بلال فرقانی
سرینگر// زرعی یونیورسٹی کشمیرنے ایک جامع اور سائنسی بنیادوں پر مبنی ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے کسانوں، باغبانوں، مویشی پالنے والوں اور دیگر متعلقہ افراد کو بروقت اور مؤثر اقدامات کرنے کی سخت تلقین کی ہے تاکہ موجودہ موسمی بحران کے دوران نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے اور زرعی نظام کو پائیدار بنایا جا سکے۔ڈائریکٹر ایکسٹنشن کی طرف سے جاری ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ تمام زرعی سرگرمیاں دن کے ٹھنڈے اوقات،یعنی صبح سویرے یا شام کے وقت انجام دی جائیں تاکہ گرمی کی شدت سے بچا جا سکے۔ ڈائریکٹر ایکسٹینشن سکاسٹ کشمیرنے زور دیا کہ کسان اور متعلقہ ادارے ان ہدایات پر مکمل سنجیدگی سے عمل کریں تاکہ معاشی نقصان سے بچا جا سکے اور موجودہ موسمی بحران کے دوران زرعی نظام کو پائیدار بنایا جا سکے۔خشک سالی کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وادی کے بیشتر ندی نالوں، اور جھیلوں میں پانی کی سطح تشویشناک حد تک گر چکی ہے۔ اتوار کو دریائے جہلم میںسنگم میں 0.27 فٹ، پانپور میں 1.82 فٹ، رام منشی باغ میں 1.81 فٹ، اور عشم میں 2.19 فٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ وْلر جھیل کی سطح 1574.780 میٹر تک آ گئی ہے، جو ماحولیاتی ماہرین کے مطابق تشویشناک حد ہے۔ اسی طرح مختلف نالوں جیسے ویشو 1588.801، رمبی آرہ 1588.570،نالہ لدر (1954.996، نالہ سندھ 1581.687،نالہ پہرو 1572.847، نالہ رومشی 1867.559، نالہ شیش ناگ 2391.552،نالہ دودھ گنگا1989.313، نالہ داچھی گام (1596.948)،نالہ مدو متی 1643.509 وغیرہ میں بھی پانی کی سطح معمول سے بہت نیچے گر چکی ہے۔
فصل و سبزیاں
فصلوں کے لحاظ سے زرعی یونیورسٹی کشمیرنے کسانوں کو مشورہ دیا ہے کہ دھان کی فصل کے لیے صبح یا شام کے وقت آبپاشی کی جائے اور ’’بلاسٹ‘‘جیسی بیماریوں پر نظر رکھی جائے۔ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ وہ علاقے جہاں بارش نہیں ہوئی ہے، وہاں بطور متبادل فصل مونگ کی کاشت کی جائے جبکہ مکئی اور دالوں کے کھیتوں میں حفاظتی آبپاشی کی جائے اور نمی کو برقرار رکھنے کیلئے نامیاتی تہہ کو بچھانے کا عمل ’ملچنگ‘ اپنائی جائے۔ سبزیوں کی کاشت کے دوران زمین کی نمی کو محفوظ رکھنے کیلئے صرف ٹھنڈے اوقات میں آبپاشی کی جائے اور اگر زمین زیادہ خشک ہو تو پنیری کی منتقلی سے پرہیز کیا جائے۔مزید کہا گیا ہے کہ مٹی کی تہہ(بیڈنگ) پر نامیاتی تہہ کو بچھانے کا عمل کیا جائے اور ہاتھوں سے گھاس پھوس کا نکالا جائے تاکہ نمی برقرار رہے۔
باغبانی و پھولبانی
ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ سیب کے باغات میں باقاعدگی سے پانی دینا ضروری قرار دیا گیا ہے، اور دھوپ سے بچائو کیلئے درختوں کے تنے سفید کیے جائیں۔ باغبانوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ملیریا اور
سکیب جیسی بیماریوں پر نگاہ رکھیں کیونکہ درجہ حرارت کی زیادتی کی صورت میں ان کا پھیلائو ممکن ہے۔ پھولوں کی کاشت سے وابستہ افراد کو ملچنگ کے ذریعے نمی برقرار رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے، جبکہ جنگلات اور زرعی فارمز میں کھاد دینے اور کانٹ چھانٹ کے عمل کو مؤخر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ڈائریکٹر موصوف کے مطابق آگ سے بچاؤ کیلئے جنگلاتی علاقوں میںفائر بریکس بنائے جائیں اور خشک ایندھن کو ہٹا دیا جائے۔
زندہ مال
مویشی پالنے والوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ مویشیوں کو صاف، ٹھنڈا پانی بغیر کسی رکاوٹ کے دستیاب ہو اور شیڈوں کو سایہ دار اور صاف رکھا جائے۔ چراگاہوں میں صرف صبح یا شام کے اوقات میں چرانے کی اجازت دی جائے اور تیز گرمی میں ہرا چارہ دینے سے اجتناب کیا جائے کیونکہ اس سے پھولاو کا خطرہ ہوتا ہے۔ مویشیوں کی باقاعدگی سے ’ڈی ورمنگ‘ بھی ضروری قرار دی گئی ہے۔مرغ پالنے والوں کیلئے مناسب ہوا داری، سایہ، اور پانی میں گلوکوز یا وہ مقدار میںکرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ بھیڑ بکریوں کیلئے جگہ کی کمی نہ ہونے دی جائے تاکہ بھیڑ بھاڑ سے گرمی میں اموات کا خطرہ نہ ہو۔ شہد کی مکھیوں کے پالنے والوں کو چھتوں کے ارد گرد گیلے بوری کے ٹکڑیاستعمال کرنے اور صاف پانی رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ چھتے گرم نہ ہوں۔ریشمی کیڑے پالنے والوں کو تاکید کی گئی ہے کہ صفائی، ہوا داری، اور ماحول کا خاص خیال رکھا جائے، گیلی پتے کھلانے سے پرہیز کریں اور اگلے مرحلے سے پہلے کمرے کو جراثیم سے پاک کریں تاکہ کاکون میں بگاڑ یا کیڑوں پر دباؤ نہ پڑے۔ ماہی پروری کرنے والوں کیلئے کہا گیا ہے کہ وہ ’ایریٹرز‘ استعمال کریں، پانی کی مناسب گہرائی رکھیں، چونا ،ڈالیں، اور پانی میں حل شدہ آکسیجن کی مقدار پر نظر رکھیں تاکہ مچھلیوں کی اموات سے بچا جا سکے۔ اس کے علاوہ گرم موسم میں خوراک کی مقدار میں کمی کی جائے۔