سرینگر //اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پراتوار کو کشمیریوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ دفتر کے باہر پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا۔اس موقعہ پر لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک نے ویڈیو لنک کے ذریعے سے مظاہرین سے خطاب کیا۔ملک نے کہا’’ 26اکتوبر 1947کو بھارتی افواج سری نگر کے ائیر پورٹ پر اُتر یں اور ہماری سرزمین کو دوٹکڑوں میں بانٹتے ہوئے ایک خونی سرخ لکیر کھینچی گئی جسے جنگ بندی لائن کانام دیا گیا۔ کشمیریوں نے اس جبری فوجی قبضے کی مزاحمت کی اور خود بھارت بھی اقوام متحدہ پہنچا جہاں اُس نے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا آزادنہ استصواب رائے کے زریعے فیصلہ کرنے کا موقع دینے کا عہد کیا بھارتی لیڈران جن میں اس ملک کے پہلے وزیراعظم جواہرلال نہرو قابل ذکر ہیں، نے نہ صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی بلکہ خود بھارتی پارلیمان اور سری نگر کے لال چوک میں کھڑے ہو کر کشمیریوں کے ساتھ ان وعد وں کو دہرایا ۔ افسوس !یہ وعدے آج تک ایفانہ ہوئے ۔ آج ہم کشمیریوں کو انہی وعدوں کے پورا کرنے کی مانگ کرنے پر قتل کیا جارہاہے، زخمی ،اندھااور بے کاربنایا جارہاہے، قیدوبند میں ڈالا جارہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پرذلیل ورسواکرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا ہے۔ آج ہمیں اس لئے مارا جارہاہے کیونکہ ہم اپنا پیدایشی حق مانگ رہے ہیں۔ ہمارے انسانی حقوق کو کسی بھی مواخذے سے بے خوف ہوکرپائوں تلے روندھا جارہا ہے۔ ہمارے جمہوری حقوق کو پامال کیا جارہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ آپ سبھی اسے عجیب امر سمجھیں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جموں کشمیر میں ہر قسم کی سیاسی مکانیت کو مکمل طور پر مسدود کردیا گیا ہے اور حدیہ ہے کہ ہمیں اپنے مرے ہوئوں پر ماتم کرنے تک سے بھی روکاجارہاہے۔۔ آج کسی کو اُن معصوم بچے اور بچیوں کی کوئی فکر نہیں جن کی آنکھوں کی بینائی کو پیلٹ ،جسے مہذب دنیا میں صرف جانوروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، مار کر سلب کیا گیا ہے‘ جنہیں سیدھے سروں اور چھایتوں پر گولیاں داغ کر بے دردی کے ساتھ مارڈالا جارہا ہے۔ بد قسمتی سے کوئی اس خونین صورت حال پر متفکر نہیں کیونکہ کشمیرجیسی کمزور اور چھوٹی قوم کے انسانی حقوق بڑے بڑے تجارتی معاہدات،معاشی مفادات اور بڑے بھارتی بازار کے مقابلے میں حقیر اور معمولی تصور کیے جارہے ہیں اور قومیں انسانی اقدار کے بجائے اسٹریٹجک مفاہمت اور دفاعی ضرورتوں کے تناظر میں ہی پالیسیاں ترتیب دے رہے ہیں۔عالمی برادری دنیا بھر میں انسانی حقوق، انسانی آزادی کے حق، انسانوں کے امن اور استحکام کے ساتھ رہائش کے حق وغیرہ کے لئے کوشان اور فکر مند رہتی ہے لیکن جموں کشمیر غالباًاس کے عالمی ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہے۔میں یہ سخت الفاظ اسلئے کہنے پر مجبور ہو رہا ہوں کیونکہ میں اور میری قوم آج بد ترین غیرانسانی سلوک کو برداشت کر رہی ہے حالانکہ ہم کو ئی ایسا سوال نہیں کررہے جو ہم سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا ہو۔ ہم جموں کشمیر کے باشندوں کو آج بھی انسانیت اور انسانی اقدار میں یقین ہے۔ ہم آج بھی جمہوریت اور آزادی کے مسلمہ اصولوں میں یقین رکھتے ہیں۔عالمی برادری جاگ جائیںاس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، کھڑے ہو جائیں اُن لوگوں کے لئے کہ جنہیںدبادیاگیاہے،جو مظلوم و مجبور ہیں اور جن کی سرزمین کو کالونی بناکر فوجی تسلط میں لایا گیا ہے۔مظلوم و مجبور کشمیر یوں کے لئے اقوام متحدہ خواہشات کی تکمیل کا منبع ہے۔ہم جموں کشمیر کے عوام آپ سبھی سے اپیل کرتے ہیں کہ اسٹریٹجک شراکت داری ، فوجی پارٹنر شپ،سیکورٹی اور معاشی مفادات پر مبنی اپنی پالسیوں کو تبدیل کریں ۔ آپ تجارت اور سیکورٹی مفادات کا ضرور خیال رکھیں لیکن یہ خیال اور پالیسیاں انسانیت، انسانی اقدر اور انسانی حقوق کے تحفظ کے جذبوں پر غالب نہ آنے پائے۔