سرینگر//غیر ریاستی صحافیوں کو فوجی و فورسز وردیاں پہننے کا مشورہ دیتے ہوئے لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک نے ایک ٹی وی چینل کی رپورٹر پر زبردستی انکی خواب گاہ میں داخل ہونے کا الزام عائد کیا۔انہوں نے میڈیا کو چیلینج کیاکہ اگر وہ انکے خلاف ذرہ بھر بھی کورپشن ثابت کریں تو وہ مزاحمتی سیاست سے دستبردار ہونگے۔سرینگر میں پارٹی دفتر پر ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لبریشن فرنٹ چیئرمین نے کہا ’’ جمعہ کی صبح اچانک ایک ٹی وی چینل کی خاتون رپورٹر انکے بیڈ روم میں داخل ہوئی،اور ابھی وہ بستر پر اسی مخمصے میں ہی تھے کہ یہ کیسے اندر داخل ہوئی تو مذکورہ خاتون صحافی نے تاپڑ توڑ سوالات کی بوچھاڑ شروع کی‘‘۔ملک نے کہا’’ مذکورہ رپورٹر سے میں نے جب پوچھا کہ وہ اچانک کس طرح انکے کمرے میں داخل ہوئی،تو وہ لاجواب تھی،جبکہ اس رپورٹر نے میری بہن سے بھی غلط کہا تھا کہ وہ باضابطہ طور پر ملاقات کیلئے وقت مانگنے کے بعد آئی ہیں‘‘۔ ملک نے کہا کہ مجھے محسوس ہوا کہ وہ اپنے موبائل سے ویڈیو بنا رہی تھی،جس کے بعد میں نے اس کا موبائل چھین لیا،جس پر اس نے وا ویلا مچا یا۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں تھانے میں انہوں نے رپورٹ بھی درج کرائی ہے۔ ملک نے مذکورہ خاتون صحافی کو بالی ووڑ فلم انڈسٹری میں کام کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ وہاں بہترین ادا کاری کر سکتی ہے۔بیرون ریاست میڈیا پر برستے ہوئے ملک نے کہا ’’ ان صحافیوں کو اب با ضابطہ طور پر فوج اور فورسز کی وردی پہننی چاہیے،کیونکہ فوج جو کام وردی لگا کر کرتی ہے،بیرون ریاستی میڈیا وہ بغیر وردی کے کرتا ہے‘‘۔انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں فوج،فورسز اور پولیس جو زیادتیاں کرتے ہیں،اس میڈیا نے پردہ پوشی کی ہے،اور کشمیر کی’’تحریک آزادی‘‘ کو بدنام کرنے کیلئے جو بھی زہریلا پروپگنڈا انکے پاس ہے،تمام ذرائع استعمال کر کے اس کو ٹی وی چینلوں پر اتارا جا رہا ہے۔ بیرون ریاست میڈیا پر صحافت کی ’’عصمت ریزی‘‘ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے فرنٹ چیئرمین نے کہا کہ کشمیر میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مارا جا رہا ہے،اور اس میڈیا کو بھی رقم کے عوض عمل نظر آتا ہے۔ یاسین ملک نے کہا ’’ حکومت ہند اپنے اسی جانبدار زرخرید میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کررہی ہے کہ کشمیر میں جان بحق ہونے والا بھی 500روپے کیلئے جان دے رہا ہے‘ آنکھوں کی بینائی دینے والا بھی 500 روپے کیلئے اندھا ہورہا ہے ،یہاں کے معصوم طلبہ بھی روپے کی خاطر احتجاج کررہے ہیں جبکہ یہاں کے لیڈر بھی روپے پیسے ہی کیلئے مزاحمت میں برسرپیکار ہیں‘‘۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا’’ ایک طرف بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ ہم نے کشمیر میں سینکڑوں کروڑوں روپے واگزار کئے،اور دوسری طرف نوجوان جدوجہد اور احتجاج کر رہے ہیں،اور اگر سب کچھ رقومات کیلئے ہوتا،تو وہ کروڑوں روپے کشمیری نوجوانوں کو کیوں خرید نہ سکے‘‘۔انہوں نے کہا کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام اپنے حق کیلئے میدان میں ہیں اور انہیں روپے اور زر سے خریدا نہیں جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو گزشتہ برس کشمیری عوام7ماہ کی ہڑتال کر کے ہزاروں کروڑ روپے کا نقصان نہیںاٹھاتی۔حال ہی میں کئے گئے ایک سٹنگ آپریشن پر تبصرہ کرتے ہوئے یاسین ملک نے کہا کہ اس میں موجود لوگ خود اپنی صفائی دیں گے لیکن اس سٹنگ آپریشن کے حوالے سے جس انداز سے کشمیریوں کی تحریک مزاحمت کو بدنا م کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس حوالے سے بات کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سٹنگ آپریشن کرانے والا شخص خود میرے پاس بھی آیا تھا اور مجھے بھی بھارتیوں کی جانب سے رقومات کی پیشکش کی گئی تھی ، میرے پاس ایک شخص آیا جس نے اپنا نام مظفر ساکن بارہمولہ بتایا، جس کا نمبر بھی میرے پاس ہے۔ اُس نے کہا کہ بھارت کے بڑے تجارتی گھرانے کشمیر میں مارے گئے لوگوں کو کروڑوں روپے دینا چاہتے ہیں، میں نے جواب دیا کہ ہندوستانی صنعت کار کیوں کر کشمیریوں کی تحریک آزادی کی مدد کریں گے، اس کے بعد وہ شخص دوبارہ میرے پاس لوٹ کر نہیں آیا۔ یاسین ملک نے کہا کہ بھارتی حکمران اور انکی جانبدار میڈیا ثابت کرنا چاہتا ہے کہ کشمیر میں سب کچھ زرخرید ہے ۔ ملک نے کہا کہ وہ آج بھی اپنی والدہ کے تین کمروں والے کچے مکان میں رہائش پذیرہیں اور بھارت کے حکمران اور انکی جانبدار میڈیا پورا زور لگاکر اُن کے خلاف ذرہ بھر کرپشن ثابت کردیں گے تو میں ہمیشہ کیلئے سیاست سے دستبردار ہوجانے کیلئے تیار ہوں۔انہوں نے کہا کہ دختران سربراہ آسیہ اندرابی کو جموں جیل بھیج دیا گیا ہے اور ان کا شوہر پچھلے 26سال سے جیل میں ہیں لیکن ان سے سوال پوچھا جارہا ہے کہ ان کے بچے کہاں ہیں؟،اسی طرح سید علی شاہ گیلانی، جنہوں نے اپنی پوری زندگی تحریک کیلئے وقف رکھی ہے اور میرواعظ جن کی بچی ابھی اسکول جانے کی عمر کی بھی نہیں ہوئی ہے، سے متعلق بھی باتیں کی جارہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں تحریک سے عشق ہے،اور تختہ دار کو چومنے سے نہیں گھبراتے۔