لیلہاتے کھیت کھلیان،صاف وشفاف آبِ رواں،سبزمخملی زمین اورپھولوںسے لہلہاتی حسین وجمیل وادی،پہاڑوںکی خوبصورتی میںلپٹی پرکشش جھیلیں،موسموںکے دلکش نظارے اورانواع واقسام کے پھلوںسے معموراس کرہ ٔارض کو لوگ’’جنت ِارضی‘‘کہتے ہیں۔آبشاروںکے جھرمٹ میںوادی کشمیراللہ کے خوبصورت شاہ کاروںمیںایک شاہ کارہے۔کشمیرمیںکئی ایسے دلکش ، دل فریب ا ورقابل دیدمناظرقدرت کی بہتات ہے کہ صدیوں سے فطرت کے پرستارلاکھوںسیّاح ہرسال دنیا بھر سے یہاں کا رخت سفرباندھ کرمرحلۂ شوق طے کرتے ہیں۔انہی قابل دیدجگہوںمیںسے شمالی کشمیر میں ایک ’’وادی ٔبنگس‘‘ہے۔
وادی بنگس کی خوبصورتی کے بارے میں اگرچہ کافی عرصہ سے سن رکھا تھا لیکن یہ جان کر کہ وہاں تک جانے کیلئے اجازت لینا پڑتی ہے ،کبھی وہاںجانے کا ارادہ نہ کیا۔ اب جب معلوم پڑا کہ گزشتہ سال سے وہاں کا رُخ کر نے والوں کو کسی اجازت نامے کی ضرورت نہیں پڑتی ، سوچا کیوں نہ اس خوبصورت وادی کوجاکر اللہ رب العزت کی اس تخلیق کے حسن و جمال کا کچھ مشاہدہ کیا جائے۔ ادارہ فلاح الدارین، بارہمولہ کے رفقاء ہر سال کسی نہ کسی خوبصورت مقام کی سیر وسیاحت پر جاتے ہیں تاکہ ہم خیال ا ور ہم سفر ساتھی مادی دور کی دوڑ دھوپ سے ہٹ کر کچھ وقت ایک ساتھ گزار سکیں اور فطرت کی آغوش میں چند ساعتیں اس صانع عظیم کی یاد میں محو ہوجائیں جس نے اس دنیائے ہست وبود کی تخلیق عبث نہیں کی ہے ، لیکن گزشتہ دو سال سے وادی میں ناگفتہ بہ حالات کے چلتے کسی ایسی جگہ جانا دل نے مانا نہ ذہن نے مناسب سمجھا۔ بہر حال اللہ کے دین کے لئے تھوڑا بہت کام کرنے والے ساتھیوںکے لئے ایسے پروگراموں سے نہ صرف آپسی قربتیں بڑھتی ہیں بلکہ ایک دوسرے کی صحبت صالح اور تجربات ومشاہدات سے فو ائد بھی ملتے ہیں۔اب جب کہ بنگس جانے کے لئے اجازت نامہ کی شرط نہ تھی ( کیا معلوم یہ سہولت کب تک رہے ) ساتھیوں نے موقع غنیمت جان کر فیصلہ کیا اس بار بنگس کا ہی دورہ کریں گے۔ پر وگرام کے مطابق 12 ؍اگست 2018ء کورفقائے ادارہ کی20 چھوٹی بڑی گاڑیوںکا قافلہ قصبہ بارہمولہ سے بنگس روانہ ہو۔ضلع کپواڑہ جو کبھی بارہمولہ کاہی ایک قصبہ ہواکرتاتھا،میںمتعددسیاحتی مقامات واقع ہیں۔وادی ٔلولاب،وادی ٔسیماب،ستبارہ کلاروس،چندی گام،دنیاری لیکن وادی بنگس کی شان ہی منفرداور نرالی ہے۔
سورج کی کرنیںبادلوںکے عقب سے اہل زمین کے ساتھ آنکھ مچولی میںمصروف ہی تھیںکہ ہم پَوپھٹے آزاد گنج قصبہ خاص بارہمولہ میں اکھٹاہوکے سُوئے منزل بصد شوق روانہ ہوئے۔ جوں ہی قافلہ لنگیٹ پہنچا تو دیکھا کہ وہاں مکمل ہڑتال تھی۔وجہ معلوم کرنے پر معلوم ہواکہ ابھی چند روز قبل قریب کے ایک جنگل میں ایک خون آشام جھڑپ ہوئی تھی جس میں چند جوان جاں بحق ہوگئے تھے ،اس وقت سرکاری طور بتایا یہ گیا تھا کہ جاں بحق نوجوان ریاستی باشندے نہیں ہیں لیکن جب ان کی فوٹو سوشل میڈیا میں وائرل ہوئی تو پتہ چلا کہ ان میںسے ایک لنگیٹ کاہی نوجوان تھا۔