بلال فرقانی
سرینگر// وادی کشمیر میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران غیر ملکی سیاحوں کی دلچسپی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ سال 2019 سے 2024 کے اختتام تک 1.5 لاکھ سے زائدغیرملکی سیاحوں نے وادی کا رخ کیا۔ امن و خوبصورتی کی تلاش میں آئے ان غیر ملکی مہمانوں کی آمد نے نہ صرف کشمیر کی بین الاقوامی سیاحتی ساکھ کو بحال کیا بلکہ مقامی معیشت کو بھی نئی توانائی فراہم کی۔ پہلگام حملے کے بعد کشمیر میں سیاحتی شعبے کو شدید دھچکہ لگا ہے، جس کا اثر خاص طور پر غیر ملکی سیاحوں کی بکنگ پر صاف دکھائی دے رہا ہے۔ معروف ٹریول کنسلٹنٹوں کے مطابق کشمیر کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر غیر ملکی سیاحوں کی جانب سے محتاط رویہ اختیار کیا جا رہا ہے اور متعدد ممکنہ مسافروں نے اپنی بکنگ اس وقت تک مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب تک حالات مکمل طور پر مستحکم نہ ہو جائیں۔اربن ٹور اینڈ ٹراولز ایسو سی ایشن کے صدر جان محمد نے بتایا کہ مغربی ممالک جیسے برطانیہ، جرمنی اور فرانس سے آنے والے مسافر غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔انوں نے کہا’’ان ملکوں کے سیاح عام طور پر سکیورٹی کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں اور موجودہ حالات میں انہوں نے کشمیر کے سفر پر نظرثانی شروع کر دی ہے‘‘۔انہوںنے مزید کہا کہ آسٹریلیا اور کینیڈا سے تعلق رکھنے والے سیاح بھی ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی اپنا رہے ہیں اور وہ فی الحال صرف حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ اگرچہ گزشتہ برسوں میں غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا تھا تاہم حالیہ ناخوشگوار واقع کے بعد اس پیش رفت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، جس سے کشمیر کی بین الاقوامی سیاحتی ساکھ کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔آزاد احمد نامی ایک ہوٹل مالک نے بتایا کہ امریکہ نے پہلے ہی اپنے شہریوں کو وادی کا رخ نہ کرنے کی صلاح دی ہے،جس کے نتیجے میں دیگر یورپی ملکوں کے سیاح بھی وادی آنے سے کترا رہے ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سال 2019 سے 2024 (31 دسمبر تک) کے درمیان وادی میں کل 9805469سیاحوں نے وادی کا رخ کیا جن میں قریب151004غیر ملکی اور9654465ملکی سیاح بھی شامل تھے۔ اسی عرصے کے دوران محکمہ سیاحت نے اپنے مختلف اثاثہ جات سے نیلامی اور آؤٹ سورسنگ کے ذریعے کل 6.10کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی۔ اس حملے کے نتیجے میں نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ سیاحوں کی بڑی تعداد نے وادی کا دورہ منسوخ کر دیا جس سے سیاحتی کاروبار پر گہرا اثر پڑا ہے۔محکمہ سیاحت کی جانب سے آر ٹی آئی کے تحت فراہم کی گئی تفصیلات کے مطابق وادی میں سیاحوں کی آمد اور حاصل ہونے والی آمدنی نے گزشتہ چند برسوں میں نمایاں اضافہ دکھایا ہے۔ خاص طور پر کورونا وبا کے بعد اس شعبے میں غیر معمولی بہتری دیکھنے کو ملی لیکن پہلگام واقعہ نے اس پیش رفت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2019 میں 5,65,532 سیاحوں نے کشمیر کا سفر کیا جن میں 5,31,753 ملکی اور 33,779 غیر ملکی سیاح شامل تھے۔ 2020 میں کورونا وبا کے باعث سیاحوں کی تعداد گھٹ کر صرف 41,267 رہ گئی تاہم 2021 میں یہ تعداد بڑھ کر 6,65,814 ہو گئی۔ 2022 میں وادی نے ریکارڈ 23.10 لاکھ سیاحوں کا خیرمقدم کیا جبکہ 2023 میں یہ تعداد مزید بڑھ کر 27.10 لاکھ تک پہنچ گئی۔ سال-25 2024 میں، سیاحوں کی تعدادریکارڈ توڈ 35.11 لاکھ سے زائد درج کی گئی جو وادی کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ سیاحت سے جڑے ہوئے لوگوں کا کہنا ہے کہ بیشتر غیر ملکی سیاح مہم جوئی کیلئے کشمیر کا رخ کرتے ہیں تاہم فی الوقت ان علاقوں میں جانے کو پابندی ہے ،جس کی وجہ سے غیر ملکی سیاحوں کی آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔پہلگام آڑو کے ایک ہوٹل مالک نے کہا کہ یہاں چند مخصوص ممالک سے سیاح آتے ہیں،جو یہاں سے مہم جوئی کیلئے جاتے ہیں تاہم ابھی مہم جوئی کے علاقے بند ہیں،جس کی وجہ سے ان کے ہوٹل خالی ہیں۔محکمہ سیاحت کی جانب سے فراہم کردہ مالی تفصیلات کے مطابق وادی میں موجود لگ بھگ 60 سیاحتی اثاثہ جات کو مختلف اوقات میں’’جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر‘‘ نیلامی کے ذریعے نجی اداروں کے سپرد کیا گیا ہے تاکہ ان کا انتظام بہتر انداز میں ہو سکے۔ ان اثاثہ جات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں بھی سال بہ سال اضافہ درج ہوا ۔ سال 2019-20میں محکمہ نے 70.57 لاکھ روپے کی آمدنی حاصل کی، جبکہ 2021-22میں یہ گھٹ کر 41.24 لاکھ روپے رہ گئی۔ تاہم اس کے بعد لگاتار بہتری دیکھنے کو ملی اور 2021-22میں آمدنی 54.39 لاکھ تک پہنچ گئی جبکہ 2022-23 میںیہ آمدنی 162.29 لاکھ درج کی گئی۔اعدادو شمار کے مطابق سال2023-24، میں آمدنی 192.96 لاکھ اور 2024-25مالی سال کے ابتدائی نو مہینوں (31جنوری2024 تک) میں 88.60 لاکھ روپے کی آمدنی ریکارڈ کی گئی لیکن پہلگام حملے کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی ۔ وادی کے مختلف ہوٹلوں، ہاؤس بوٹوں اور ٹریول ایجنسیوں کو بکنگ کی بڑی تعداد میں منسوخیاں موصول ہو ئی ہیں۔ سیاحت سے جڑے افراد کے مطابق جون کے مہینے تک 95 فیصد سے زائد پیشگی بکنگ منسوخ ہو چکی ہیں جو اس شعبے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