Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

وارث !

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: February 11, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
14 Min Read
SHARE
 ’’ او مائی گارڈ  ۔۔۔۔۔‘‘۔  
شام کو دکان بند کرتے وقت غفور کا نسحہ اپنی میز پر دیکھ کر شاکر چونک پڑا ،اس کے دل میں کانٹے سے چبھنے لگے ۔وہ کچھ لمحے تذبذب کی حالت میں دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھتا رہا،پھر جلدی سے دکان بند کرکے غفور کے بارے میں ہی سوچتے ہوئے گھر کی طرف چل پڑا ۔ غفور آج دوپہر کو نسخہ لے کر اس کے پاس آیا تھا ۔۔۔۔۔۔ ۔
’’شاکر بیٹا ۔۔۔۔۔۔ خدا کے لئے مجھے دوائی کی ایک دو ٹکیاں دے دو ،بلڈ پریشر سے میرا سر گھوم رہا ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔
نسخہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے وہ انتہائی لجاجت سے ہاتھ باندھ کر مریل سے لہجے میں منتیں کر رہا تھا ۔
’’چل دفا ہو جائو یہاں سے۔۔۔۔۔۔ کیوں دھندا خراب کرتا ہے ۔۔۔۔۔ ڈراما باز کہیں کا۔۔۔۔۔۔‘‘۔
دوا فروش شاکر، جو گاہکوں کے ساتھ مصروف تھا ،نے تنگ آکر اس کو کرخت لہبجے میں دھتکارتے ہوئے کہا ۔شاکر کی دھتکار سے غفور کا بلڈ پریشر اور بڑھ گیا ، آنکھیں بھر آئیں اوروہ سخت بے دلی اور مایوسی کی حالت میں واپس پاس ہی واقع اپنی جھو نپڑی کی طرف چلا گیا ۔وہ اکثر خالی ہاتھ آکر ایسے ہی منتیں کرتے ہوئے شاکرسے دوائیاں مانگتا تھا جو اس کو اکثر ٹوکتا بھی تھا، لیکن آخر ترس کھا کر دوائیاں بھی دیتا تھا لیکن نہ جانے کیوں آج وہ خلاف توقع غفور پر ایسے برس پڑا کہ وہ برداشت نہیں کر پایا ۔  
آج معمولی جھونپڑی میں رہنے والا غفور کبھی گائوں کے ایک بڑے سرمایہ دار خواجہ لالہ جُو کا اکلوتا بیٹا تھا،جو عالی شان بنگلے کا مکین تھا اور جس کا بچپن بڑے ہی ناز نخروں اور عیش عشرت میں گزرا تھا۔اس کے والدین اس کو کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے تھے ۔وہ جس چیز کی بھی فرمائش کرتا تھا چٹکیوں میں پوری کر دیتے تھے ۔ یوں کہیں کہ اس کی ماں اس کو چاندی میں تولتی تھی ،سجا سنوار کر خود سکول تک چھوڑنے جاتی تھی اور واپس آنے تک بے چینی سے اس کی راہ تکتی رہتی تھی ۔وہ ذہین بھی تھا اور خوب دل لگا کر پڑھائی بھی کرتا تھا۔ہر سال اچھے نمبرات لے کر پاس ہوجاتا تھا۔یوں اس کی زندگی بڑے ہی عیش وآرام اور عزت سے گزر رہی تھی ۔لیکن تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ابھی وہ دسویں جماعت میں ہی زیر تعلیم تھا کہ اس کی ماں ،جس نے اپنے لال کے بارے میں بڑے بڑے خواب سجائے تھے ،چند دن بیمار رہ کر اللہ کو پیاری ہو گئی ۔ماں جیسے شاندار سائیبان سے محروم ہونے کے بعد باپ نے اس کی طرف زیادہ دھیان دیتے ہوئے اس کے ناز اٹھانا شروع کئے اور ماں کی محرومی کی شدت کو کم کرنے کی زبردست کوشش کی۔