Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

وادیٔ مڑواہ سراپا فریاد | صدائے کوہسار

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: December 23, 2020 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
16 Min Read
SHARE
 وادیٔ مڑواہ جموں و کشمیر کے ضلع کشتواڑکا ایک ایسا پسماندہ علاقہ ہے جو انگریزوں اور ڈوگرہ شاہی کے پنجوں سے آزاد ہونے کے 73 سال بعد بھی سڑک ،بجلی ،ٹیلی مواسلاتی نظام اور معیاری تعلیم وغیرہ جیسی بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے عوام کی غلامی کا دور اب تک ختم نہیں ہوا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو روز اول سے گوناگوں مسائل و مصائب کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اگرچہ چند برس قبل سے علاقہ ہٰذاگاورن۔نوپچی روڈ ،جو مرگن پاس سے گزرتا ہے ، کے توسط سے اننت ناگ ضلع کے ساتھ جڑ چکاہے مگر سردیوں کے شروع ہوتے ہی آمدو رفت کے اس واحد سہارے کو برف کی سفید دبیز چادر ڈھانپ لیتی ہے اور ایک لمبے عرصہ تک علاقہ ھذا پوری دنیا سے منقطع ہو کر رہ جاتا ہے۔اس طرح سے یہاں کا پورا نظام در ہم برہم ہوکے رہ جاتا ہے۔تعلیم ہو یا صحت ،سیاست ہو یا تجارت گو یہاں کے سبھی شعبہ جات منجمد اور یخ بستہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔استاد ہوکہ ڈاکٹر ،لیڈر ہو کہ تاجر یا کوئی دوسرا آفیسر، بحر حال قوم کے یہ برائے نام خدابھی اس مشکل وقت میں قوم کو بے سروسامان چھوڑ چھاڑ کے شہروں کی طرف رخ کر کے اس قدر مگن ہوجاتے ہیں کہ اپنے فرائض انجام دینا تو دور کی بات میرے خیال میں اپنے منصب کو بھی بھول جاتے ہونگے۔ نصف سال گزرجانے کے بعد گرمیوں سے تنگ آکر شہروں  کی آرام دہ لائف اسٹائل کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے الوداع کہنا ہی پڑتا ہے۔اور وادی مڑواہ میں وارد ہوکر یہاں کے دلکش نظاروں اورخوشگوار موسم سے سیاحوں کی طرح آکر لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنی جمالیاتی حس کو مسرت پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔
سردیوں کے دوران سب سے زیادہ ظلم وستم اور مشکلات کا سامنا یہاں کی غریب عوام کو ہی کرناپڑتا ہے۔چونکہ سردیوں کا موسم آتے ہی افسروں کے ساتھ ساتھ دفتروں کو بھی ضلع ہیڈ کوارٹر کشتواڑ منتقل کیاجاتا ہے۔اورعوام کوچھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے بھی جان کی بازی لگا کر دوردراز و دشوار گزار راستوں سے گزرتے ہوئے اور پر خطر پہاڑوں کی چوٹیوں کو عبور کرتے ہوئے دو دن کی کٹھن مسافت طے کرکے ضلع ہیڈ کوارٹر کشتواڑ پہنچنا پڑتا ہے۔اس وجہ سے علاقہ ھذا دن بہ دن پسماندہ سے پسماندہ تر ہوتا جارہا ہے اور اس سلسلے میں عوام کوجن مسائل و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ درج ذیل ہیں۔
شعبہ تعلیم کی ستم ظریفی 
کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے تعلیمی نظام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔اسلام میں تعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔اور تعلیم ہی وہ نور ہے جو انسان کو جہالت کی تاریکی سے نکالنے کا کام کرتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے علاقہ ھذا کے لوگ اس نور سے کافی حد تک محروم رکھا گیا ہے۔یہاں کی تعلیمی صورت حال کی خستہ حالی کی طرف جب بھی نگاہیں اٹھتی ہیں تو آنکھیں نمناک ہوجاتی ہیں۔یہاں کے سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد جتنی زیادہ ہے ان کی کارکردگی اور معیار بھی اتنا ہی قابل رحم ہے۔ ان کے برعکس پرائیوٹ اسکولوں کی تعداد بہت کم  ہے لیکن ان اداروں میں تعلیمی معیار سرکاری اداروں کے مقابلے میں کسی حد تک بہتر معلوم ہوتا ہے۔تعلیمی اداروں کی اس بد حالی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان اداروں میں ماہر اساتذہ اور جدید تدریسی نظام کی اکثر کمی دیکھنے کو ملتی ہے۔اس طرح سے یہاں کا تعلیمی معیار دن بہ دن گرتا چلاجارہا ہے۔دوسرے یہ کہ اگرچہ ریاست کے دیگر علاقوں میں سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی ادارے مارچ میں ہی روبہ عمل ہوتے ہیں۔لیکن یہاں کا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔یہاں کے تعلیمی ادارے ضلع و تحصیل انتظامیہ کی لاپرواہی اوراساتذہ کے غیر ذمہدارانہ رویے کے سبب مارچ کے بجائے جون جولائی سیکام کرنا شروع کردیتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ کچھ برس قبل تک امتحان لینے کے لئے ممتحن ٹھیکیدار کی طرح ٹینڈر دیکر یہاں وارد ہوتے تھے۔