رفعت آسیہ شاہین
کتاب صدیوں سے لکھی پڑھی سجی سجائی جانے والی ایک انمول شئے ہے۔جس گھر میں کتابیں نہیں ہوتیں وہ گھر ویران سا لگتا ہے۔ چاہے اس گھر کے کونے کونے میں دنیا بھر کے قیمتی سامان ہی کیوں نہ ہوں۔جبکہ ایک چھوٹے سے گھر میں چھوٹی سی میز پر رکھی ہوئی کتابیں دل موہ لیتی ہیں اور کتابیں مطالعہ کے شائقین افراد کو فوراً اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی مادری زبان کو پڑھنا چاہتا ہے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ جب پڑھ نہیں سکتا تو سننا چاہتا ہے۔ اچھی کتابیں انسان کے شعور کو بیدار کرتی ہیں، کتابیں انسان کو جان پہچان کراتی ہیں اور ایک دوسرے کو قریب لاتی ہیں۔ قاری اور فنکار کے رشتہ کو مضبوط کرتی ہیں۔ آج انٹرنٹ سوشیل میڈیا کے دور میں کتابوں سے محبت قدرت کا نایاب تحفہ ہے۔ ان ہی نایاب تحفوں میں واجد اختر صدیقی کی تصنیف‘‘نقش تحریر‘‘ہے جو سن 2023میں منظر عام پر آئی اور اب تک ادبی حلقوں میں اس کی پذیرائی ہورہی ہے.اس کتاب میں جتنے مضامین ہیں، اس سے بھی زیادہ نقش تحریرپر تبصرے لکھے گئے ہیں۔ ملک کے کونے کونے سے نقش تحریر کو جو پذیرائی ملی ہے شاید ہی کسی کتاب کو ملی ہوگی۔ ابھی حال ہی میں‘‘نقش تحریر‘‘کو گلبرگہ یونیورسٹی کا راجیہ اتسو ایواڈ سے نوازا گیا ہے جس کے لئے میں قلم کار کو دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں۔‘‘نقش تحریر‘‘ میں واقعی دلوں پر ذہنوں پر اور آئندہ آنے والی نسلوں پر نقش ہونے والی تحریریں شامل ہیں۔ اس کتاب کو کرناٹک اور خاص کر گلبرگہ سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کا انسایکلوپیڈا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں نئے اور پرانے تمام شعراء ،شاعرات، ادیبوں، افسانہ نگاروں، مضامین نگار وں کو جگہ دی گئی ہے۔ حسن اتفاق سے اس میں میرا بھی نام شامل ہے ۔مجھے ہی نہیں اس میں شامل تمام فنکاروں کو اس بات پر ناز ہونا چاہئے کہ‘‘نقش تحریر‘‘کو گلبرگہ یونیورسٹی کا راجیہ اتسو ایواڈ سے نواز گیا ہے۔ جہاں آج ہماری مادری زبان اردو کوتعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے پیچھےدھکیلا جا رہا ہے، محض اس لئے کہ یہ ہمارے پڑوسی ملک کی قومی زبان ہے۔ ایسے حالات میں اردو کے ادیبوں کی حوصلہ افزائی کرنا حکومت کرناٹک کی فراخ دلی سراہے جانے کی مستحق ہے ۔
ایک انسان اپنی ذات میں ہمہ جہت تب ہی ہوتاہے جب وہ والدین کا فرمانبردار ،بیوی کے لئے مخلص ہمسفر، بچوں کے لئے شفیق باپ، بھائی کے لئے ہمدرد، دوست و احباب کا غمگسار ،اپنے وطن سے اپنی مادری زبان سے اپنے پیشہ سے محبت کرنے والا ہو یہ تمام خوبیاں واجد اختر صدیقی میں پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ اپنے ہمعصر قلمکاروں پر لکھے ہوئے تمام مضامین اور تبصرہ کو کتاب کی صورت میں منظر عام پر لانے میں جو تکلیفیں اور پریشانیاں آئیں ہونگی، اس کا ذکر کہیں بھی نہیں آئیگا ۔جب کتاب ہاتھ میں ہے تو مصنف اپنے تمام درد و دکھ کو بھول جاتے ہیں کہ اس قدر محنت کس قدر جانفشانی کا کام سر انجام دیا ہے۔ میری نظر میں کتاب لکھنا وچھپوانا کوئی معمولی بات نہیں ہے، یہ تخلیق کار کا سرمایہ حیات ہوتا ہے۔ ایک تخلیق کار اپنی ایک ایک تخلیق کو بہت ہی قدر و قیمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ،وہی قدر و قیمت قارئین سے بھی طلب کرتا ہے۔ یہ جان کر بڑی خوشی ہورہی ہے کہ‘‘نقش تحریر‘‘ کو دنیائے ادب نے خلوص و محبت سے اپنا لیا ہے، عصر حاضر کے شاعروں ،ادیبوں، مصنفوں میں یکساں طور پر مثبت انداز میں اس کی پذیرائی ہورہی ہے ۔اس کتاب کی خوبی یہ بھی ہے کہ اس کو جس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے وہ بھی بہت پرلطف ہے۔ پڑھتے وقت مصنف کی تخیلاتی جدت پوری طرح سے نمایاں ہوتی ہے۔ انہوں نے مضامین کو بھی ابواب کا عنوان دیکراس طرح سے سجایا ہے جیسے کسی میوزیم میں اشیاء کو سجایا جاتا ہے۔ شائقین فن کو اس کے بارے میں سمجھایا بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح واجد اختر صدیقی نے مختلف اخبارات اور رسائل میں چھپے ہوئے ان کے مختلف موضوعات لکھے گئے تبصروں اور تجزیوں کو باب زمان،باب سخن،باب فن،باب ایوان،باب جہاں،باب چمن،باب میزان،باب گمان میں تقسیم کرکے بڑی خوبصورتی سے ترتیب دے کر شامل کیا ہےتاکہ قارئین کی دلچسپی شروع سے آخر تک برقرار رہے۔اس کتاب کا انتساب انہوں نے اپنے استاد محترم ڈاکٹر وحید انجم مرحوم کے نام کیا ہے جو حق بجانب بھی ہے جبکہ عہد حاضر کی معروف شخصیات نے تاثرات قلم بند کئے ہیں۔ پروفیسر مجید بیدار،ڈاکٹر شفیع ایوب،محترم عزیزبلگامی،ڈاکٹر غضنفر اقبال کے نام سرفہرست ہیں ۔’’نقش تحریر‘‘بلا شک و شبہ واجد اخترصدیقی صاحب کی شاہ کار تصنیف ہے جس کے لئے میں ان کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ آئندہ بھی ایسے شاہ کار تصنیفات قلمبند ہوکر منظر عام پر آتے رہیں اوردنیائے ادب اس سے مستفید ہوتی رہے گی۔
رابطہ۔9515605015