اب علاقے کے غم زدہ لوگ جاں بحق نوجوان کی نعش کا مطالبہ لے کر ہڑ تال پر تھے ۔ ہڑتال کی حقیقت ِحال جان کر دل پر چوٹ اور جذبات پر صدمے کازخم لگا ۔ یہاں یہ غم انگیز بات بھی بتا تا چلوں کہ وادی کشمیر میں 1988 سے اب تک 10 ہزار سے زائد افراد مبینہ طور زیر حراست لاپتہ ہیں۔ ان کی مائیں، باپ، بہنیں ، بھائی اور کہیں کہیں بچے اور بیویاں ہر دن اُن کی واپسی کی اُمیدکے ساتھ تڑپ کی ان کی راہ تکتی جا رہی ہیں، کب وہ واپس گھر آجائیں۔اسی طویل اور حوصلہ شکن انتظار میں کئی ماؤں کی بینائی بھی چلی گئی لیکن ہمارے کرم فرماؤں کے کان پرجُو تک نہیںرینگتی۔وادی میں کئی ایسی کم نصیب خواتین ہیں جن کے سہاگ غائب کئے گئے، کئی سال سے ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں، یہ’’ نیم بیوائیں‘‘(s Half-widow) غم ،مایوسی اورکسمپرسی کی بے کیف زندگی جی رہی ہیں۔ان کی زندگیاں واقعی اجیرن بن گئی ہیں۔ نہ وہ شوہر دیدہ ہیں نہ بیوائیں۔۔۔ کشمیر میں سفر کے دوران آپ کو قدم قدم ایسی ہی اَن کہی داستانوں اور نشاناتِ ظلم سے سابقہ پڑے جو یہاں سیاسی جبریت کی وجہ سے کشمیریوںکامقدر بن چکے ہیں، تو بھلا آپ کا دل اُچاٹ کیوں نہ ہو ؟ خیر ہمارا قافلہ لن زیر ہڑتال لنگیٹ سے بھاری دل لے کر کپواڑہ ہوتے ہوئے چوکی بل TP پہنچ گیا ۔
اہالیانِ وادی کوضلع کپواڑہ کے عام لوگوںسے ایک شکایت ہے کہ وہ بہت جلد بکاؤ قسم کے سیاست کاروںکے بہکاوے اور فریب میںآجاتے ہیں۔بات اگرچہ سچ ہے لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ اس علاقے نے رواںتحریک میںبڑی انمول قربانیاںبھی دی ہیں۔ یہاں کے ہزاروںجوان شہیدہوئے ہیں۔صرف ایک دردپورہ میںپانچ سوسے زائدبیوائیںہیں جن کے سرتاجوںنے اس تحریک کی اپنے پاک اور گرم خون سے آبیاری کی ہے۔کنن پوشپورہ نامی دو گاؤں یہی واقع ہیں جہاں ملت کی عفت مآب بیٹیاں ایک انسانیت سوز اور دل خراش المیہ کی بھینٹ چڑھیں کہ ۱۷؍سے ۷۰؍ سال تک کی مظلوم خواتین کی بندوق کی نوک پر عصمت دری کی گئی، یہ گہرا زخم ہر با ضمیر کشمیری کے دل وجان میں ہمیشہ ہرا بھرا رہے گا ۔ کئی دہائیاںگزرگئیںلیکن اب بھی انصاف کی دیوی ظالموںکی کوٹھی میں پابہ زنجیر ہے۔کپواڑہ کی سرزمین نے ہی ریسرچ اسکالر منان وانی کو پیداکیا۔ سب سے خاص بات یہ کہ اسی سرزمین سے تحریک کے موسس محمد مقبول بٹ جیسے ذہین،بردباراورمخلص قائد کوجنم دیا ، تر ہگام کپواڑہ کی ہواؤں میں ہی مقبول صاحب کی خودی کے بال وپر نکلے کہ وہ اپنی قوم کی عزت وآبروکے تحفظ کے لئے کہیںصدیاں آگے کی سوچنے لگے ۔
