو آج بھی اتنا ہی موزوں ہے جتنا 1950 کی دہائی میں تھا۔ ان کے افسانوں میں ترقی پسند تحریک کی روح جھلکتی ہے، مگر وہ کہیں بھی سادگی اور انسان دوستی کو قربان نہیں کرتے۔
’’واردات‘‘ — ایک احساس، ایک احتجاج :
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ’’واردات‘‘ محض ایک افسانوی مجموعہ نہیں بلکہ ہندوستانی سماج کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی کامیاب کوشش ہے۔ یہ اُن آوازوں کا مجموعہ ہے جو اکثر دبا دی جاتی ہیں۔ وہ ماں جو مجبوری میں چُپ ہے، وہ بچہ جو صرف دودھ مانگتا ہے، وہ مزدور جو پیار بھی کرتا ہے اور غربت سے لڑتا بھی ہے۔’’واردات‘‘ کے افسانے ہمیں ہمارے سماج سے روشناس کراتے ہیں — نہ کوئی لیکچر، نہ کوئی فتویٰ، صرف کہانی، درد، اور سچائی۔
خراجِ عقیدت :
کرشن چندر نے اپنی تحریر سے ثابت کیا کہ ادب محض تفریح نہیں، ایک سماجی فریضہ بھی ہے۔ اُنہوں نے اردو ادب کو ایسا خزانہ دیا جو نسلوں تک مشعلِ راہ رہے گا۔ اُن کے افسانے ہمیں جھنجھوڑتے ہیں، جگاتے ہیں اور خود احتسابی کی دعوت دیتے ہیں۔
میں بطور قاری اور ادب کا ایک ادنیٰ طالبعلم کرشن چندر کو دل کی گہرائیوں سے خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ ان کی ’’واردات‘‘ صرف واردات نہیں بلکہ اردو ادب میں ایک یادگار سنگِ میل ہے۔ان کی تحریر نے ہمیں نہ صرف سچ بولنا سکھایا بلکہ سچ کو سننے کا حوصلہ بھی دیا۔ وہ ہمارے سماج کے خاموش مؤرخ تھے، جنھوں نے دیہی ہندوستان کے دل کی دھڑکن کو لفظوں میں قید کر لیا۔
کرشن چندر کی ’’واردات‘‘ کو پڑھنا گویا ہندوستانی دیہی زندگی کی آنکھوں میں جھانکنا ہے۔ وہ آنکھیں جو خواب بھی دیکھتی ہیں اور آنسو بھی بہاتی ہیں۔ اگر آپ نے اب تک یہ کتاب نہیں پڑھی تو گویا آپ نے اردو ادب کے ایک اہم باب کو نظرانداز کیا۔ ’’واردات‘‘ صرف افسانوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک حساس دل رکھنے والے انسان کے قلم کی دیانت دار تصویر ہے۔
رابطہ۔9622555263
[email protected]