گذشتہ مہینے کے اوائل میں برما کی حکومت نے ان کے اوپر روہنگیامسلمانوں پر ظلم و جبر ڈھائے جانے کے الزامات کو ایک سرکاری رپورٹ شائع کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ برما کی آرمی پر عرصہ دراز سے انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہوکر روہنگیا مسلمانوں کے اوپر ناراو اور غیر انسانی سلوک روا رکھنے کی مرتکب ہے۔ اُدھر ریاست رکین میں رہ رہے مقہور وبے کس مسلمانوں پر تازہ حملے شروع کئے گئے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ان حملوں کی تصاویر اور ویڈیوز کافی دل دہلانے والی اور ناقابل دید ہیں ۔ ظلم و جبر اور عذاب عتاب کے یہ مناظر ایک حساس انسان کے لئے اذیت کا باعث بن سکتے ہیں۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ریاست رکین میں میڈیا اہلکاروں کی رسائی پر پابندی ہے جس کی وجہ سے اصل صورت حال کا اندازہ ہونا مشکل ہے۔ تازہ حملوں میں تین ہزار سے زیادہ روہنگیا مسلمانوں کو ابھی تک ہلاک کیا گیا ہے جب کہ ہزارں کی تعداد میں ملک سے بھاگ کھڑے ہو کر بنگلہ دیش کی سرحد پر رُکے پڑے ہیں۔ ان مہاجرین کو بنگلہ دیشی حکومت اندر آنے کی اجازت نہیں دے رہی ۔اب ترکی کے صدر طیب اردگان نے شیخ حسینہ واجد سے اپیل کی ہے کہ ان لٹے پٹے مسلمانوں کو ملک میں آنے دیا جائے اور ان پر جو خرچہ ہوگا وہ ترکی حکومت برداشت کر ے گی ۔
پچھلے کئی سالوں سے برما کی حکومت پر اقوم متحدہ کی طرف سے لگاتار یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ جو سلوک وہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں اس کو انسانیت کے خلاف جرائم(crimes against humanity) اور نسل کشی (ethnic cleansing)سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان واقعات میں اضافہ پچھلے سال دیکھنے کو ملا جب ریاست رکین جہاں روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت قیام پذ یر ہے میں ظلم و جبر کی نئی داستانیں رقم کی گئیں ۔ رواں سال فروری میںشائع شدہ اسی ادارے کی ایک ذیلی شاخ برائے انسانی حقوق کی ایک رپورٹ میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت ِزار پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا کہ مذکورہ مسلمانوں کے اوپر اجتمائی عصمت دری، جنسی تشدد،انسانی اسمگلنگ، مکینوں کی بے دردی سے پٹائی، لوٹ کھسوٹ، مکانوں کی آتش زنی اور عام لوگوں کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کی ماردھاڑ کے واقعات کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کے مزید نقل مکانی کے دوران دوسرے ملکوں کا سفر کرنے کے لئے سمندری راستوں کا جان لیوا کام مجبوراََ اپنا تے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں یہ اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس پسِ منظر میںاس سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سالــ" روہنگیا ملی ٹنٹوں" نے بارڈر پر برمیز آرمی (Burmese Army)کے نو(۹) جوانوں کو مارا تھا، جس کے بعد یہ تاثر دیا گیا کہ آرمی جنسی تشدد، لوگوں کو براہ راست مار گرنا اور ان کے مکانوں کو نذرِ آتش کرنے میں ملو ث ہے۔چنانچہ اسی سال اقوامِ متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کے اوپر ڈھائے جارہے ظلم و جبر کی انتہا کو دیکھتے ہوئے ا س سے انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی سے تعبیر کیا تھا۔ جس کے پسِ منظر میں اقوام متحدہ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے کر اس سے برما بھیجنے کی سفارش کی تھی، لیکن برما کی حکومت نے اس کمیٹی کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے برما میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ۔ برما کی حکومت کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ نے برما میں رہ رہے روہنگیا مسلمانوں کی مناسبت سے اپنی رپورٹ میں حد سے زیادہ مبالغہ آرائی سے کا م لیا ہے۔ قرین قیاس ہے کہ اسی سرکاری رپورٹ کو سندِ جواز بخشتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں پر سرکاری طور پر جان لیوا اور بہیمانہ قتل کے وار کئے جارہے ہیں۔