وادی بنگس ضلع کپواڑہ کی شان ہے۔ یہاں آنے کے لئے تین راستے ہیں:ایک نوگام ہندواڑہ ، دوسرا راجوار ہندواڑہ اور تیسرا چوکی بل TP کپواڑہ۔پہلے دو راستے اگرچہ منزل کے نزدیک ہیں لیکن دشوار گزار ہیں، منزل تک پہنچنے کے لیے طویل، سخت، پہاڑی اور دشوار گزار راستہ پیدل ہی طے کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ ہمیں عشاء تک گھر لوٹنا تھا،لہٰذا ہم نے چوکی بل TP راستے کا انتخاب کیا۔ یہ راستہ بارہمولہ کے لوگوں کیلئے کافی لمبا ہے لیکن اس میں نسبتاً پیدل سفر کم ہی کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے ٹی پی چوکی بل کا راستہ پکڑا اور بنگس کپوارہ سے قریب 45 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ چوکی بل TP فوجی کیمپ کے پاس Entry کرکے چیکنگ ہوتی ہے۔ کیمپ کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ بنگس جانے والی سڑک کے قریب 5 کلو میٹر تک کیمپ کے محل وقوع میں آتا ہے۔کیمپ کے دونوں طرف یعنی داخلے پر بھی اور اخراج پر بھی فورسز تلاشی لیتی ہے۔ کیمپ سے آگے قریب دس کلو میٹر تک گاڑیاں جاتی ہیں۔
سڑک کے دونوں جانب خوبصورت قدرتی مناظر،سبزہ زاروں،فلک بوس پہاڑوں کا سلسلہ آدمی کو عجیب طرح کا روح پرور سکون فراہم کرتے ہیں۔میںبرادر عرفان بہادر کی گاڑی میں منزل کی طرف رواں دواںتھا اور ہمارے ساتھ گاڑی میں ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب بھی موجودتھے۔ ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب اپنے آپ میں علم وفہم کا ایک چلتا پھر تادائرۃالمعارف( انسائیکلوپیڈیا) ہیں۔ کونسا ایسا موضوع ہے جس پر وہ دسترس نہیں رکھتے، ہر موضوع کی وسیع معلومات رکھتے ہیںاور فی الحقیقت قدیم و جدیدعلوم کا یہ حسین امتزاج وادی ٔ کشمیر کی شان ہیں۔عالمی سطح پر ان کی کتابیں بطور ریفرنس مانی جاتی ہیں لیکن ان کے اندر آپ کبھی بھی وہ علمی پندار نہیں پائیں گے جو یہاں کی بعض اہل ِعلم شخصیات کا خاصہ ہے۔عاجزی وانکساری ان کااوڑھنابچھوناہے۔ ڈاکٹرلون صاحب جہاں بیٹھتے ہیں ،وہاں باغ وبہارمحفل جم جاتی ہے، لوگ محبت اور عقیدت کے جذبے سے ان کے اردگرد جمع ہوجاتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی صحبت میں یقیناً آپ اپنی عمر میں معیاری اضافہ پائیں گے ۔آپ اپنوں اور غیروں سب کے ہر دلعزیز ہیں۔ہر موقع اور موضوع پر اردو ، انگریزی، کشمیری ، فارسی اور عربی میں برجستہ اشعار آپ کی نوک زبان پر ہوتے ہیں، حافظہ بھی کمال کا پایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرنجان مرنج طبیعت کے مالک ہیں۔ہم سفر جب عرفان بہادر ہوں اور ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب کی پُر وقار وپُربہا ررفاقت بھی حاصل ہو تو محفل قابل داد کیوں نہ ہو۔ ہمارا سفر( سوائے لنگیٹ میں غم والم کی سووگاری کے ) ایسے سے مزے کٹ گیا کہ پتہ ہی نہ چلا کہ ہم کب بنگس کی گود میں پہنچ گئے ۔