جینوا//اقوام متحدہ نے مواصلاتی بریک ڈائون کوکشمیریوں کیلئے اجتماعی سزاقراردیتے ہوئے کہاہے کہ ایسی پابندیاں عالمی قوانین اوربنیادی انسانی حقوق کی سریحاًخلاف ورزی ہے۔عالمی ادارے کے شعبہ حقوق البشرنے کشمیرمیں اظہاررائے پرعائدپابندی کوناقابل قبول قراردیتے ہوئے بھارت سرکار پرزور دیا ہے کہ وہ جموں وکشمیرمیں اظہاررائے کی آزادی کویقینی بنانے کیساتھ کشمیرکے سیاسی مسئلے کوحل کرنے کیلئے کھلے ،شفاف اورجمہوری مکالمے کی راہ اختیارکرے۔ اقوام متحدہ کے شعبہ حقوق انسانی کے دفتر واقع جنیوا سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا کہ اقوام متحدہ حقوق انسانی کمشنر کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ جموںوکشمیر بالخصوص وادی میں اظہار رائے پر پابندی عائد کرنے کیلئے وہاں گزشتہ کئی ہفتوں سے موبائل انٹرنیٹ سروس اور سماجی ویب سائٹوں پر قدغن بٹھا دیا گیا ہے ۔ انہوں نے اس اقدام کو اظہار رائے کی آزادی کے منافی قرار دیتے ہوئے بتایا کہ چاہے کچھ بھی ہو عام شہریوں کے اظہار رائے پر پابندی عائد کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ اقوام متحدہ شعبہ حقوق انسانی کے مندوب ڈیوڈ کائی نے بتایا کہ کشمیر میں موبائل انٹرنیٹ اور سماجی ویب سائٹوں پر عائد پابندی کشمیریوں کیلئے ایک اجتماعی سزا بن چکی ہے کیونکہ وہ اظہار رائے کی آزادی سے محروم ہوئے ہیں ۔ا قوام متحدہ شعبہ حقوق انسانی کے ماہرین کا ماننا ہے کہ بھارت سرکار کی ہدایت پر جموںوکشمیر کی حکومت نے کشمیر وادی میں مواصلاتی بریک ڈائون کرکے مقامی آبادی کو اجتماعی سزا سے دوچار کر دیا ہے کیونکہ اس پابندی کے نتیجے میں لوگ اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرنے سے محروم ہوئے ہیں ۔ انہوں نے بتایا ہے کہ کسی بھی علاقہ میں چاہے کوئی بھی صورتحال پیدا کیوں نہ ہو ، شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر وادی میں بنیادی حقوق پامال ہورہے ہیں کیونکہ مواصلاتی سروسز پر غیر ضروری طور پابندی عائد کی گئی ہے ۔ ماہرین نے ریاستی حکومت کی جانب سے کشمیر وادی میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے اور ممکنہ تشدد کی روک تھام کی غرض سے موبائل انٹرنیٹ سروس اور سماجی ویب سائٹوں پر عائد پابندی کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ اس بات میں کوئی منطق نہیں کہ لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا جائے ۔ ڈیوڈ کائی نے مزید کہا ہے کہ موجودہ دنیا میں انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی سروسز ایک عام آدمی کیلئے ضروری ہے اور اگر کسی بھی شخص کو ایسی سہولیات سے محروم رکھا جائے تو یہ حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی قوانین دنیا بھر کے لوگوں کو حاصل بنیادی شہری حقوق کی ضمانت فراہم کرتے ہیں اور کشمیر میں مواصلاتی بریک ڈائون ایسے تمام حقوق کی سریحاً خلاف ورزی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ جموںوکشمیر بالخصوص وادی میں لوگوں کو اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہئے اور وہاں موبائل انٹرنیٹ سروس کے علاوہ مختلف سماجی ویب سائٹوں پر عائد پابندی کو فوری طور ہٹایا جانا چاہئے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ انٹرنیٹ ، ٹیلی کام ، ہڑتال ، پابندیاں اور دیگر اس قسم کے اقدامات کسی بھی صورت میں قابل قبول قرار نہیں دئیے جاسکتے ہیں بلکہ ایسے تمام اقدامات سے کشمیر کے لوگوں کو اجتماعی سزا سے دوچار کیا جارہا ہے ۔ اقوام متحدہ شعبہ حقوق انسانی کے ماہرین نے کہا کہ لوگوں کے اظہار رائے پر پابندی کا مقصد انہیں بنیادی شہری حقوق سے محروم رکھنا ہوتا ہے ، جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ۔ اقوام متحدہ کے شعبہ حقوق انسانی سے وابستہ ماہرین ڈیوڈ کائی اور مائیکل فارسٹ نے کہا ہے کہ کشمیر وادی میں سال 2012 سے اب تک 31 مرتبہ انٹرنیٹ ، موبائل انٹرنیٹ اور سماجی ویب سائٹوں پر پابندی عائد کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے لوگوں کو پر امن احتجاج سے دور رکھنا جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہی پھر کہا کہ قیام امن یا ممکنہ پر تشدد مظاہروں کو روکنے کیلئے مواصلاتی سہولیات پر پابندی عائد کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ اقوام متحدہ کے شعبہ حقوق انسانی کے ماہرین نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم ہندوستانی حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ جموںوکشمیر بالخصوص وادی میں اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ اور ضمانت کو یقینی بنائیں ۔ بیان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ کشمیر سے جڑے سماجی اور سیاسی معاملات کا حل تلاش کرنے کیلئے کھلے ، شفاف اور جمہوری مکالمے کی ضرورت ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری بھارت سرکار پر عائد ہوتی ہے ۔