یوں اس کی زندگی دوبارہ پٹری پر لوٹ آئی ۔اس کے باپ کی خوشیوں کا تب کوئی ٹھکانہ نہیں رہا جب اس نے اچھے نمبرات سے دسویں کا امتحان پاس کر کے اس کی عزت بڑھادی ۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے بعد ہی اس کی زندگی کا کٹھن سفر شروع ہو گیا ۔ہوایوں کہ اس کے باپ نے اپنے یار دوستوں کے مشورے پر اپنے سے دس پندرہ سال کم عمر کی ایک خوب رو خاتون سے دوسری شادی رچائی۔باپ کے اس قدم پر غفور بھی کافی خوش ہوا ،کیوں کہ وہ سمجھا تھا کہ نئی ماں بھی اس کی اپنی ماں کی طرح ہی اس کے ناز اٹھائے گی لیکن برعکس اس کے اس محترمہ نے چند ماہ بعد ہی اپنے تیور دکھانا شروع کر دئے ۔وہ نہ صرف بات بات پر غفور کو ٹوکتی اور ذلیل کرتی تھی بلکہ اپنے شوہر کے کان بھر بھر کے اس کو بھی اس کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتی تھی ،جس کے سبب باپ نے بھی بات بات پر اس کی بے عزتی کرنی شروع کردی ۔اس طرح کورے کاغذ کی مانند صاف و شفاف غفور کا ذہن زبردست تنائو میں مبتلا ہو کر پڑھائی تک سے ہٹ اور اپنے غم غلط کرنے کے لئے وہ غلط صحبتوں کا شکار ہو کر آوارہ گردی کرنے لگا ۔غفور کے اس رویے سے سخت ناراض ہو کر اس کا باپ ،جو اس کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاھتا تھا، اور زیادہ بھڑک اٹھا اور تیش میں آکر اس کی پڑھائی چھڑا کر اُسے گھر میں بٹھا دیا۔ اب اچانک اس کی سوتیلی ماں نے بھی اپنے رویے میں قدرے تبدیلی لا کر اس کو اپنانا شروع کر دیا اور بڑی ہی فنکاری سے اس کو ایک نوکر کی طرح گھر کے کاموں میں اُلجھا کے رکھ دیا ۔ وہ صبح سے شام تک گھر کے کاموں، جیسے برتن مانجھنا ،کپڑے دھونا،پانی بھرنا، گھر کی صفائی وغیرہ، میں مصروف رہتا تھا اور بد لے میں اس کو دو وقت کی روٹی میسر ہوتی تھی ۔وقت کا پنچھی تیزی سے اپنا سفر طئے کرتا رہا ۔نئی ماں نے وقفے وقفے سے دو بیٹوں کو جنم دے کر غفور کی مصروفیات میں اور اضافہ کر دیا ۔ان کو جھولا جھلانا،ان کے کپڑے دھونا ،ڈائیپر تبدیل کرنااور فرست کے اوقات ان کو گودی میں اٹھا کر کھلانا بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہو گیا، جس کے بدلے میں ماں کبھی کبھی اس کو پیار کے دو بولوں سے نوازتی تھی ۔لیکن وہ دونوں جونہی چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے تو ماں کے رویے میں پھر سے تبدیلی آنا شروع ہوگئی ۔اب وہ پھر سے غفور کو بے عزت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے باپ کو بھی اس کے خلاف بھڑکانے لگی ۔گھر میں آئے روزلڑائی جھگڑے ہونے لگے اور بے چارہ غفور باپ کے ہاتھوں بری طرح پٹتا ررہا۔غفور جو اب بالغ ہو چکا تھا اپنے باپ کو اس کے غلط روئے اور اپنی بے گناہی کے بارے میں بتانے کی پوری کوشش کرتا تھالیکن بری طرح سے جوان بیوی کے زُلفوں کا اسیر باپ اس کی ایک بھی نہیں سنتا تھا اور شفقت پدری کو بھول کر آئے روز اس کو تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔ اس طرح اپنے ہی گھر میں غفور کی زندگی ایک جہنم بن کر رہ گئی ۔