رکین تحقیقاتی کمیشن کی پورٹ جاری کرنے کی تقریب میں نائب صدر میانٹ سیو(Myint Swe) جو کہ ایک سابق فوجی جنرل بھی رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ " انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے الزامات جو ان پر لگائے گئے ہیں کے کوئی شواہد ہیں نہ کوئی ثبوت، جیسا کہ اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیرون ملک سے یہاں کے حالات و واقعات کو توڑ مروڈ کر پیش کیا جاتا ہے، بس وہی میڈیا کی رپورٹنگ ایک سبب ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر کوئی جبرو تشدد کیا جارہا ہے۔ حکومتی کمیشن کے مطابق انہیں روہنگیا مسلمانوں کی طرف سے اکیس (۲۱) شکایتیںموصول ہوئی ہیں جن میں سکورٹی فورسز پر قتل، ریپ، لوٹ کھسوٹ اور تشدد کا الزام لگایا گیا ہے لیکن کوئی بھی ثبوت اس چیز کی دلالت نہیں کر رہا ہے کہ واقعی ایسا ہی ہوا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ روہنگیا مسلمان برما میں اندروں ملک خلفشار اٹھانے کے در پر ہیں۔
انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے اس حکومتی کمیشن پر اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میںکسی غیر جانبداری کا پہلو ہی نہیں ہے، تحقیقاتی اصولوں و طور طریقوں کا پاس و لحاظ ہی نہیں رکھا گیا ہے اور اس کی کوئی حیثیت(credibility) ہی نہیں ہے کیونکہ اس میں کسی خود مختار یا کسی آزاد کمیٹی کا شائبہ تک نہیں ے۔ اس کے مزید ناقدین کا کہنا ہے کہ رپورٹ بذاتِ خود مشتبہ ہے کیوں کہ جس طریقے سے رپورٹ میں حالات کی عکاسی کی گئی ہے وہ زمینی صورتحال سے میل ہی نہیں کھاتی ۔ روہنگیا مسلمانوں کی کسمپرسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے ملک برما کی ریاست رکین میں نہ ہی انہیں کوئی شہریت حاصل ہے ،نہ ہی انہیں کسی سرکاری مراعات سے مستفید کیا جاتا ہے اور بیرون ملکوں میں پناہ لیے انہیں نہ ہی کوئی تشخص حاصل ہے نہ ہی کسی سرکاری یا غیر سرکاری ایجنسیوں سے کوئی معاونت کی جاتی ہے۔ بلکہ الٹا انہیں آج کل بیرون ملکوں میں بھی سخت عذاب و عتاب کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اسی دوران وہاں برما کی حکومت کی جانب سے رپورٹ جاری ہونے کی ہی دیر تھی یہاںبھارت میں اپنے جانوں کی حفاظت کیے بیٹھے ہزاروں روہنگیا پناہ گزینوں کو یہ دھمکی موصول ہوئی کہ وہ اپنا بوریا بسترہ باندھ کر بھارت چھوڑ دے۔ اپنے تند وتلخ لہجے کے لئے مانے جارہے جو نیئر مرکزی وزیر داخلہ کرن ریجو (Kiren Rijiju) نے۹؍اگست کو راجیہ سبھا میں اس بات کی جان کاری دی کہ تقریباََ چالیس ہزار کے قریب بھارت میںپناہ لئے رو ہنگیا مسلمان" غیر قانونی "طور پر قیام پذیر ہیں ،جن میں سب سے زیادہ ریاست جموں و کشمیر میں اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اقوام متحدہ کی طرف سے رجسٹر ڈہیں اور حکومت انہیں ملک سے باہر نکالنے کی سوچ رہی ہے۔ اس دوران انہوں نے تمام ریاستوں کو ہدایت دی کہ وہ تمام غیر قانونی طور پر رہ رہے پناہ گزینوں کوجلد باہر کرنے کے لئے ہر ضلع میں ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لائے ۔ کرن ریجو کے مطابق بھارت اس معاہدے کادستخط کنندہ نہیں ہے جس کے مطابق دنیا بھر میں پناہ گزینوں کو کسی بھی ملک میں اپنے جان و مال کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف بھارت اپنے منصوبے کو روبہ عمل کی خاطر سفارتی سطح پر اپنی تیاریاں کررہا ہے۔ واضح رہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر تازہ حملوں کے ردِ عمل میں بھارت نے برما کی پیٹھ تھپتھپانے میں کوئی دیر نہیں کی ہے۔ اس دوران بھارت میں اقوام متحدہ کے آفس برائے پناہ گزین کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کو کسی بھی ملک سے جبری طور پر نکال باہر نہیں کیا جاسکتا اور انہیں ایسی حالت میں چھوڑ دینا جہاں انہیںجان و مال کا خطرہ ہو ، ایک تسلیم شدہ بین ال قوامی روایتی قانون ہے جس کی پاسداری کرنا بذاتِ خود ہر ملک کا فرض ہے، چاہے اس نے اس معاہدے پر دستخط کئے ہوں یا نہیں۔ عالمی اعلامیہ برائے انسانی حقوق (Universal Declaration of Human Rights)1948ء کی دفعہ ۱۴ کے مطابق یہ ہر ایک انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی جان کا تحفظ حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے ملک میں پناہ لے سکتا ہے۔ اُدھر حیدر آباد میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کا دعویٰ ہے کہ بھارت میں روہنگیا پناہ گزینوں کی کل تعداد سولہ ہزار (۱۶۰۰۰) سے زیادہ نہیں ہے اور وہ یہا ں غیر قانونی طور پر نہیں رہ رہے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق پناہ گزینوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حکومتی سطح پر دھمکی آمیز بیان کے ردِ عمل میں روہنگیا مسلمانوں نے اپنی بے بسی اور لاچاری کا سیدھا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سے باہر نکالنے کے بجائے ہمیں یہی مار دیا جائے۔
