سرینگر // وادی میں بجلی کی پیداوار اور طلب کا فرق 6سو میگاواٹ تک پہنچ گیا ہے ۔اس وقت بجلی کی طلب 18سو میگاواٹ سے زیادہ ہے جبکہ صرف 1200میگا واٹ بجلی دستیاب ہورہی ہے، جس میں سے 700میگا واٹ خریدنا پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میٹر والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ 8 گھنٹے جبکہ دیہاتوں میں12سے 14گھنٹے بجلی گل رہتی ہے۔ خشک موسم کے چلتے وادی میں پانی کی سطح کم ہونے کے سبب بجلی کی پیداوار میں کمی آئی ہے جبکہ وادی میں قائم کئی ایک بجلی پروجیکٹ پانی نہ ہونے کے سبب ایک میگاواٹ بجلی بھی فراہم نہیں کر رہے ہیں۔محکمہ بجلی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایاکہ وادی کو اس وقت 18سو میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے اور محکمہ اشد ضرورت کے موقعہ پر صرف 11سو سے12سو میگاواٹ ہی بجلی فراہم کر پاتا ہے ۔ذرائع نے بتایا کہ اس وقت صرف تین سے چار گھنٹوں کیلئے اشد ضرورت کے موقعہ پر صارفین کو 245لاکھ یونٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے جبکہ 7سو میگاواٹ شمالی گریڈ سے خریدی جاتی ہے۔وادی میں قائم6 بجلی پروجیکٹ اس وقت صرف 76میگا واٹ بجلی پیدا کررہے ہیں ۔جبکہ گاندربل کا پروجیکٹ بند پڑا ہے۔پانی کم ہوجانے کی وجہ سے لور جہلم بجلی پروجیکٹ جہاں گرمیوں میں 105میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے وہیں آج مشکل سے 35میگاواٹ بجلی فراہم کر پاتا ہے ۔ یہ 35میگاواٹ بجلی بھی تب پیدا ہوتی ہے جب دن میں پانی بند کر کے رکھا جائے ۔ذرائع نے بتایا کہ لور جہلم پروجیکٹ پر ضروری مرمت کا کام چل رہا ہے اس لئے فی الحال اس کو کچھ دنوں کیلئے بند کیا گیا ہے ۔ اپر سندھ فسٹ، جس کی صلاحیت 22.6میگاواٹ ہے ، اس وقت 5میگاواٹ بجلی فراہم کر رہا ہے ۔ا پر سندھ 2-کنگن 105میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔لیکن آجکل اشد ضرورت کے وقت یعنی 6سے 10بجے رات تک یہ صرف 35میگاواٹ بجلی ایک ٹربائن کے ذریعے ہی فراہم کر پاتا ہے ۔اسی طرح پہلگام کا 3 میگاواٹ اور کرناہ کا 2میگاواٹ کے بجلی پروجیکٹ آدھا آدھا میگاواٹ ہی فراہم کر رہے ہیں اور کبھی یہ بیکار بھی ہو جاتے ہیں ۔چیف انجینئرسسٹم اینڈ آپریشنز خورشید احمد بڈو نے بجلی پروجیکٹوں سے پیداوار میں کمی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وادی کے پروجیکٹوں سے کم مقدار میں بجلی پیدا ہو رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم وادی کو 245لاکھ یونٹ یعنی 12سو میگاواٹ بجلی فراہم کر رہے ہیں جبکہ وادی کی ضرورت 18سو میگاواٹ ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وادی کیلئے اس وقت شمالی گرڈ سے 7سو میگاواٹ بجلی خریدی جا رہی ہے ۔چیف انجینئر پی ڈی سی جنریشن فیاض احمد اندرابی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وادی کے پروجیکٹوں سے ہر دن شام کے وقت صرف 70سے 80میگاواٹ بجلی فراہم ہو رہی ہے جبکہ ان ہی پروجیکٹوں سے گرمیوں میں اڑھائی سو میگاواٹ بجلی فراہم کی جاتی تھی ۔یہ امر قبل ذکر ہے کہ بغلیار پروجیکٹ ہماری ریاست کی ملکیت ہیں لیکن بغلیار سکینڈ مکمل طور پر بند پڑا ہے تاہم بغلیار فسٹ ، جس کی پیداواری صلاحیت 450میگاواٹ ہے، اس وقت صرف 200میگا واٹ ہی پیدا کررہا ہے۔ لداخ میں 9چھوٹے بجلی پروجیکٹ چل رہے ہیں جہاں پانی کی سطح میں کمی کے سبب یہ پروجیکٹ کم مقدار میں بجلی فراہم کر رہے ہیں ۔دریائے چناب پر چلنے والا 22.30میگاواٹ کی صلاحیت رکھنے والا چنینی صرف 10میگاواٹ بجلی پیدا کررہاہے ۔چنینی دوم، 2میگاواٹ بجلی پروجیکٹ صرف ایک میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے ۔ واضح رہے کہ وادی میں 480 میگا واٹ صلاحیت والا اوڑی فسٹ پروجیکٹ بھی ہے، جو ، این ایچ پی سی کے زیر قبضہ ہے ،اس وقت صرف 150 میگاواٹ بجلی پیدا کررہا ہے ۔پانی کی قلت کے سبب اوڑی سکینڈ، جس کی پیدا واری صلاحیت 240میگاواٹ ہے، صرف 30سے 35میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے ۔، لیکن یہ دونوں پروجیکٹ این ایچ پی چی کے ہیں لہٰذا پوری ریاست کیلئے ان پروجیکٹوں سے صرف رائلٹی کی 12فیصد بجلی مہیا کی جاتی ہے۔اسکے علاوہ سلام پروجیکٹ ریاسی ہے جس کی پیداواری صلاحیت 690میگا واٹ ہے، یہ اس وقت 200میگا واٹ دے رہا ہے، لیکن یہ پروجیکٹ بھی این ایچ پی سی کا ہے۔