انسان اس دنیا میں جب آتا ہے تو فطرت لے کر آتا ہے،جسے قرآن حکیم ’’فطرت اللہ‘‘ قرار دیتا ہے،ازروئے الفاظِ قرآنی:’’قائم ہوجائیں اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے‘‘(الروم۔۳۰)
یہی حقیقت حدیثِ پاک میں بایں الفاظ میں بیان کی گئی ہے: ’’(نسل انسانی کا) ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے،لیکن یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی،نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں‘‘(بخاری)
اس فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ کی معرفت اور محبت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے لیکن اندھا دھند دنیوی محبت میں مبتلا ہوکر اس فطرت میں کجی آکر بالآخر یہ بے راہ روی(Perversion) کا شکار ہوجاتی ہے۔زنگ آلود ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں مفقود ہو جاتی ہیں اور انسان ایک حیوان نما جانور کی شکل اختیار کر کے اپنے دن رات کاٹنے میں ہی مصروف رہتا ہے۔کبھی کبھار جونہی یہ سوئی ہوئی فطرت کسی ’’مردِ حُر‘‘ کی آواز سن لیتی ہے تو آناً فاناً یہ ہوش میں آکر اپنے محبوب کی تلاش میں لگ جاتی ہے۔’’مردِ حُر‘‘ اس کے سامنے قرآنِ پاک کا خزانہ رکھتا ہے کیونکہ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید فطرتِ انسانی کو اپنا مخاطب ٹھہراتا ہے۔یہ کتابِ عزیز فطرتِ انسانی کی آواز ہے۔دین ِ اسلام فطرت سے بغاوت کا نہیں،ہم آہنگی کا نام ہے۔قرآنِ پاک ’’ایمان ‘‘کی شکل میں اس کے اندر داخل ہوکر اس کی کایا ہی پلٹنے کی پُلاننگ میں ہوتا ہے۔ایمان کی شعاعیں جب اس انسان کی جذبات تک پہنچتی ہیں تو ان میں ہلچل پیدا کر دیتی ہیں اور جب عزم و ارادہ پر اس کی کرنیں پڑتی ہیں تو ان میں حرکت و عمل جاگ اُٹھتا ہے۔اس کا حملہ جذبات پر ایسا ہوتا ہے کہ دل پگھلنے لگتا ہے،انسان کو ایسی روشنی ہاتھ آتی ہے کہ روح کی گہرائیاں منور ہو جاتی ہیں اور اس کے رخساروں پر خود بخود آنسو بہنے لگتے ہیں۔انسان کو اندر سے’’تبدیلی‘‘ کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں اور اسے اپنے اصلاح کی فکر پڑتی ہے۔وہ سوچتا ہے کہ زندگی ویسے ہی گزری جا رہی ہے،نفس کی اصلاح ہونی چاہئیے،اپنے اعمال و اخلاق کی اصلاح ہونی چاہئیے۔اس عزمِ مصمم کا جوں ہی شیطان کو اطلاع ملتی ہے تو وہ اسے’’فرصت ‘‘آنے کی تجویز پیش کرتا ہے۔انسان بھی اس کے خوشنما فریبوں کے جال میں پھنس کر یہی پُلان کر بیٹھتا ہے کہ فرصت آنے پر ہی میں اس کام کو شروع کردوں گا اور کہتا ہے کہ جب ہی میں فلانی کام سے فارغ ہو جائوں گا تو میں پھر سارا وقت اپنی ’’اصلاح ‘‘کے لئے عملی تدابیر اختیار کرنے میں صرف کروں گا۔لیکن انسان فرصت کے انتظار میں عمرِ عزیز کے قیمتی لمحات ضائع کر بیٹھتا ہے اور پھر وہ فرصت کبھی اس کو ملتی ہی نہیں۔کام کرنے کا بہترین گُر یہی ہے کہ دل میں اس کا داعیہ پیدا ہوتے ہی اس کو فوراً عملی جامہ پہنایا جائے ورنہ شیطان فرصت کے انتظار اور کاموں سے فراغت کے خوشنما خوابوں میں رکھ کر عموماً دھوکہ دیتا رہتا ہے۔مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے اس حوالے سے بڑے پتے کی بات کہی ہے:
’’جو کام فرصت کے انتظار میں ٹال دیا،وہ ٹل گیا،وہ پھر نہیں ہوگا۔اس واسطے کہ تم نے اس کو ٹال دیا۔کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو کاموں کے درمیان تیسرے کام کو گُھسادو،یعنی وہ دو کام جو تم پہلے سے کر رہے ہو،اب تیسرا کام کرنے کا خیال آیاتو ان دو کاموں کے درمیان تیسرے کام کو زبردستی گُھسادو،وہ تیسرا کام بھی ہو جائے گااور اگر یہ سوچا کہ ان دو کاموں سے فارغ ہو کر پھر تیسرا کام کریں گے تو پھر وہ کام نہیں ہوگا۔یہ منصوبے اور پُلان بنانا کہ جب یہ کام ہو جائے گا پھر کام کریں گے،یہ سب ٹالنے والی باتیں ہیں،شیطان عموماً اسی طرح دھوکہ میں رکھتا ہے‘‘۔