دنیا بھر میں در در کی ٹھوکریںکھا رہے روہنگیا پنا ہ گزین مسلمانوں پر ستم بالائے ستم کہ ایک اور جانب سے ایک غیر سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق ملیشیا اور تھائی لینڈ نے بھی ان بے کس وبے نواپر قافیۂ حیات تنگ کیا ہواہے اور کسی بھی برمی پناہ گزین کا ان ملکوں میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔غرض ْبشمول بھارت ان ممالک میں روہنگیا مسلمانوں کی زندگی" آگے کھائی پیچھے کنواں" کا عکس ِآئینہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے اپنے ملک میں رہنا جیسے انگاروں پر پا بر ہنہ چلنے کے مترادف ہے اور اس ظلم وجبر سے بچنے کے لئے اگروہ وطن سے راہ فرار اختیار کر کے کسی بیرونی ملک میں اپنے مال و جان کی خاطر پناہ لییں تو وہ بھی غیر قانونی ٹھہرے،یہ صورت حال ان بے خانماں لوگوں کے لئے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مانند ہوگئی ہے ۔
کہاجاتاہے کہ بھارت کو روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے باہر کرنے میں دو اہم اور بڑی د شواریاں پیش آرہی ہیں۔ اول ایسا کرنے سے اس کی ساکھ بین الاقوامی سطح پر خراب ہو سکتی ہے کیوں کہ چالیس ہزار کے قریب لوگوں کو دیس باہر نکالنا ایک عالمی انسانی بحران کھڑا ہونے کا سبب بن سکتا ہے ۔ددم اس معاملے میں حقوق انسانی کی تنظیمیں اور انجمنیں متحرک ہو سکتی ہیں جو بھارت کے لئے مشکل بن سکتی ہے۔ ان ہی دو مصلحتوں کے مد نظر ایک اہم پیش رفت کے طور پر بھارت نے بنگلہ دیش اور برما کی حکومتوں سے بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع کیا ہواہے لیکن ابھی تک اس میںاُ س سے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
اس ساری گھمبیر صورت احوال سے جو بات مترشح ہو تی ہے کہ روہنگیا ئی لوگ فلسطین و شام اور وطن عزیز کے مسلمانوں کی طرح اپنی مسلمانیت کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ عالمی برادری کی مسلم مسائل کے تئیں بے ا عتنائی کاحال بھی کچھ کم خون کھول دینے والی نہیں۔ اگر یہی مسئلہ کسی اور طبقے یا مذہبی فرقے کے ساتھ پیش آیا ہوا ہوتا تو پتہ نہیں کتنے ملکوں اور کتنی ایجنسیوں نے اس پر اپنی فکر وتشویش کا ظہار کیا ہوتا ، کتنوں نے متاثرین کے لئے اپنے دل اور گھر کے دروازے کھول دئے ہوتے۔ افسوس کہ مسلمانوں کے ساتھ عالمی برادری کی یہ روش نہیں۔بہرصورت ہمارے واسطے من حیث الامت یہ امر کسی المیے سے کم نہیں کہ ہم خود کو کلمہ توحید کی بنیادپر یکتائی کے رشتے میں پرو کر اپنی ساکھ قائم نہیں کر تے بلکہ بھانت بھانت کی بولیاں بول کر عالم کفر کے زاغ وزغن کو اپنے اوپر پل پڑنے کا موقع دیتے ہیں جب کہ ہماری اپنی صفوں میںا تنا انتشار پھیلا ہوا ہے کہ ہمارے مشترکہ دشمن کو ہمارے خاتمے کے لئے نہ کسی زیادہ کارروائی کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے اور نہ ہمیں ہرانے کے لئے اپنی کوئی قربانی دینی پڑرہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ دنیا بھر میںمسلم اقوام وممالک پس رہے ہیں ۔ وقت کا اولین تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے مشترکہ دشمن کے عزائم اور اس کی ریشہ دوانیوں کو بھر پور انداز میں جان لیں بلکہ بہ حیثیت امت اپنے فرضِ منصبی کو سمجھ کر کو قرآن وسنت یعنی "حبل اللہ" کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیں اور اللہ تعالیٰ کی نصر ت و اقتدار کے اہل بن جائیں۔ یہ ہوا تو برما سے لے شام تک ، فلسطین سے لے کر سری نگر تک المیوں کا پھیلاؤ عالم ا سلام کی تاریخ میںقصہ ٔ پارینہ ہوگا ۔ برما کے روہنگیا مسلمانوں کے جان لیوا اور غم ناک مسئلے کا حل اسی جاگرتی یا رجوع الیٰ الاسلام میں مخفی ہے ۔
رابطہ:9622939998
٭ای میل:[email protected]