ابھی بس وہاں پہنچ ہی رہے تھے کہ ایک اور رُکاوٹ آرمی کیمپ کی صورت میں سامنے پائی، وہاں بھی گاڑی کی تلاشی لی گئی اور ہمارے شناختی کارڈ واپسی تک ضبط کئے گئے اور ساتھ میں ہمیں حکم نامہ بھی ملا کہ شناختی کارڈ بس شام 6 بجے سے پہلے پہلے واپس مل سکتا ہے، اس کے بعد واپسی ہوئی تو اگلے روز ہی پھر ملنے کا امکان ہوگا ۔ اس طرح کے شاہی فرامین سے کشمیریوں کے رَگ وپے میں اپنے ہی وطن میںاپنی بے کسی اور بے نوائی کا احساس کیوں نہ بھر جائے ۔ جہاں تک گاڑی جاسکتی تھی، وہاں تک گاڑیاں ہم نے اسے لے لیا۔
بنگس سے قبل تقریبََاتین کلومیٹرکی مسافت پر ہی گاڑیاں پارک کر کے پاپیادہ اُس حسین وادی کی جلّومیںپہنچاجاسکتاہے۔ قریب 45 منٹ تک پہاڑی سلسلوں اور دشوار گزار تنگ مگر خوبصورت راستہ طے کرناپڑتا ہے۔ سڑک کچھ زیادہ ہی تنگ ہے لیکن ایک طرف خوبصورت جنگل اوردوسری طرف گہری ندی بہے تو آپ مسحور ہوکریہ تنگیاں اور دقتیں کیوں نہ بھول جائیں۔ ہمارے قدموں کی تال اور بہتی اچھلتی ندی میں پانی کا سُر دونوں مل کر جیسے سرگم کا تار چھیڑ رہے تھے۔ پُر جوش ومدہوش قافلہ اورپُرسکون فضائیں، کس کس چیز پر آپ فدا نہ ہوں۔ قافلہ میں شامل تین ساتھی پیدل چلنے میں دشواری کے اندیشے سے میں اندر ہی اندرمتفکر تھا۔ ان میں دو ساتھیوں کی چند ماہ پہلے ہی گٹھنے کی سرجری ہوئی تھی اور ڈاکٹر غلام قادر لون بھی گھٹنے کے درد میں مبتلا تھے لیکن الحمد للہ سبھی خیریت وآرام سے بلکہ جوشیلے اندازمیں بسوئے منزل رواں تھے۔ہم نے کئی جگہوں پر رُک کرسستایا لیکن کیا مجال کہ ڈاکٹر صاحب کہیںرُکنے سستانے کا نام لیتے،ایک بار بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ چلتے چلتے اور ہنستے مسکراتے رفقاء مختلف النوع موضوعات پر آپس میں بات چیت بھی کرتے جارہے تھے۔ ایک رفیق نے مجھ سے پوچھا کیا وجہ ہے کہ اکثر خوبصورت جگہوں کا راستہ دشوار گزار ہوتا ہے؟ میں نے جواباً کہا شاید قدرت ہمیں سجھانا چاہتی ہے کہ جنت ہے تو نہایت خوبصورت ترین انعامی جگہ لیکن وہاں تک پہنچنے کا جو راستہ ہے، وہ دشوار گزار اور صبر آزماہے،خواہشات کی قربانی چاہتی ہے، جہد مسلسل کا متقاضی ہے،مادی وجود کے مطالبات کو ایک نظم کے تحت پوراکرنے کی تعلیم دیتاہے۔ بالفاظ دیگراللہ کوراضی کرنے کی ہرممکن کوشش کی مسافت طے کر نے کے بعدوہ اپنے فضل سے اس ابدی جنت کامکین بنائے گا۔
