مشتاق الاسلام
پلوامہ //کشمیر کی وہ زرخیز زمین جس پر دنیا کا بہترین اور خوشبودار زعفران اگتا ہے، آجکل غیرقانونی کان کنی کی بے رحم مشینوں کے نیچے دم توڑ رہی ہے۔ نیوہ پلوامہ سے وین پانپور تک پھیلے زعفران زار اب کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں، جہاں نہ صرف مقامی کسانوں کی محنت ضائع ہو رہی ہے بلکہ حکومت ہند کے اربوں روپے کے نیشنل زعفران مشن کی ساکھ بھی دا پر لگ چکی ہے۔ وادی کشمیر میں زعفران کی مجموعی کاشت کا رقبہ 3665 ہیکٹر ہے، جن میں سے 3200 ہیکٹر زمین صرف پانپور میں واقع ہے ۔پانپور جو صدیوں سے دنیا بھر میں کشمیری زعفران کا مرکز رہا ہے۔ مگر اب یہی زمین مٹی نکالنے والی بھاری مشینوں کی زد پر ہے اور انتظامیہ کی خاموشی یا چشم پوشی مجرمانہ غفلت سے کم نہیں۔چیف ایگریکلچر افسر پلوامہ وحیدالرحمان نے واضح طور پر اعتراف کیا ہے کہ زعفرانی زمین سے مٹی نکالنا غیرقانونی ہے، خاص طور پر جب حکومت خود ان زمینوں پر نیشنل زعفران مشن کے تحت کروڑوں روپے خرچ کر چکی ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ اس زمین پر زرعی سرگرمیاں جاری تھیں اور اسے بنجر قرار دیناٹھیک نہیں ہے۔ دوسری جانب، ڈسٹرکٹ منرل افسرپلوامہ، ڈاکٹر خورشید احمد ڈار کا دعوی ہے کہ مٹی نکالنے کی اجازت محکمہ مال کی رپورٹ کی بنیاد پر دی گئی۔
ان کے مطابق اگر رپورٹ زرعی پالیسی کے منافی ہے تو محکمہ زراعت کو باقاعدہ اعتراض داخل کرنا چاہیے تھا۔ تاہم تحصیلدار پانپور محمد آصف نے ایک اور زاویہ بیان کیاکہ کہ کسی بھی زرعی زمین سے مٹی نکالنے کے لیے محکمہ زراعت کی این او سی (NOC) لازمی ہوتی ہے، جو یہاں دستیاب نہیں تھی۔بعض ٹھیکے داروں نے متعلقہ محکموں سے ملی بھگت کرکے زرخیز زمین کو بنجر، غیرزرعی یا غیرکارآمد قرار دلوا کر مٹی نکالنے کے اجازت نامے حاصل کیے۔ مقامی کسانوں اور سماجی کارکنوں نے اس پورے عمل کو ایک سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات سی بی آئی کے ذریعے کی جائے تاکہ سچائی سامنے آ سکے۔پانپور کے بزرگ کسان غلام نبی وانی نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ساری زندگی اس زمین کو زرخیز بنانے میں صرف کی، آج ہماری آنکھوں کے سامنے اسے لوٹا جا رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو ہماری آنے والی نسلیں زعفران کو صرف تصویروں میں دیکھیں گی۔کسانوں کا کہنا ہے کہ زمین کی زرخیز بالائی تہہ اب مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ بار بار شکایتوں کے باوجود کسی نے شنوائی نہیں کی۔ زمین کو کھود کھود کر اس کی زرخیزی چھین لی گئی ہے، اور نیشنل زعفران مشن کے تحت جو کروڑوں روپے خرچ کیے گئے تھے، وہ اب ضائع ہو چکے ہیں۔پانپور کے کسان، ماہرین زراعت، سماجی کارکن اور باشعور شہریوںکا کہنا ہے کہ کشمیر کا زعفران صرف ایک فصل نہیں بلکہ ایک ثقافت، ایک پہچان، ایک ورثہ ہے۔ اگر یہ تباہی نہ روکی گئی تو ہم نہ صرف اپنی زرخیز زمین کھو دیں گے، بلکہ وہ شناخت بھی مٹ جائے گی جس پر کشمیری فخر کرتے آئے ہیں۔ن کا کہنا ہے غیرقانونی کان کنی کو فوری بند کیا جائے، ملوث افسروں اور ٹھیکے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے، اور معاملے کی اعلی سطح پر غیرجانبدارانہ تحقیقات ہو۔