غفور بھی یہ ظلم کب تک سہتاآخر ایک دن دل برداشتہ ہو کر گھرچھوڑ کر بھاگ گیا اور در در بھٹکنے لگا۔ اب وہ پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر دن کو ادھر اُدھر مزدوری کرکے رات کسی مسجد میں،فٹ پاتھ پر یا کسی پڑوسی یا رشتہ دار کے ہاں گزارتا تھا۔کئی برسوں بعد اس نے اپنے باپ،جس کے پاس کئی تعمیرات کے ساتھ ساتھ درجنوں ایکڑ اراضی تھی ، سے پراپرٹی میں اپنے حصے کا تقاضا کیا لیکن اس نے کچھ بھی دینے سے صاف انکار کر دیا۔ لیکن آخر کار محلے کے بڑے بزرگوں کی مداخلت کے بعد بڑی مشکل سے اپنے بنگلے کے متصل چند مرلے زمین دینے پر راضی ہو گیا ۔
’’غفور ۔۔۔۔۔۔ فی الحال تم اس زمین پر اپنے لئے ٹھکانہ تعمیر کرلو اور شادی کرکے گھر بسائو تیرے حصے کی پراپر ٹی کہیں نہیں جائے گی‘‘ ۔
محلے کے ایک بزرگ نے غفور کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا ۔ کئی برسوں بعد غفور نے بھی اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے جوں توں کرکے دو کمروں پر مشتمل جھو نپڑی تعمیر کی اور اس میں رہنے لگا ۔ان ہی دنوں اس کا باپ بھی اس دنیا سے چل بسا ۔کئی سالوں بعد اس نے ایک غر یب طلاق شدہ خاتوں سے شادی کرلی اور سوتیلے بھائیوں سے باپ کی جائیداد میں سے اپنے حصے کا تقاضا کرنے لگا لیکن اس دوران جب اس پر یہ راز کھلا کہ اس کے باپ نے اپنی ساری جائیداد اپنی دوسری بیوی کے نام کردی ہے تو وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح خاموش بیٹھ گیا۔لیکن تب بھی دکھوں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا ،شادی کے دو سال بعد ہی اس کی بیوی اس کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلی گئی ۔اُس دن بھی غفور نے بہت ہاتھ پیر مارے، سوتیلے بھائیوں سے لے کر محلے کے سارے آسودہ حال گھرانوں سے مدد کی بھیک مانگی ،لیکن کسی نے بھی اس کی مدد نہیں کی یہاں تک کہ اس کی دردزہ میں مبتلا جوان بیوی اسپتال نہ پہنچ پانے کی وجہ سے گھر میں ہی، پیٹ میں پل رہے بچے سمیت ،تڑپ تڑپ کر موت کا نوالا بن گئی اور وہ یکہ و تنہا ہوکر کسمپرسی کی حالت میں زندگی کے دن کا ٹنے پر مجبور ہو گیا ۔ انتہائی بے کسی کی حالت میںجوان بیوی اور ہونے والے بچے کی موت کی وجہ سے غم میں ڈوبا غفور کئی مہینوں سے بیمار رہنے کے سبب کام کاج سے معذور ہو کر پائی پائی کا محتاج ہو کر رہ گیا تھا۔ اب اکثر اس کا چولہا بھی ٹھنڈاہی رہتا تھا ۔بار بار کے فاقوں اور علاج نہ ملنے کی وجہ سے وہ سخت کمزور ہو کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ کر بستر پر دراز ہو کر رہ گیا تھا ۔آج وہ کئی دنوں بعد بڑی مشکل سے گھر سے نکل کر شاکر کے پاس گیا تھا ۔