قریب 45؍ منٹ پیدل چلنے کے بعد ہم چھوٹا بنگس پہنچ گئے۔ وسیع و عریض اور سر سبز میدان کو پہاڑوں کے گھیراؤ میںاس جنت نظیر وادی کے بیچ میں ندی بہتی ہے لیکن اس میں پانی وقت کی مناسبت سے بہت ہی کم تھا۔یہ وادی سطح سمندر سے10 ہزار فٹ اونچائی پر واقع ایک خوبصورت علاقہ ہے، اسی وادی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:’’چھوٹا بنگس‘‘ اور’ ’بڑا بنگس‘‘۔یہ وادی 300 مربع کلومیٹر وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی ہے۔بنگس دیکھ کر گلمرگ حدوداربعہ کے لحاظ سے بالکل چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔ گلمرگ کی اپنی جاذبیت ہے مگر بنگس کے مقابلے میں وہ بہت چھوٹا ہے اور کم وبیش انسانی مداخلت سے محفوظ بھی۔ بنگس کے مغرب میں قاضی ناگ شمال میں چوکی بل ، اور مشرق میں ماورہندواڑہ پڑتا ہے۔ اس وادی کا ذکر قدیم کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ راج ترنگنی میں اس علاقے کا تذکرہ ملتا ہے۔ انگریزوں کے دور میں وادیٔ لولاب اور وادیٔ بنگس کو بطور سیاحتی مقام کافی اہمیت حاصل تھی۔ بنگس بنیادی طور پر سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ ’بنگ‘ کے معنی جنگل اور ’گس ‘کے معنی گھاس کے ہیں یعنی وہ علاقہ جہاں جنگل بھی ہے اور گھاس بھی لیکن بدقسمتی سے حکومت نے اس علاقے کی سیا حتی اہمیت کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ اگر چہ سابقہ حکومت نے اس وادی کو بائیو سفر کا درجہ دینے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن وہ محض اعلان برائے اعلان ہی رہا۔ یہ علاقہ پھولوں اور قدرتی جڑی بوٹیوں کے لئے بھی کافی مشہور ہے۔ کچھ دیر یہاں آرام کرنے کے لیے ہم مناسب جگہ کی تلاش میں تھے لیکن ہر طرف گوبر ہی گوبر تھاکہ دیکھ کر بہت دُکھ ہوا کہ قدرت کے اس حسین شاہکار کو اس قدر گندہ کیوں رکھا گیا ہے؟ وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک کوشش کی گئی تھی کہ Grazing area کو مخصوص کیا جائے لیکن ووٹ بنک پالیٹکس نے اس کوشش کو کبھی کامیاب نہ ہونے دیا ۔ ہم ندی کے آس پاس مناسب جگہ کی تلاش میں تھے کہ اسی اثناء میں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہاں جو آرمی کا کیمپ ہے اس نے اپنا بیت الخلاء ندی کے ساتھ بنائی ہے اور ساری گندگی ندی کی طرف ہی جاتی ہے۔ یہ بے نیازی یا لاپروائی فطرت کے اس حسین تحفے پر انسان کی جانب سے ایک زناٹے دار طمانچہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ ہم یہ کر یہہ الصورت منظر دیکھ کر سوائے افسوس کے ہم کر ہی کیا سکتے تھے؟ بالآخرہم نے اس کیمپ سے آگے ندی کے پاس ایک جگہ کا انتخاب کیا، چونکہ رفقاء تھکے ہوئے تھے، اس لیے فیصلہ ہوا کہ پہلے کھانا کھایا جائے ،اگرچہ ہر ایک نے اپنا اپنا کھانا ساتھ لایا تھا لیکن سب نے ایک ساتھ ایک ہی دسترخوان پر کھا نا تناول کیا۔کھانے کے بعد عرفان بہادر نے اذان دی تو فضا اللہ کی کبریائی سے گونج اٹھی۔سبھی رفقاء وضو کرکے نماز قصر کے لئے تیار ہوئے۔ رب العزت کی تخلیق کا، اس کے حسن وجمال کا اور اس کی دادودہش کا پہلو دیکھ کر اس کا شکر بجا لانا ہم پر فرض اول تھا۔ پس امتیاز عبدالقادر کی اقتداء میں ظہرباجماعت ادا کی ۔اس نماز میںایک الگ ہی کیفیت ہم سب پر طاری رہی۔ نماز کے بعد کچھ دیر تک ایک محفل جمی، جسے برادر عاقب منظور کی مسحورکن تلاوت ، برادر سلیم ناز مکائی اور عرفان بہادر کی پرسوز آواز میں مرحوم عامرعثمانی کی نظمیں چار چاند لگاگئی ۔ پوری فضاء اللہ کی یاد میں رقصاں محسوس ہورہی تھی۔ بعدازاں ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب نے رفقاء کے سامنے مختصر تقریر دل پذیر کی۔ دل کے تارچھونے والی ان کی گفتگومیں رفقاء سے انہوں نے کہا کہ اپنے اپنے علاقوں کی معلومات جاننا کس قدر ضروری ہے۔ انہوں نے بنگس کے بارے میں نہایت ہی اہم معلومات بیان کیں اور اس بات پر زور دیا کہ اپنے علاقے کے جغرافیائی، تاریخی اور دیگر خصوصیات کی معلومات جاننا سب کے لئے کس قدر ضروری ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے وطن عزیز کشمیر کے مختلف پہلوؤں کو اُجاگر کیااور اس قوم پر اللہ کے احسانات کا متاثر کن تذکرہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں کل ساڑھے آٹھ ہزار میڈیسن پلانٹ ہیں اور ان میں ساڑھے چار ہزار کشمیر میں پائے جاتے ہیں،اللہ اکبر۔ڈاکٹرلون صاحب کی علمی گفتگو کے بعد برادر جاوید احمد گوجری نے مزاحیہ پروگرام سے محفل کو زعفران زار بنادیا۔ گویا محفل میں متانت اور ظرافت نے حُسن اعتدال سے اپنے رنگ بکھیر کر قافلے کو زندگی کے ان دونوں رُخوں سے آشنا رکھا ۔
محفل کے بعد ہم لوگ بڑے بنگس کی طرف نکل پڑے۔اگرچہ وہاں سے بڑا بنگس نزدیک ہی ہے اور پیدل بھی جا یا جاسکتا ہے لیکن کچھ عرصہ سے گھڑسواری کی اہمیت سننے کے بعد مجھے گھوڑے سے الگ سی عقیدت اور محبت ہوگئی تھی، بس انتظار میں تھا کہ کب اس کا موقع ملے ۔ اصل میں ہمارے محترم بھائی مولانا اعجاز الحق (گاندر بل) جب دینی پروگرام دینے کے لئے بارہمولہ تشریف لاتے ہیں تب تب وہ گھوڑے کے بارے میں مفید معلومات ضرور دیتے رہتے ہیں ۔گھڑ سواری کی اہمیت بیان کرتے ہوے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ چند سال پہلے ان کا وزن 100 کلو سے زیادہ ہوگیا تھا اور کئی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوئے تھے، لیکن گھڑ سواری کی وجہ سے نہ صرف انہوں نے اپنا وزن کم کیا بلکہ بہت ساری بیماریوں سے نجات پائی۔ ان کے بیان کردہ حقائق کے مدنظر راقم کو بھی گھڑ سواری کا شوق ہوا لیکن کبھی ہمت نہ ہوئی۔وادی بنگس میں چونکہ چھوٹے چھوٹے کمزور گھوڑے منتظر سوار تھے، لہٰذا موقع غنیمت سمجھ کر سوچا کیوں نہ آج بڑا بنگس گھوڑے پر سوار ہو کر جائیں۔گھوڑے کے مالک نے مناسب معاوضہ بولا۔ ہم چند ساتھی گھوڑے پر سوارہوکر بڑے بنگس کی طرف چل پڑے۔ راقم نے ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب کو بھی گھڑ سواری کی دعوت دی جس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر سب کو ہنسا دیا کہ یہ وہی گھوڑے ہیں جنہوں نے بچپن میں گائے کا دودھ پیا ہے، لہٰذا ان پر سوار ہوکر میں ان بے چاروں پر ظلم نہیں کرسکتا۔ خیر گھوڑے نے ہمیں 15 منٹ کے بعد بڑا بنگس پہنچادیا۔
