امان وؔافق
وادی گریز میں حال ہی میں دو روزہ ٹریبل فسٹیول بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔ اس فیسٹول کا اہتمام قبائلی امور کے محکمے ،ضلعی انتظامیہ اور مقامی رضاکار تنظیموں کے باہمی اشتراک سے کیا گیا تھا، جس کا مقصد وادی گریز کی ثقافتی شناخت کو اُجاگر کرنا، مقامی روایات، موسیقی، زبان اور طرز زندگی کی عکاسی کرنا تھا۔
ٹریبل فسٹیولز دنیا بھر میں قبائلی برادریوں کے ثقافتی ورثے کے تحفظ اور فروغ کے لیے منعقد کئے جاتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ مقامی تہذیب، فنون، زبان اور اجتماعی یادداشتوں کو زندہ رکھا جائے تاکہ نئی نسلیں اور بیرونی ناظرین ان سے روشناس ہو سکیں۔لیکن بدقسمتی سے، وادی گریز میں منعقد ہونے والا حالیہ فیسٹول اپنے انہی دعوؤں اور مقاصد کے برعکس ایک نمائشی تقریب میں تبدیل ہو کر رہ گیا۔ جہاں توقع تھی کہ یہ مقامی ثقافت کا جشن ہوگا، وہاں حقیقت میں یہ ایک’’ٹیبل فیسٹول‘‘ کی صورت اختیار کر گیا،یعنی ایک ایسی تقریب جس میں سب کچھ سجاوٹ، تفریح اور ظاہری چمک دمک تک محدود تھا۔
تقریب میں اگرچہ چند مقامی فنکاروں کو سٹیج دیا گیا، لیکن مجموعی طور پر توجہ زیادہ تر باہر سے آئے فنکاروں اور پرفارمرز پر مرکوز رہی۔ گریز کی منفرد شینا زبان، لوک موسیقی اور دستکاری جیسے عناصر پس منظر میں چلے گئے۔ مقامی کاریگروں کو یا تو نظر انداز کیا گیا یا معمولی نمائشوں تک محدود رکھا گیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے یہ میلہ وادی گریز کے قبائل کے بجائے باہر کی چمکتی دنیا کی تفریح کے لیے سجایا گیا ہو۔
مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ اس فیسٹول میں ان مقامی شخصیات کو نہ تو یاد کیا گیا اور نہ ہی خراجِ تحسین پیش کیا گیا، جنہوں نے گریز کی ثقافتی و لسانی شناخت کو زندہ رکھنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں۔ مرحوم محمد رمضان خان، مسعود ساموں (جنہوں نے شینا زبان کے رسم الخط پر کام کیا)، عبدالجبار چکٹ، مرحوم عزیز ساموں، فرید عاجز، یوسف نسیم اور غلام رسول مشتاق جیسے افراد وہ ستون جنہوں نے مقامی تہذیب و زبان کو بکھرنے سے بچانے کی سعی کی۔ ان کا تذکرہ فیسٹول کا لازم جزو ہونا چاہیے تھا۔آج وادی گریز جہاں اپنی قدرتی خوبصورتی کی بدولت دنیا بھر میں پہچانی جاتا ہے، وہیں ایک خاموش ثقافتی بحران کا بھی شکار ہے۔ شینا زبان، جو کبھی یہاں کی شناخت تھی، نئی نسل کے لیے اجنبی بنتی جا رہی ہے۔ جب زبان مرنے لگتی ہے تو تہذیب بھی دم توڑنے لگتی ہے اور یہی المیہ اس فیسٹول کے پس منظر میں جھلکتا ہے۔ٹریبل فسٹیول اگر صرف موسیقی، ڈانس اور تصویروں تک محدود رہے تو یہ صرف نمائشی میلہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اصل مقصد تو مقامی شناخت، زبان، روایات اور تاریخ کا شعور بیدار کرنا ہونا چاہیے۔ ایسے پروگراموں میں صرف تفریح نہیں، بلکہ فکری اور تہذیبی بیداری کا عنصر بھی شامل ہونا چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کو اپنی جڑوں سے جوڑا جا سکے۔
لہٰذا، اگر واقعی ٹریبل فیسٹول منانا ہے تو ہمیں صرف چمکتی روشنیوں، بڑے اسٹیج اور غیر مقامی تفریح پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں مقامی زبان، ثقافت، روایات اور اُن شخصیات کی قربانیوں کو مرکز میں رکھنا ہوگا جنہوں نے وادی گریز کی پہچان کو تاریخ کے صفحات میں محفوظ رکھا۔ ورنہ یہ’’ٹریبل فیسٹول‘‘ نہیں بلکہ صرف ایک ’’ٹیبل فیسٹول‘‘ ہی کہلائے گا ۔ دکھاوے کا، خالی آوازوں کا اور بغیر روح کے ایک جشن۔
رابطہ۔6006622656 <[email protected]>