رات بھر شاکر غفور کے بارے میں ہی سوچتے ہوئے سخت اذیت میں مبتلا رہا اور صبح جلدی تیار ہو کر دکان کے لئے چل نکلا لیکن شو مئی قسمت کہ اچانک حالات بگڑنے،کرفیو اور بندشوں کے سبب وہ سخت کوشش کے باوجود دکان پر نہیں جا سکا ۔تیسرے دن جب وہ دکان پر آیا تو اس کو یقین تھا کی غفور دوا ئی کی ٹکیا مانگنے ضرور آئے گا لیکن وہ نہیں آیا یہاں تک کہ دو پہر بھی ڈھل گئی اور شاکر ،جس کے دل پر ایک بھاری بوجھ سا تھا ،جھنجھلا کر دوائیاں لے کر اس کے جھونپڑی کی طرف گیا ۔ جھو نپڑی کے پاس ہی واقع اس کے سوتیلے بھائیوں کے بنگلے میں بڑے ہی دھوم دھام سے کوئی تقریب چل رہی تھی اور صحن میں لگے شامیانے میں مہمان دعوت سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ شاکر نے رک کر غفور کے بابت اس کے بھائی سے دریافت کیا ۔   
’’پتا نہیں کہاں گیاہے ؟‘‘  
 اس نے نا گواری کے انداز میں جواب دیا۔شاکرنے آگے بڑھ کر جھو نپڑی کا دروازہ کھٹکھٹا یاتو اندر سے کوئی جواب نہیں آیا ۔ پریشانی کی حالت میںاس نے غفور کے بھائی کو بلایا، اس دوران محلے کے کچھ لوگ بھی آ گئے اور وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئے جہاں غفور بے حس و حرکت اوندھے مُنہ پڑا ہوتھا ۔۔۔۔۔۔ شاکر نے اسکی نبض پر ہاتھ رکھا تو لمبی سرد آہ بھر کے قلائی چھوڑ دی۔
کچھ دیر میں ہی جھونپڑی کے صحن میں بہت لوگ جمع ہو کر مختلف چہ میگوئیاں کرنے لگے لیکن غفور کی موت پر ،اس کے مردہ جسم پر بھنبھنارہی بے شمارمکھیوں کے سوا، ماتم کرنے والا کوئی نہیں تھا۔    
’’  تم بازار جا کر غفور کے لئے اچھا ساکفن خرید لائو  اور کچھ مزدور لے کر اس کے لئے قبر تیار کرائو ۔آخر یہ ہمارا پڑوسی ہے اور ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بہتر ین طریقے سے اس کی آخری رسومات ا نجام دیں ‘‘۔
محلہ کمیٹی کے صدر نے کچھ لڑکوں کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان کیا۔
’’نہیں حاجی صاحب ۔۔۔۔۔۔ غفور کوئی لا وارث نہیں بلکہ ہمارا بھائی ہے۔ اس کے کفن دفن کے سارے انتظامات ہم خود کرینگے ۔
اس کے سوتیلے بھائی نے جھو نپڑی پر ایک شاطرانہ نظر دوڑاتے ہوئے اونچے لہجے میں کہا‘‘ ۔
 
٭٭٭
رابطہ؛ اجس بانڈی پورہ کشمیر،فون نمبر9906526432
ای میل؛ [email protected]  
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ناشری ٹنل اور رام بن کے درمیان بارشیں ، دیگر علاقوں میں موسم ابرآلود | قومی شاہراہ پر ٹریفک میں خلل کرول میں مٹی کے تودے گرنے سے گاڑیوں کی آمدورفت کچھ وقت کیلئے متاثر
خطہ چناب
! موسمیاتی تبدیلیوں سے معاشیات کا نقصان
کالم
دیہی جموں و کشمیر میں راستے کا حق | آسانی کے قوانین کی زوال پذیر صورت حال معلومات
کالم
گندم کی کاشتکاری۔ہماری اہم ترین ضرورت
کالم

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?