سفر کے دوران گھوڑے کا مالک اس علاقے کے مختلف اَن سنے گوشوں کو اُجاگر کر یا جا رہا تھا۔ بڑا بنگس قدرت کا شہ کار ہے، وسیع وعریض علاقے کو محیط یہ وادی انسان کو عجیب روحانی سکون فراہم کرتی ہے۔ یہاں گھاس پر ننگے پاؤں چلنے کا عجیب ہی مزا ہے،ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زمین کے اندر سپرنگ لگائے گئے ہیں۔ اس علاقے میں چونکہ ابھی تک موبائل فون اچھی طرح کام نہیں کررہے ہیں، لہٰذا موبائیل کا عادی انسان چند لمحے پُر سکون رہتا ہے۔دل توچاہ رہا تھا کہ رات وہی بسر کریں لیکن ہمارا قافلہ بڑا تھا، چھوٹا بنگس میں رُکنے کے لیے کچھ کوٹھے بھی موجود ہیں اور ٹنٹ بھی، جہاں مناسب ریٹ پر رات بھرقیام کیا جاسکتا ہے۔۔ ہم ایک کوٹھے پر کچھ دیر رُکے بھی اور اس خوبصورت فضا میں نمکین چائے سے لطف اندوز بھی ہوئے۔ اس دوران برادر نذیر احمد نے ایک نعت پاک پیش کر کے دل کی دنیا تروتازہ کردی اور خشک آنکھوں کو نمی سے آباد کیا ۔ اس خوبصورت وادی میں ہدیۂ نعت سے سب کی پلکیںعقیدت سے نم ہوئیں۔ وہاں سے نکلنے کو اگرچہ دل بالکل نہیں چاہ رہا تھا لیکن وردی پوشوںکے حکم نامے کی تعمیل کا احساس بھی ڈس رہا تھا اور اس دھمکی کا ڈر بھی لگا رہا کہ وقت پر نہ آئے تو اگلے روز ہی واپسی ہوگی ۔ اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی بوجھل دل لئے ہم نے واپسی کا سفر باندھ لیا۔دنیا کا حال ہی ایسا ہے کہ یہاں سے انسان کبھی جانے کو بھی مجبور ہے۔ سچ مچ دنیا میں کوئی علاقہ چاہے کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو لیکن نہ اس خوبصورتی کو بقاء حاصل ہے اور نہ ہی بندے کو اسی میں مست رہنا ہے کیونکہ ؎
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے
یہ صرف اور صرف اللہ کی جنت ہی ہے جہاں کی خوبصورتی کودوام ہے اور وہاں کوئی غم ہے نہ ہی کوئی خوف، نہ کوئی اُکتاہٹ اور نہ کوئی گھبراہٹ ۔ چونکہ 15 اگست قریب تھا اور ہر سال یہ دن کشمیری عوام کے لئے ایک تاریک رات کی مانند اجتماعی طور عذاب بن کرآتاہے، سیکورٹی اور تلاشی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ لوگ گھروں کے حصار میں رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ اس دن بھی واپسی پر جگہ جگہ جامہ تلاشی اور پوچھ تاچھ ہو رہی تھی، ہمارا قافلہ بھی ان تعذیبی مرحلوں سے گزرتے ہوئے اس نئے عزم وارادے کے ساتھ عشاء نمازکے بعدواپس گھر پہنچ گئے کہ کبھی دوبارہ وادیٔ بنگس کی سیرکو آئیں گے۔