یہ امر قابلِ ستائش ہے کہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد میں دہشت گردی کے بعد نیوزی لینڈ ، آسٹریلیا، برطانیہ اور کینیڈا کی مساجد میں نمازوں کے اوقات کے دوران وہاں کے مرد و زن مساجد کا پہرہ دے رہے ہیں۔یہ گویا ایک پیغام ہے کہ ان ممالک میں مسلمانوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں اور مذہبی بنیاد پر نفرت یا تفرقے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اس سانحہ کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جننڈا آرڈرنی کے ردعمل کو بھی سراہا جا رہا ہے، جو سیاہ لباس اور دوپٹہ پہن کر مسلمان کمیونٹی کے پاس گئیں اور دلی دُکھ و تعزیت کا اظہار کیا۔انہوں نے سب سے اہم پیغام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دیا کہ وہ مسلمانوں کو اپنا سمجھیں اور انہیں تحفظ کا احساس دلائیں۔ نیوزی لینڈ میں ہونے والے دہشت گردی کے اس واقعہ نے مغرب کو بھی دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے ،صرف حکومت ہی نہیں، عوام کی سطح پر ایک بدلا ہوا بیانیہ نظر آ رہا ہے۔آسٹریلیا کے اس سینیٹر کو عوامی ردعمل کا سامنا کرتے سب نے دیکھا جس نے گھما پھرا کر دہشت گردی کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرانے کی کوشش کی تھی۔ ایک نوجوان نے اس کے سر پر گندہ انڈہ مار کر آسٹریلوی عوام کی اس سوچ کو آشکار کیا، جو وہ اس بیانیہ کے خلاف رکھتی ہے۔دہشت گردی کا یہ واقعہ جس انداز میں رونما ہوا اور جس طرح دہشت گرد نے اسے لائیو سٹریم کے ذریعے پوری دنیا کو دکھایا، اُس نے ان تمام راستوں کو بند کر دیاجو ماضی میں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند مغربی شہریوں کی دہشت گردی کے خلاف اختیار کئے جاتے تھے اور ذمہ داری بالآخر مسلمانوں پر ڈال دی جاتی تھی کہ ان کی مذہبی کشیدگی کے نتیجے میں ایسے واقعات ہو رہے ہیںکیونکہ یہ بہت آسان ہدف ہے کہ کسی مسلمان پر دہشت گردی کا الزام لگا دیا جائے۔ برطانیہ میں تو کچھ عرصہ پہلے تک ہر داڑھی والے نوجوان پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا تھا۔اُسے یا تو سفید فام بگڑے نوجوان نشانہ بناتے تھے یا پھر پولیس روک لیتی تھی اور سر عام سڑک پر اُلٹا لٹا کر تلاشی لی جاتی، جب کہ اس کے بیوی اور بچے بھی خوف زدہ کرنے والا یہ منظر بے بسی کے عالم میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہتے۔ یورپی و امریکی میڈیا نے ایک ایسا تصور دے دیا تھا ، جس میں مغرب کا ہر فرد امن پسند اور اسلام کا ہر پیرو کار دہشت گرد یا انتہا پسند ہو سکتا ہے۔اگر نیوزی لینڈ کا یہ سانحہ کسی اور انداز میں ہوا ہوتا، مسجد میں بم یا خود کش دھماکے سے تباہی مچائی گئی ہوتی تو ابھی تک یہی ٹیپ چل رہی ہوتی کہ مذہبی انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گردی کی لہر نیوزی لینڈ جیسے پُرامن ملک تک بھی پہنچ گئی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسلامی دنیا کو بڑھ چڑھ کر دھمکیاں دے رہے ہوتے، خود نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے بھی موجودہ بیانیہ سے ہٹ کر یہی کہنا تھا کہ مذہبی دہشت گردی کی جو لہر نیوزی لینڈ میں آئی ہے، اُسے کسی بھی طرح برداشت نہیں کریں گے اور دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جائے گا۔