پرویز احمد
سرینگر //عمر رسیدہ والدین اور بے سہارابزرگوں کے ساتھ ذہنی اذیت،مالی استحصال اور جذبانی اذیتوں کے واقعات میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ کشمیر صوبے میں 26000عمر رسیدہ افراد پر کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وادی میں 75فیصد عمر رسیدہ افراد گھروں میں ذہنی اذیت کے ساتھ ساتھ مالی استحصال اورجسمانی اذیت کے بھی شکار ہورہے ہیں۔تحقیق کے مطابق وادی میں گھروں میں اپنے شادی شدہ لڑکوں، بیٹیوں اور بہوئوں کے ہاتھوں 10فیصد مالی استحصال جبکہ 3فیصد جسمانی اذیت کے شکار ہورہے ہیں۔ بڑھاپے اوربڑھاپے میں ہونے والی بیماریوں پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر زبیر سلیم نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی بیماریاں لوگوں کو جکڑ لیتی ہیں اور عمر کے ساتھ ساتھ بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے۔انہوںنے کہا کہ ایک عمر رسیدہ شخص ایک ساتھ کئی بیماریوں سے جوجھ رہا ہوتا ہے اور ایسی صورتحال میں علاج و معالجہ کرانے کیلئے اس کو ہسپتال آنا پڑتا ہے اور ایک مہینے میں کئی بار آنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر زبیر کا کہنا تھا کہ کئی بیماریوں کے ساتھ لڑنے کی وجہ سے ان بزرگوں کی اندر کی طاقت جواب دے چکی ہوتی ہے اور ان کو تیماردار کی ضرورت پڑتی ہے۔ ڈاکٹر زبیر نے بتایا کہ ہم نے ہسپتالوں میں علاج کرنے والے 26000عمر رسیدہ افراد کے ساتھ آنے والے تیمارداروں کے رویہ، مریضوں کے ساتھ بات کرنے کا سلیقہ، اور دیگر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ تحقیق کے چند چونکا دینے والے انکشافات کا خلاصہ کرتے ہوئے ڈاکٹر زبیر سلیم نے بتایا ’’ ان میں 50سے 55فیصد عمر رسیدہ افراد بغیر کسی تیماردار کے علاج و معالجہ کیلئے آتے ہیں جبکہ 45فیصد کے ساتھ تیماردار رہتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ جن 45فیصد عمر رسیدہ افراد کے ساتھ تیمار دار ہوتے ہیں ، ان میں 55فیصد مریضوں کے ساتھ غیر شادی شدہ بیٹا، 35فیصد کے ساتھ بیٹیاں جبکہ صرف 5سے 8فیصد عمر رسیدہ افراد کے ساتھ بہویں ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیماری کی وجوہات جاننے کیلئے تشخیص اور مریض کے ساتھ بات چیت کے دوران سب سے بڑی وجہ گھر والوں کی طرف سے نظر انداز کرنا اور ذہنی طور پر اذیت دینا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذہنی طور اذیت دینے سے کئی بیماریاں جیسے بلڈ پریشر اور شوگر کی بیماریاں اور پیچیدہ ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 75فیصد عمر رسیدہ افراد اپنے اہل خانہ بیٹوں، بیٹیوں اور دیگر رشتہ داروں کے طعنوں ، باتوں اور دیگر حرکات کی وجہ سے ذہنی اذیت کاشکار ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تحقیق میں پایا کہ بزرگ افراد اہل خانہ کی جانب سے بغیر اجازت بینکوں سے رقومات نکالنا، نقلی دستاویزات بناکر جائیداد اپنے نام کرنا اور دیگر مالی استحصال کا شکارہیں اور ایسے عمر رسیدہ افراد کی شرح وادی میں 10فیصد ہے جو مالی استحصال کے شکار ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک کیس میں باپ بیٹی کسی رشتہ دار کی شادی میں گئے تھے تو بیٹے نے نقلی دستاویزات بناکر بینک سے 7لاکھ روپے نکال لئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب شکایت صحیح ثابت ہوئی تو ہم نے عمر رسیدہ مریض کو قانونی امداد دینے کی بھی پیشکش کی لیکن وہ بزرگ مریض اپنے بیٹے کو کورٹ کچیری میں نہیں کھینچنا چاہتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تیسرے درجے پر جسمانی اذیت ہوتی ہے، ہماری تحقیق کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ گھر میں اہل خانہ کے ساتھ تکرار کے دوران کسی گھر کے فرد نے بزرگ پر ہاتھ بھی اٹھایا ہے اور ایسے لوگوں کی شرح 3فیصد ہے جو اپنے عمر رسیدہ اہل خانہ یا والدین کے ساتھ مارپیٹ کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عمر رسیدہ افراد کے ساتھ گھروں میں بدسلوکی کرنے والوں میں پہلے نمبر پر شادی شدہ بیٹے، دوسرے نمبر پر بہو، تیسرے نمبر پر بیوی، چوتھے نمبر پر بیٹیاں جبکہ 5ویں نمبر پر وہ لوگ ہیں جن میں گھروں کے نوکر ، ڈرائیور وغیرہ وغیر ہ آتے ہیں۔