بیروت / واشنگٹن//ایران اور امریکہ نے 2015 میں طے پانے والے تاریخی جوہری معاہدے کے نفاذ کے سلسلے میں ایک دوسرے پر الزام لگایا ہے ۔ امریکہ نے ایران پر جوہری معاہدے کے قوانین پر عمل نہ کرنے کا الزام لگایا ہے جبکہ ایران کے سینئر سفارتکار نے امریکہ کو معاہدے کے تحت کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں کوتاہی کا الزام عائد کیا ہے ۔دونوں ممالک کے درمیان تاریخی نیوکلیائی معاہدے پر یہ الزام تراشیوں کا دور امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی جانب سے ایران کے خلاف بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں کی منسوخی کے اقدامات کا جائزہ لینے کے بارے میں امریکی کانگریس کو ایک خط کے ذریعے مطلع کئے جانے کے بعد شروع ہواہے ۔مسٹر ٹلرسن نے اپنے خط میں کہا ہے کہ ایران معاہدے کے دائرے میں جوہری پروگراموں پر تو عمل کر رہا ہے لیکن بہت سے دیگر ذرائع سے خطے میں'اسپانسر دہشت گردی' میں ان کا کردار اہم ہے جس پر بحث کی ضرورت ہے اور اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ واضح ر ہے کہ ویانا میں جولائی 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے تاریخی جوہری معاہدے کے تحت ایران کے خلاف پابندی ہٹانے کا قدم اٹھایا گیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنے خط واضح طورپر ایران کو پڑوسی ممالک میں اشتعال اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے مورد الزام ٹھہرایا ہے ۔ واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس معاہدے پر ایران کے عمل درآمد کے تعلق سے پوچھے جانے پر مسٹر ٹرمپ نے اس معاہدے کو بدترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران اس معاہدے کے ساتھ بد دیانتی سے کام لے رہا ہے ۔ ایران نے نیوکلیائی معاہدے کی روح کے منافی کام کیا ہے ، جو امریکہ کے ناقابل برداشت ہے اور اسی لئے امریکی انتظامیہ انتہائی باریکی سے اس کا جائزہ لے رہی ہے ۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ٹویٹ کرکے کہا کہ امریکہ کو جوہری معاہدے کے تحت کئے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہئے ۔ اس سے پہلے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے قومی سلامتی ایجنسی کو یہ تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا کہ ' جوائنٹ ایکشن پلان' کے تحت ایران سے پابندیاں ہٹانا ملک کی سلامتی کے مفاد میں ہے یا نہیں۔رائٹر