محمد عرفات وانی
کشمیر کی معاشرتی حقیقتوں کے کئی تلخ رنگ پوشیدہ ہیں۔ انہی حقیقتوں میں سے ایک بڑی ناانصافی ان خواتین کے ساتھ روا رکھی جا رہی ہے جو آنگن واڑی مراکز میں کام کر رہی ہیں۔ یہ وہ محنت کش خواتین ہیں جو صبح سویرے سے شام تک دوسروں کے بچوں کی تعلیم، صحت اور غذائیت کے لیے مصروف رہتی ہیں، لیکن بدلے میں انہیں اتنی کم تنخواہ دی جاتی ہے کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات تک پوری نہیں کر پاتیں۔ یہ صورتحال نہ صرف ایک معاشی مسئلہ ہے بلکہ سماجی انصاف اور انسانی قدروں کی پامالی کی بھی ایک واضح مثال ہے۔
جہاں ایک طرف کچھ سرکاری ملازمین ماہانہ اسی ہزار روپے تک کی تنخواہ وصول کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف یہ محنتی خواتین صرف پانچ ہزار روپے ماہانہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ فرق نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ ان کے کام کی اہمیت کو کم کرنے کے مترادف ہے۔ وہ خواتین جو معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہیں، آج خود محرومی کا شکار ہیں۔آنگن واڑی ورکرز کا کردار معاشرے کے لیے بے حد اہم ہے۔ وہ صرف بچوں کی ابتدائی تعلیم تک محدود نہیں بلکہ بچوں کی صحت، غذائیت اور ان کی ذہنی نشوونما کی بھی ذمہ دار ہیں۔ ان کے ذریعے حکومت کے کئی فلاحی پروگرام، جیسے کہ ’’پریگننسی مانیٹرنگ‘‘، ’’نیشنل نیوٹریشن مشن‘‘، اور ’’پی ایم ایم وی وائی‘‘ کامیابی سے چلائے جا رہے ہیں۔ یہ ورکرز بچوں کے وزن اور قد کی پیمائش کرتی ہیں، حفاظتی ٹیکے لگواتی ہیں، غذائی مشورے دیتی ہیں، حاملہ خواتین کی نگرانی کرتی ہیں اور ماؤں کو رہنمائی فراہم کرتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو کس طرح بہتر پرورش دے سکتی ہیں۔ ان کی خدمات گاؤں کی سطح پر صحت، تعلیم اور سماجی بیداری کے فروغ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی اس عظیم خدمت کا بدلہ انہیں انصاف کے برعکس دیا جا رہا ہے۔ پانچ ہزار روپے ماہانہ میں آج کے دور میں کوئی شخص گھر کا چولہا جلانے کی بھی سکت نہیں رکھتا اور یہ خواتین نہ صرف اپنے گھروں کی ذمہ داری اٹھاتی ہیں بلکہ دوسروں کے گھروں کے بچوں کو سنوارنے میں بھی مصروف رہتی ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنی محنت سے مستقبل کے معماروں کو سنوارتا ہے، مگر خود بدحالی کا شکار ہے۔
آنگن واڑی ورکرز کے ساتھ ناانصافی صرف تنخواہ کی حد تک محدود نہیں بلکہ یہ سماجی انصاف کی جڑوں پر بھی وار ہے۔ ان کی محنت کی کم قدر کرنا، ان کی خدمات کو معمولی سمجھنااور ان کے مسائل کو نظرانداز کرنا، ایک ایسی روش ہے جو سماج کی اخلاقی بنیادوں کو متزلزل کرتی ہے۔ یہ حقیقت کہ وہ خواتین جو معاشرے کے نچلے طبقے کے بچوں کو سنوارتے ہوئے آنے والی نسلوں کی بنیاد رکھتی ہیں، خود معاشی طور پر کمزور ترین طبقے میں شامل ہیں، ہمیں اجتماعی طور پر شرمندہ کرتی ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ آنگن واڑی ورکرز کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے۔ ان کی کم تنخواہیں دراصل صنفی امتیاز (Gender Discrimination) کی ایک مثال ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کے مساوی حقوق کی بات کی جاتی ہے، وہاں ان کے کام کو کم قیمت دینا دراصل ان کے وجود کی قدر نہ کرنے کے مترادف ہے۔
آنگن واڑی ورکرز کی زندگی قربانی اور خدمت کی ایک روشن مثال ہے۔ وہ برف باری، بارش، اور گرمی کی شدت میں بھی اپنی ڈیوٹی انجام دیتی ہیں، نہ وقت کی پرواہ کرتی ہیں اور نہ وسائل کی کمی کی۔ لیکن ان کے کام کی یہ عظمت اس وقت ماند پڑ جاتی ہے جب حکومت اور متعلقہ ادارے ان کے حق میں خاموش رہتے ہیں۔ ان کی تنخواہ میں اضافہ، انشورنس اور دیگر سہولیات کی فراہمی محض ایک مطالبہ نہیں بلکہ ان کا بنیادی حق ہے۔ اگر معاشرہ اپنی ان خواتین محنت کشوں کو وہ مقام نہ دے ،جس کی وہ حقدار ہیں، تو یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان خاموش خدمت گار خواتین کے حق میں آواز بلند کریں۔ حکومتِ جموں و کشمیر کو چاہیے کہ وہ آنگن واڑی ورکرز کی حالتِ زار پر سنجیدگی سے غور کرے۔ ان کی تنخواہیں موجودہ معاشی حالات کے مطابق مقرر کی جائیں، انہیں سوشل سکیورٹی، انشورنس، اور پنشن جیسی سہولیات دی جائیں تاکہ وہ عزت و وقار کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ یہ خواتین ہمارے سماج کی بنیاد ہیں، اگر ان کی بنیاد کمزور ہوگی تو معاشرتی عمارت کب تک قائم رہ سکتی ہے؟یہ وہ خواتین ہیں جو ہمارے گاؤں اور بستیوں کے ہر گھر میں خدمت کا چراغ جلائے بیٹھی ہیں۔ ان کی محنت کی قدر کریں، ان کے حقوق کو تسلیم کریں اور ان کی تنخواہوں کو ان کے کام کے مطابق بہتر بنائیں۔ اگر ہم واقعی ایک منصفانہ اور باوقار سماج کا خواب دیکھتے ہیں تو ہمیں ان محنتی خواتین کو ان کا حق دینا ہوگا۔آنگن واڑی ورکرز ہمارے معاشرتی ڈھانچے کے وہ ستون ہیں جن پر تعلیم، صحت اور فلاح کی پوری عمارت قائم ہے۔ ان کی محنت کا اعتراف کرنا صرف اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ قومی فریضہ ہے۔
رابطہ۔ 9622881110
[email protected]