بعد میں رشوت خوری سے اپنے پیسے کی بھرپائی ہی نہیں بلکہ اچھی خاصی کمائی بھی کرتا تھا۔گو امتحانات میں رشوت ستانی ،سفارش اور نقل جیسے اسباب سے طلاب کی اکثریت کو پاس کرایا جاتا رہاہے۔جو اس کھیل کا حصہ غربت یا غیرت کے سبب نہ بن پاتا تھا اسے قابلیت اور صلاحیت کے باوجود فیل ہونا پڑتا تھا۔ اور آج بھی نقل جیسے زہریلے نشہ سے یہاں کے طلبا و طالبات کو ذہنی مریض بنادیا جاتا ہے۔چوتھی یہ کہ بعض اسکول ایسے بھی ہیں جو سال میں چند دنوں کے علاوہ نہیں کھلتے ہیں اور کچھ تو سال بھر بند پڑے رہتے ہیں۔انہی وجوہات کی بناپر یہاں کا تعلیمی نظام دن بہ دن بربادی کی گہری کھائی کی طرف بڑھتا جارہاہے۔بیشتر استادوں کا کام تنخواہ وصول کرکے شہروں میں کوٹھیاں بنانا، اپنے بچوں کو بڑے بڑے اسکولوں میں پڑھانا اور غریب بچوں کو صحیح ڈھنگ سے پڑھانے کے بجائے ان کی ذہنی و فکری صلاحیتوں کا استحصال کرکے اپنی نا اہلی کا بھر پور ثبوت دینا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب یہ طلاب کالجوں میں داخلہ لیتے ہیں تو معدودے چند کے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوپاتا ہے۔اگر ہم ڈگری کالج مڑواہ سے پاس ہونے والے بچوں کی شرح دیکھتے ہیں تو شرم سے سر جھک جاتا ہے۔علاوہ ازایں طلبہ وطالبات اور والدین کا غیرذمہ دارانہ رویہ بھی اس تنزلی کی ایک وجہ بن چکا ہے۔
ایک اندازہ کے مطابق یہاں دسویں اور بارھویں میں کامیاب بچوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جبکہ گریجویٹ سو سے زیادہ نہیں مل سکتے ہیں۔ ماسٹرس کی ڈگریاں قریباً دو درجن اور بی۔ایڈ کی دو سے تین درجن طلبہ و طالبات نے حاصل کی ہونگی۔ ایم فل میں دو یا تین طلاب ملیں گے اور پی ایچ ڈی کا خدا ہی حافظ ہے !!!یہ ہے یہاں کا تعلیمی سفر !!! جو ہزاروں سے شروع ہوتا ہے اور صفر پہ ختم!!! مطلب الٹی گنتی!!!!
میں سبھی اساتذہ کو غیر ذمہ دار قرار نہیں دیتا ہوں بلکہ معدودے چند قوم کا درد بھی اپنے سینوں میں رکھتے ہیں اور روزوشب قوم کی ترقی کے لئے کوشاں اور خواہاں ہیں۔میں علاقہ کے نظام تعلیم کو بگاڑنے کا ذمہ دار صرف اساتذہ کو ہی نہیں ٹھہراتا ہوں بلکہ والدین اور سیاسی رہنماؤں کا بھی اس میں اہم کردار ہے۔بلکہ میں سب سے بڑا غیر ذمہ داروہاں کی تحصیل اور ضلع انتظامیہ کو ہی قرار دیتا ہوں جو بروقت ان مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
شعبہ صحت کی لاپرواہی
مذکورہ علاقہ جات میں صرف تین یا چار بیڈ والے ناکارہ ہیلتھ سنٹرس ہیںجو یہاں کی کثیر آبادی کیلئے ناکافی ہیں۔جس میں اکثر اوقات ڈاکٹروں کی عدم دستیابی رہتی ہے۔اگر چہ گرمیوں میں لوگوں کو کسی حد تک طبّی سہولیت میسر آتی بھی ہیں مگر سردیوں میں بے بسی کا عالم یہ ہے کہ مرد ہو یا عورت ،بوڑھے ہوں یا بچے ،بیماری چھوٹی ہو یا بڑی ، کوئی بخار کا مریض ہو یا کنسر کا ،بالخصوص خواتین معدے کے درد میں مبتلا ہوں یا دردزہ میں۔ انہیں پا پیادہ کشاں کشاں خطرناک راستوں سے گزرتے ہوئے دو دن کا سفر طے کرکے ضلع ہیڈ کوارٹر یا دوسرے کسی شہر کے اسپتال میں علاج و معالجے کے لئے جانا پڑتا ہے۔بعض لوگ وقت پر علاج نہ ملنے کے سبب سے درد کی انتہا کو برداشت نہ کرتے ہوئے زندگی کی بازی ہار بیٹھتے ہیں۔اس طرح سے محکمہ صحت اور حکومت کی لاپروہی سے مڑوا ہ کا غریب اور بے بس معاشرہ برابر شکار بنتا آرہاہے۔
بجلی ،سڑک ،ٹیلی مواصلاتی نظام سے محرومی
مڑواہ، واڑون اوردچھن جموں و کشمیر کے ایسے علاقے ہیں جو اکیسویں صدی کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے درخشاں دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔جہاں ایک طرف حکمران ڈیجیٹل انڈیا کے دعوے کرتے چلے آرہے ہیں وہیں مذکورہ علاقہ کے لوگ بجلی ،سڑک ، ٹیلی مواصلاتی نظام کی عدم دستیابی کی وجہ سے گوناگوں مشکلات کاسامنا کرتے ہیں۔ستم ظریفی یہ کہ یہاں کی سادہ لوح عوام کو ستانے اور ورغلانے کے لئے ایک عدد بیکار بی ایس این ایل ٹاور بھی کھڑا کیا گیا تھا مگر اپنے اعزا واقربا کو کال کرنے کے لئے ہرشخص ترستا ہے…خیر دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے! ۔بجلی کے حوالے سے کیا کہا جائے! اس کا یہاں نام و نشان ہی نہیں ہے ۔عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے الیکشن سے قبل دو دو تین تین درجن بجلی کے کھمبے ہر گاؤں میں گاڑھ دئے گئے تھے اور ان پر ایک ایک جوڑا المونیم کی تاریں بھی لٹکادی گئی تھیں مگر عوام اب تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ بجلی کب اور کیسے ان کے اندھیروں میں ڈوبے گھروں کو روشن کرے گی جبکہ ان کھمبوں اور تاروں کا کسی بھی پاور پرو جیکٹ سے دور دور تک کوئی ربط نہیں ہے۔اور علاوہ ازیں ضلع ہیڈ کوارٹر پہلے سے بجلی کی غیر دستیابی کے مسائل سے جھو ج رہا ہے۔ کسی بھی علاقے کی ترقی میں اچھی سڑکیں ،بجلی اور ٹیلی مواصلاتی نظام بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔مجھے سرکار کے اس طرز عمل سے جو کچھ سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ مذکورہ علاقہ جات کے عوام کو تمام تر جدید سہولیات سے محروم رکھ کر غلاموں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہاں کی عوام اس حوالے سے خاموش ہے بلکہ صدائے احتجاج بار ہا بلند کی جاتی رہی ہے مگر شومئی قسمت زمیں سخت اور آسمان دور ہونے کی وجہ سے وہ صدائیں پہاڑوں کی چار دیواری میں ہی گونج گونج کر بے اثر ہو جاتی ہے۔
سیاسی لیڈروں اور انتظامیہ کی شعبدہ بازیاں
علاقہ میں جن سیاسی جماعتوں سے لوگ زیادہ منسلک دکھائی دیتے ہیں ان میں نیشنل کانفرنس ،پی ڈی پی اور بی جے پی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔مگربد نصیبی یہ کہ علاقہ روز اول سے سیاست دانوں کی مکّاریوں اور انتظامیہ کی پر فریب چالوں کا نشانہ بنتا آرہا ہے۔یہاں کی عوام کو جب چاہا اور جس طرح چاہا بیوقوف بناڈالا۔کبھی نوٹ کے بدلے ووٹ کا فارمولا اپنایا تو کبھی جھوٹے وعدوں اور قسموں کا سہارا لیا۔سادہ لوح عوام یکے بعد دیگرے دھوکہ کھاتی رہی اور نا اہل لیڈروں پر باربار بھروسہ کرتی رہی۔ قوم کے ان خادموں نے عوام کو اس قدر خود کفیل اور خود اعتماد بنا نے کی کوششیں کی تھیں کہ کسی زمانے میں پوری وادی’’ آدھی روٹی کھائیں گے… سر نہیں جھکائیں گے‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی تھی۔بلکہ اس کی صدائے باز گشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔یا یوں کہیے کہ اس کا خمیازہ یہاں کی غریب عوام کو جدید سہولیات سے محرومی کی صورت میں آج تک بھگتنا پڑرہا ہے۔اپنے آپ کو سیاسی لیڈر کہلانے والے ان حضرات کی کوشش ہمیشہ یہی رہتی ہے کہ کس طرح غریب کا گلہ گھونٹ کر اس کے خون پسینے کی کمائی قوم کے ان خادموں کی تجوریوں یا بنک اکاؤنٹس میں جا پہنچے۔یہاں تو اکثر یہی دیکھنے کو ملا ہے کہ غریب دن پر دن غریب اور امیر امیر تر ہوتا جارہاہے۔مظلوم عوام نے جب جب صدائے احتجاج بلند کی لیکن مکار لیڈروں کی سحر انگیز تقریریں،جھوٹے وعدیاور شعلہ بیانیاں انہیں پھر میٹھی نیند سلادیتی ہے۔بقول علامہ اقبالؒ
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلادیتی اس کو حکمراں کی ساحری
دیگر سرکاری و غیر سرکاری شعبہ جات کی بد حالی
مڑواہ میں کم و بیش 30سرکاری محکمہ جات برائے نام قائم ہیں جن میں سے تعلیم اور صحت پر اوپر بحث ہو چکی ہے۔ علاوہ ازیں محکمہ پولیس ، محکمہ جنگلات، محکمہ باغبانی، محکمہ زراعت ، محکمہ فشریز ،محکمہ مال،انیمل ہسبنڈری،محکمہ شیپ،محکمہ موسمیات ،سوشل ویلفیئر ،محکمہ آر اینڈ بی اور محکمہ بلاک ڈیولپمنٹ وغیرہ قابل ذکر ہیں لیکن مذکورہ محکمہ جات میں بھی وہی بد عنوانیاں اور بے ضابطگیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جو دیگر شعبہ جات میں پائی جاتی ہیں۔ اکثر محکموں کے دفاتر تحصیل ہیڈ کوارٹر مڑواہ کے بجائے ضلع ہیڈ کوارٹر کشتواڑ میں ہی کھلتے ہیں۔بارہا ضلع انتظامیہ کے سامنے صدائے احتجاج بلند کرنے کے باوجود عوام کے مطالبات کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
المختصر ضرورت اس بات کی کہ وادی ٔمڑواہ کے عوام کو درپیش مسائل کو حل کیا جائے اور ان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ دہائیوں سے نظر انداز اس خطے کے درد کا مداوا ہوسکے اور عوام کی خوشحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکے۔ بالخصوص نسل نو کے روشن مستقبل کے لئے تمام تر جدید سہولیات میسر رکھی جائیں تاکہ انہیں بھی زندگی کے مختلف محاذوں پر ملک کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو نے کا موقع نصیب ہو۔
 (مضمون نگار جموں یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں محقق ہیں)
 موبائل نمبر۔6006512876
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

