بے شک جس انسان میں نیکی اور بھلائی کا جذبہ نہ ہو، وہ شائستہ نہیں کہلاتا اور جس زندگی میںکوئی نیکی اور بھلائی نہ ہو ،وہ زندگی بے کار ہے۔ظاہر ہے کہ دنیا میں محبت ، اخوت، نیکی اور بھلائی کرنے کے برابر اور کوئی کام نہیں ہےاوراِنہی اوصاف میں روحانی اور جسمانی راحت کا ساما ن پوشیدہ ہے۔ کیونکہ نیکی جہاں انسانیت کا سب سے بڑا زیور ہے وہیں بھلائی انسان کی روح میں بسی ہوئی خوشبو ہےاور اسی وجہ سے انسان اشرف کہلاتا ہے۔ انسان میں احسان کا جذبہ قدرت نے ہی پیدا کیا اوراس کی تعلیم دی ہے۔ خدا کے بندوں کے ساتھ نیکی و بھلائی کرنے والا انسان خدا کو پسند ہے اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جو لوگ ایک دوسرے سے محبت و اخوت رکھتے ہیں ،نیکی اور بھلائی کرتے ہیں،وہ خدا کے دوست ہیںاور جوکوئی اپنی نیکیوں پر مغرور ہوا،اُس کےلئے بُربادی ہے۔لوگوں کے لئےاپنی زندگی احسن طریقے سے گزارنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ اپنے اشرف ہونے کے وصف اور احکامات خداوندی کی پیروی سے غافل رہے تو وہ خسارے میں ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ ہمارا خالق کون ہےاور ہمیں پیدا کرنے میںاُس کا کیا مقصد ہے؟اس لئے ہم لوگوں کے لئے مناسب ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور بھلائی کریںاور یہ بات ذہن میں بٹھائیں کہ انسان اور معاشرت کی بنیاد باہمی اشتراک اور تعاون پرقائم ہے۔ دنیا کا ہر انسان ایک دوسرے کی مدد کا محتاج اور ایک دوسرے کے تعاون اورمدد پر ہی اس کی زندگی کا انحصار ہے۔ اگر ایک انسان بھوکا ہے تو دوسرے انسان کا حق ہے کہ اپنے کھانے میں اسے بھی شریک کرے۔ اگر ایک بیمار ہے تو دوسرا اس کی عیادت و تیمارداری کرے، اگر ایک کسی آفت ومصیبت کا شکار ہو اور کسی رنج و غم میں مبتلا ہو تو دوسرا اس کا دست وبازو بنے اور اس کے رنج وغم کا مداوا کرے۔ اس اخلاقی نظام کے ساتھ انسان کی ساری آبادی باہمی اخوت ومحبت اور حقوق کی ذمہ داریوں کے بندھن میں بندھ کر اتحاد و یکجہتی کا مظہر بن جاتی ہے۔ اگرچہ انسان بظاہر جسمانی اور روحانی حیثیت سے ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہے لیکن اخلاقی و روحانی لحاظ سے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے سے گھلا ملا ہو ،گویا ایک کا وجود دوسرے کے وجود سے پیوستہ ہوتا ہے۔ہر مذہب ایک دوسرے کے ساتھ اخوت،محبت اور انسانیت کا درس دیتا ہے، خدا کے بندوں سے پیار کرنے کی تلقین کرتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ مل جل کر رہواور اُن کے دُکھ درد میں شریک ہوجائو۔اسی طرح ایک دوسرے کوعلم سکھانا بھی بہترین عمل اور لازوال ترقی کا باعث ہوتاہےجبکہ ہمسائیگی اور پڑوس میں اس عمل کو بڑی عظمت ہے ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ کسی اناج کے دانے کو ایک چیونٹی کا پا کر دوسری چیونٹیوں کو جمع کر لینا یہ سب باتیں بتا رہی ہیں کہ محبت ،اخوت اورہمدردی بنی نوح انسان کے علاوہ نوع حیوانی میں بھی کام کر رہی ہے۔ ہمدردی انسان کے لئے اس لئے بھی ضروری ہے کہ دنیا کا نظام درہم اور برہم نہ ہونے پائے۔ کیونکہ انسان اپنی ضروریات میں اپنے دوسرے بھائیوں کا محتاج ہے۔ اس کے بغیر دنیا کا کوئی کام نہیں چل سکتا۔ پس اگر انسان نہ ہو تو یہ سارا کارخانہ بدنظمی کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو جائے گا۔بحیثیت مسلمان ہمیںمذہب میں بھی تاکید کے ساتھ ایک دوسرے سے محبت،اخوت،نیکی اور بھلائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مذہبی کتابوں میں ایک دوسرے کی مدد کے بارے میں بہت کچھ بتایا گیا ہے۔ یوں تو نیکی اور بھلائی ہر انسان کے دل میں موجود ہو، مگر امیر اور صاحبِ ثروت لوگوں کے دلوں میں اس جذبے کا ہونا بہت ضروری ہے۔ صحت عامہ، غریبوں کی امداد، بیواؤں کی خبر گیری، معذور لوگوں کی مدد، تباہ حال لوگوں کی بحالی غرض ان لوگوں کی ہمدردیاں معاشرہ اور ملت کی ترقی اور بہبودی میں بڑا زبردست دخل رکھتی ہیں۔اس لئے وہی انسان، انسان کہنے کے لائق ہے جس کے دل میں دوسرے انسان کے لئے نیکی اور بھلائی ہو۔اگر ہم نیک اور بھلے ہیں تو ساری دنیا ہمارے لئے بھلی ہے کیونکہ نیکی اور بھلائی کی خواہش بُرائی کی طاقت کو دَبا دیتی ہے اور اس بُری دنیا میں نیکی اور بھلائی دور دور تک چمک سکتی ہے۔