شیطان اس بات سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ انسان کے لئے وقت ہی زندگی ہے اور وہ اس کے دل میں وساوس ڈال کر’’ٹال مٹول یا مؤخر‘‘ کی پیکج دے کر اسے قیمتی سرمایہ سے محروم کر دیتا ہے۔انسان کو کیا خبر کہ ٹال مٹول یا مؤخر کا رویہ انسانی زندگی کی ترقی کی راہ میں وہی کردار ادا کرتا ہے،جو عام صحت کی راہ میں کینسر اور تپ دق کی بیماری کرتی ہے۔ان چیزوں سے انسان کی ترقی کی راہ مسدود ہوجاتی ہے اور پھر اسے تنزل کا راستہ اختیار کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ رفتہ رفتہ ان چیزوں کا شکار ہوکر انسان ایک نئی سمت میں محوِ سفر ہو جاتا ہے اور شیاطین پھر اسے گمراہی میں کھینچے چلے جاتے ہیں۔لیکن تقوٰی شعار لوگ شیطان کی اکساہٹوں کو محسوس کرتے ہی چوکنا ہو جاتے ہیں اور اس کے دامِ فریب میں آنے کے بجائے یکایک اللہ کی یاد میں لگ جاتے ہیں۔قرآنِ پاک نے اس چیز کا تذکرہ بایں طور پر ان الفاظ میں کیا ہے:
’’اور اگر آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجیے، بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔یقیناً جو لوگ خداترس ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی خطرہ آتا ہے تو وہ یادِ خدا میں لگ جاتے ہیں،سو یکایک ان کی آنکھیں کُھل جاتی ہیں اور جو لوگ شیاطین کے تابع ہیں وہ انکو گمراہی میں کھینچے چلے جاتے جاتےہیں پس وہ باز نہیں آتے‘‘۔ (الاعراف:202-200)
مذکورہ آیت کے حوالے سے تقوٰی شعار لوگ ہی شیاطین سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ان لوگوں پر ہر وقت اللہ کے خوف کا غلبہ ہوتا ہے۔یہ لوگ ہر سوچ اور عمل سے پہلے اللہ کی شریعت اور اس کی رضا کو نگاہوں کے سامنے رکھتے ہیں،جو انہیں نفسانیت کا شکار نہیں ہونے دیتا۔’’تقوٰی‘‘ انہیں زندگی کی قیمت سے باور کراتا ہے اور اس کی بدولت ہی وہ ایک سیکنڈ بھی ضائع کرنا گوارا نہیں کرتے ہیں۔یہ لوگ اپنے آپ پر جبر کرکے ٹال مٹول کو خیرباد کہہ کے’’ابھی اور فوراً‘‘ کا فارمولا اپناتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔یہ لوگ خوش کُن خوابیں دیکھنے کے بجائے ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنا خونِ جگر تک جلاتے ہیں۔یہ لوگ ایمان اور تقوٰی کے بدولت ہی شیطان کو قابو کرتے ہیں اور قلیل وقت میں ایسا کارنامہ انجام دیتے ہیں کہ لوگوں کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔یہ لوگ جذباتیت کے بجائے مستقل مزاجی سے اپنے کام کی تکمیل کرتے ہیں۔حق و باطل کے معرکے میں جب جذبات برانگيختہ ہونے لگتے ہیں تو جوابی کاروائی کے بجائے یہ لوگ صبر کے دامن کو مضبوطی سے تھام لےکر اپنا راستہ لیتے ہیں۔یہ لوگ مدحوشی کی حالت میں چلنے کے بجائے آنکھیں کھول کر راستے پر چلتے ہیں۔جب شیطان کی طرف سے کوئی بھی دعوت ان کے سامنے آجاتی ہے تو یہ لوگ چوکنا ہوکر مقابلہ کے لیے سامنے آتے ہیں۔یہ لوگ ہر لمحہ اور ہر آن سانپ کی طرح ہوشیار رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شیطان کو قلع قمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔یہ لوگ نہ باطل سے دبتے ہیں اور نہ ہی ان کی مراعات کو قبول کرکے اپنے’’ایمان وضمیر‘‘کو بیچ ڈالتے ہیں۔یہ لوگ کرائے کے سپاہی بننے کے بجائے رب کے سپاہی بننے پر فخر کرتے ہیں۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی یہ لوگ اپنی دعوت کا کام جاری و ساری رکھتے ہیں۔یہ لوگ اپنے آپ کو تنہا سمجھنے کے بجائے ایک انجمن تصور کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مایوسی انکے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔
شیطان جب کبھی انہیں جذبات سے برانگيختہ کردیتا ہے تو ان کی عقل و دانش پر جو غبار پڑ جاتا ہے وہ فوراً اللہ کی یاد سے چھٹ جاتا ہے اور انہیں روزِ روشن کی طرح اپنا راستہ دکھائی دینے لگتا ہے۔یہ لوگ شیطان کی ترغیبات سے نہ اپنا راستہ بدل دیتے ہیں اور نہ ہی آزمائشوں کے نہ تھمنے والے سلسلے کی وجہ سے حق کے راستے پر اپنی رفتار کو کم کردیتے ہیں۔یہ لوگ رب سے مناجات کرتے وقت اس حد تک عشقِ حقیقی میں ڈوب جاتے ہیں کہ اپنی حاجات تک بُھول جاتے ہیں۔دنیوی زندگی کے ایک ایک لمحہ کو یہ غنیمت جان کر اپنا زادِ راہ جمع کرنے میں ہی مصروف رہتے ہیں اور ہمیشہ اللہ کے فضل کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں۔اللہ رب العزت کے سامنے دُنیوی زندگی کے ایک ایک پل کے حساب دینے کا انہیں اس حد تک احساس ہوتا ہے کہ اپنی راتوں کی نیندیں تک حرام کر بیٹھتے ہیں۔دُنیوی زندگی کو امتحان گاہ تصور کرتے ہوئے اپنا پرچہ مکمل حل کرنے تک گردن اٹھانا بھی گوارا نہیں کرتے ہیں۔یہی وہ راہِ حق کے مسافر ہوتے ہیں جو دنیوی زندگی کو قیمتی جان کر اس میں غلبہ دین کے لئے انتھک جدوجہد کرتے کرتے یہاں سے نکل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جنت میں انہیں ایسی میزبانی سے نوازا جائے گا کہ دنیا میں انہوں نے اس کا تصور بھی نہ کیا ہوا ہوگا۔اس منظر کو دیکھ کر یہ لوگ محوِ حیرت میں چلیں گے تو انہیں کہا جائے گا:’’بیشک یہ ہے تمہارے عمل کا صلہ، اور تمہاری کارگزاری مقبول ٹھہری ہے‘‘(الدھر:22)
انہوں نے دنیوی زندگی میں شیطان کی چالوں اور فریبوں کو خوب سمجھ کر پھونک پھونک کر قدم ڈالا تھا ۔وہ اپنے وجود پر اُس کا تسلط نہ جمنے کے لیے ایمان اور توکل سے وار کرنے میں ہی کامیاب ہوئے تھے۔اسکے برعکس دنیا میں اسکا زور تو انہیں پر چلا تھا، جو بن دیکھے اسے اپنا سرپرست بنانے لگے تھے اور شرک کے مرتکب ہوئے تھے۔قرآنِ پاک نے ان دونوں طبقوں کی تصویر کو ان الفاظ میں بے نقاب کر دیا ہے:
’’بیشک اس کا ان لوگوں پر کچھ بھی زور نہیں چلتا جو ایمان لائے ہوئے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔اس کا زور صرف انھیں پر چلتا ہے جو اسے دوست رکھتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرانے والے ہیں‘‘۔(النحل:100-99)
مذکورہ کامیاب طبقہ میں اپنے آپ کو داخل کرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ شیطان کی تدبیروں اور چالوں کو سمجھا جائے کیونکہ اس کے حملہ آور ہونے کی تدبیریں اور چالیں نہایت ہی خطرناک ہوتی ہیں۔وہ ہر لمحہ،ہر جگہ اور ہر طرح گھات میں رہتا ہے کہ کس طرح بندہ مومن کو غافل کر ڈالے۔دنیوی زندگی کے ایک ایک لمحہ کو غنیمت جان کر آخرت کی تیاری میں لگنے میں ہی مومن کی شان ہے اور اپنے اس ازلی اور ابدی دشمن سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ پر بار بار حاضری دے کر ان الفاظ میں درخواست گزار ہونا چاہئیے:’’ اے رب ! میں شیاطین کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں، اے میرے رب ! اس بات سے کہ وہ میرے پاس آئیں‘‘۔