عظمیٰ نیوزڈیسک
کٹھمنڈو//نیپال میں سوشل میڈیا ایپس پر عائد پابندی کے خلاف ہزاروں نوجوان سڑکوں پر نکل کر ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہیں۔ ان نوجوانوں نے راجدھانی کاٹھمنڈو سمیت کئی شہروں میں پْرتشدد مظاہرہ شروع کر دیا ہے، جس کے خوفناک مناظر سامنے آ رہے ہیں۔ جگہ جگہ آگ زنی اور توڑ پھوڑ کی گئی ہے، ساتھ ہی فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ سینکڑوں نوجوانوں نے پارلیمنٹ کے اندر گھس کر اپنی ناراضگی کا مظاہرہ کیا اور پارلیمنٹ کے گیٹ کو آگ کے حوالے کر دیا۔ اس واقعہ کی کچھ ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں۔اس وقت نیپال میں حالات انتہائی کشیدہ بتائے جا رہے ہیں۔ مظاہرین کی بھیڑ کو قابو میں کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کے گولے چھوڑے اور واٹر کینن کا بھی استعمال کیا گیا، لیکن مظاہرہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ پولیس فائرنگ کے دوران 16 مظاہرین کی موت بھی ہو چکی ہے اور 100 سے زائد مظاہرین کے زخمی ہونے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد آنے والے وقت میں بڑھ سکتی ہے۔موصولہ اطلاع کے مطابق کاٹھمنڈو کے کئی علاقوں میں کرفیو پہلے ہی نافذ کر دیا گیا ہے۔ مظاہرین کی ناراضگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے صدر، نائب صدر اور وزیر اعظم کی رہائش کے قریب فوج کی تعیناتی بھی کر دی گئی ہے، تاکہ مظاہرین اندر داخل نہ ہو سکیں۔ تقریباً 15 ہزار مظاہرین پارلیمنٹ ہائوس کے قریب موجود بتائے جا رہے ہیں اور یہاں خوب ہنگامہ والا ماحول پیدا ہو چکا ہے۔ سنٹرل سکریٹریٹ کے پاس بھی بڑی تعداد میں مظاہرین موجود ہیں۔ کاٹھمنڈو کے چیف ضلع افسر کا کہنا ہے کہ اگر حالات مزید بگڑتے ہیں تو سیکورٹی فورسز کو عوامی ملکیت کی حفاظت کے لیے ربر کی گولیاں چلانے پڑیں گی، اور اس سے متعلق اجازت بھی سیکورٹی فورسز کو دے دی گئی ہے۔اس درمیان نیپال کے وزیر اعظم کے پی اولی نے نوجوانوں کے وفد سے بات چیت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے وفد کو ملاقات کے لیے بلایا ہے۔ ساتھ ہی اولی کابینہ نے آج شام 6 بجے ایمرجنسی میٹنگ بھی طلب کی ہے۔ اس میٹنگ میں کوئی نتیجہ خیز فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔ تشدد کے بعد حکومت پر یہ دبائو بن رہا ہے کہ سوشل میڈیا سے متعلق عائد کردہ پابندی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ نیپال حکومت کے وزیر کھیل سنتوش پانڈے کا یہ بیان بھی سامنے آ چکا ہے کہ حکومت نوجوانوں کے مطالبات پر غور کرے گی۔واضح رہے کہ مظاہرین کا غصہ صرف سوشل میڈیا پر عائد پابندی کو لے کر ہی نہیں ہے، بلکہ وہ بے روزگاری، بدعنوانی اور معاشی بحران کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ وراٹ نگر، بھرت پور اور پوکھرا میں مظاہرہ کر رہے نوجوان اس بارے میں کھل کر باتیں کر رہے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ جو لوگ فیس بک یا انسٹاگرام کے ذریعہ سامان فروخت کرتے تھے، ان کا بزنس پوری طرح سے ٹھپ پڑ گیا ہے۔ یوٹیوب اور گٹ ہب جیسے پلیٹ فارم نہیں چلنے سے بچوں کی پڑھائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ بیرون ممالک میں رہنے والے لوگوں سے بات کرنا بھی مہنگا اور مشکل ہو گیا ہے۔