یہ تو سفاک دہشت گردکی وہ خوف ناک منصوبہ بندی ہے جس نے اہل مغرب کے منہ پر چپ کی مہر لگا دی اور ساتھ ہی اس خوف میں بھی مبتلا کر دیا کہ اس بڑے واقعہ کا ردعمل کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ اس کھلی دہشت گردی کے بعد کوئی متعصب انتہا پسند دانش ور، سیاست دان یا مغرب کا میڈیا چاہتا بھی تو اسے کوئی دوسرا رنگ نہیں دے سکتا تھا۔ سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک عیسائی گورا کس طرح نہتے نمازیوں کے تئیں درندگی کی انتہا کر رہا ہے۔ وہ اپنی دہشت پسندانہ سفاکی اس قدر دکھا رہا ہے جو لوگ گولیوں سے چھلنی ہو کر اس دنیا سے جا چکے ہیں، ان کے مردہ جسموں پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ کر رہا ہے۔ ایسا وہ بے خوف و خطر کر رہا ہے، حتیٰ کہ اس نے لائیو سٹریمنگ کے وقت وہ میوزک بھی لگا رکھا ہے جو صہیونی جنگوں سے منسوب ہے۔ دہشت پسندانہ ظلم و تشدد کی یہ تصویر اس قدر واضح تھی کہ مغرب کا چالاک اور شاطر ترین میڈیا بھی اسے کوئی دوسرا رنگ نہ دے سکا۔شروع میں مغربی میڈیا نے اسے بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کا نام دیا اور جان بوجھ کر اسے دہشت گردی قرار نہ دیا، مگر جب سوشل میڈیا اور دیگر آزاد نشریاتی اداروں نے اس واقعہ کو کھلی دہشت گردی کہنا شروع کیا تو آسٹریلوی درندے کے ساتھ بھی دہشت گرد لکھا جانے لگا۔نہتے، پُر امن اور عبادت میں مشغول مسلمانوں کو شہید ہوتے سب نے دیکھا۔ مزاحمت یا بچاؤ میں کوئی گولی چلی اور نہ بم گرا، جو اس امر کا ثبوت تھا کہ مسلمان اپنی عبادت گاہوں میں اسلحہ لے کر نہیں جاتے اور نہ ہی اُنہیں سوائے اللہ کےکسی بندےکا ڈر یا خوف لاحق ہوتا ہے۔ایک طرف مظلومیت و معصومیت کے تمام تر مظاہر تھے تودوسری طرف ایک جنگلی درندہ تھا جو قانون اور پولیس کے خوف سے ماورا انسانوں کو ایسے قتل کر رہا تھا، جیسے ان کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہ ہو۔
یوں کہنا چاہئے کہ اسلام سے ازلی دشمنی رکھنے والے انتہا پسند یہودیوں اور عیسائیوں کو پہلی بار یہ لگا کہ وہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔ اب کوئی ایسی دلیل یا تاویل موجود نہیں ، جسے استعمال کر کے وہ اس دہشت گردی کا ملبہ بھی مسلمانوں پر ڈال دیں۔ قاتل درندے کی چالاکی، شیطانی ذہنیت اور حد درجہ منصوبہ بندی نے یہ راستہ بھی بند کر دیا کہ اسے ذہنی بیمار یا پاگل قرار دے کر اس سنگین واقعہ پر مٹی ڈالی جا سکے۔یہ اللہ کا کرم ہے کہ پچاس بے گناہ مسلمانوں کی یہ شہادت مغرب کے اسلام کے خلاف یک طرفہ پروپیگنڈے کو پوری طرح بے نقاب کر گئی۔ عالمی سطح پر اسلام کو انتہا پسندوں کا مذہب کہنے والوں کی زبانیں گنگ ہو گئیں اور صہیونی استعمار کی اسلام کے خلاف انتہا پسندی آشکار ہو گئی۔دہشت گرد بریٹن در حقیقت اس نفرت کا نمائندہ ہے جو اسلام دشمن انتہا پسند قوتیں مغرب کی نوجوان نسل کے ذہنوں میں بھر رہی ہیں۔قاتل نے اپنی گنوں پر جو کچھ لکھوا رکھا تھا، وہ اس امر کا غماز ہے کہ اسے انتہا پسندی کا باقاعدہ کہیں سے درس ملتا رہا، اس کی ذہن سازی کی گئی اور بالآخر اسے یہ مشن سونپا گیا۔