۔9500بنکر دستیاب، شہری علاقوں میں بھی تعمیرکئے جائینگے:ڈلو متاثرہ خاندانوں کی واپسی فورسز کی کلیئرنس کے بعد ممکن،ڈاکٹروں کی کمی دور کرنے کے اقدامات جاری
پیر پنچال
بوتلوں اور ڈبوں میں پیٹرول اور ڈیزل کی فروخت پر پابندی
صنعت، تجارت و مالیات
جنگ بندی اعلان کے بعد تاریخی مغل روڈ پر بھی رونق واپس لوٹ آئی پیرپنچال میں لوگوں نے راحت کی سانس لیکر اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کردیں
پیر پنچال
ریکی باں ملہت پل تکمیل کے باوجود عوام کیلئے تاحال بند عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا ، عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر
پیر پنچال

Related

کالممضامین

! پہلگام قتل عام | جو سرحد کے آرپار تباہ کاریوں کی وجہ بنا قلم قرطاس

May 13, 2025
کالممضامین

جنگ حل نہیں! امن ہی اصل فتح ہے فکر و فہم

May 13, 2025
کالممضامین

آتشی گولہ باری اور شہر پونچھ کی تباہی | قاری محمد اقبال کی شہادت کا آنکھوں دیکھا احوال آنکھوں دیکھی

May 13, 2025
کالممضامین

! ہندوپاک جنگ ٹل تو گئی لیکن خاصی تباہی کے بعد حق نوائی

May 13, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?