اس واقعہ کے بعد امریکہ، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ حتیٰ کہ سارا یورپ اس لئے مسلمانوں کے حق میں اُٹھ کھڑا ہوا کہ اس واقعہ نے اس لاوے کو بے نقاب کیا ہے جو یہود و نصاریٰ کی کوششوں سے اندر ہی اندر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پک رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مغربی ممالک میں اسلام جس تیزی سے پھیل رہا ہے اور مسلمانوں کی تعداد جس برقرفتاری سے بڑھتی جا رہی ہے، ان ملکوں کی سیاسی قوتوں کو کوئی مسئلہ نہ ہو، مگر وہ طاقتیں جو اسلام فوبیا کا شکار ہیں اور جنہیں ڈر ہے کہ اسلام اسی رفتار سے پھیلا تو یورپ کے کئی ممالک یا کئی ممالک کے اندر ان کے شہروں کی ہیئت اور تہذیب بدل جائے گی ،وہ اپنی جوان نسل میں انتہا پسندی کا بیج بو رہے ہیں اور بریٹن اس کی ایک بڑی نشانی ہے۔ شایدپہلی بار مغرب کو یہ احساس ہوا ہوگا کہ صرف مسلمانوں کی دہشت گردی کا پروپیگنڈہ کر کے اپنی غیر متوازن تہذیب کو نہیں بچایا جا سکتا، کیونکہ اس یک طرفہ بیانیہ کی وجہ سے خود مغرب کے اندر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی جنم لے رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ نے نائن الیون سمیت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے جو واقعات مسلمانوں سے منسوب کئے، وہ شواہد کے لحاظ سے ابھی تک کمزور ہیں، جب کہ مغرب نے مسلمانوں کے خلاف جو دہشت گردی شروع کر رکھی ہے، اس کے ثبوت سامنے آچکے ہیں، امریکہ اور یورپ نے اپنی مشترکہ حکمتِ عملی سے اسلامی ممالک پر جو قبضے کئے، دہشت گرد گروہوں کو سپورٹ کر کے جو قتل و غارت گری کرائی، وہ سب کے سامنے ہے۔
دنیا میں بڑی دہشت گردی اس وقت شروع ہوئی جب امریکہ اور یورپ نے عراق اور افغانستان میں قبضے کے لئے اپنی فوجیں اُتاریں، داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل کی، خود ہی دہشت گردی کو پرون چڑھا کر اسے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے ٹُول کے طور پر استعمال کیا۔اب اس کے اثرات مغربی نوجوانوں کے ذہنوں تک پہنچ گئے ہیں اور وہ مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھ کر ان پر حملے کرنے لگے ہیں ،تو اس میں قصور مسلمانوں کا ہرگز نہیں بلکہ اس انتہا پسندانہ بیانیہ کا ہے، جو کبھی امریکی صدر اور کبھی یورپ کے کسی ملک سے خاکوں اور کبھی اسلام کا مذاق اُڑانے کے حوالے سے سامنے آتا ہے۔نیوزی لینڈ کے سانحہ نے یک طرفہ انداز میں سوچنے والے مغرب کے حکمرانوں کو ایک ایسا موقع دیا ہے ، جسے اگر انہوں نے تبدیلی کے لئے استعمال نہ کیا تو انہیں جلد ہی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ آگ بھڑک اٹھی تو پھر اسے بجھانا ممکن نہیں رہے گا۔مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے جو مظاہرے ان ممالک میں عوامی سطح پر ہو رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں بھی اپنی پالیسی بدلیں اور صرف مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کا بیانیہ فوراً ترک کریں اور یاد رکھیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ، نہ کوئی زبان اور نہ کوئی جغرافیہ ۔ کرائسٹ چرچ کا واقعہ اس کی زندہ مثال ہے۔ ا س میں اہل دنیا کے لئے بھی پیغام ہے کہ وہ ہمہ وقت چوکنا رہیں ، آپسی بھائی چارے کو فروغ دیں ، مکالمے اور افہام وتفہیم کی حوصلہ افزائی کریں ، آپسی اختلافات ودر کر نے کے لئے یا شکوک و شبہات سے دامن بچانے کے لئے انسانیت کا پرچم ہر صورت تھامیں رکھیں ۔ یہی ایک صورت ہے جس سے عالمی دہشت گردی کو فنا کے گھاٹ اُتارا جاسکتا ہے ۔