سبدر شبیر
طلوعِ فجر سے پہلے کی وہ پرکیف خاموشی، جب ہر شے خوابِ غفلت میں ڈوبی ہوتی ہے، ہر گلی، ہر درخت، ہر انسان نیند کی چادر میں لپٹا ہوتا ہے، اُس لمحے میں مؤذن کی آواز گونجتی ہے: “الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ”
یہ آواز صرف اذان کا جملہ نہیں بلکہ ایک انقلابی پیغام ہے۔ ایک روحانی صدا ہے جو انسان کو جھنجھوڑ کر جگاتی ہے کہ اے نیند کے اسیر! بندگی کی راہ میں قدم رکھ، یہ لمحہ سونے کا نہیں جاگنے کا ہے، رَبّ کے قریب ہونے کا ہے۔
نیند انسان کی ایک فطری ضرورت ہے۔ جسم کو سکون دیتی ہے، دماغ کو آرام پہنچاتی ہے اور زندگی کے سفر کے لیے توانائی مہیا کرتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا نیند ربّ کی ملاقات سے زیادہ قیمتی ہے؟ جب فجر کا وقت آتا ہے تو یہ سوال ہر انسان کے دل میں جنم لیتا ہے، چاہے شعوری طور پر ہو یا لاشعوری طور پر۔ یہی وہ وقت ہے جب انسان کو اپنے اندر کے غلام اور عاشق کے درمیان انتخاب کرنا ہوتا ہے آرام کی خواہش یا رَبّ کی پکار؟
“الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِِ” ایک فیصلہ ہے۔ ایک دعوتِ انتخاب ہے جو بتاتی ہے کہ انسان صرف جسم نہیں، وہ روح بھی ہے اور روح کی غذا نیند نہیں، نماز ہے۔ فجر کا وقت اس روحانی غذا کا پہلا نوالہ ہے جو پورے دن کے لیے انسان کی روح کو تازگی دیتا ہے۔
مگر یہ غذا صرف اُنہیں ملتی ہے جو اپنی خواہشات پر بندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ جو گرم بستروں سے نکل کر وضو کی ٹھنڈک کو قبول کرتے ہیں، وہ جو نیند کی میٹھی زنجیروں کو توڑ کر سجدے کی لذت کو چکھتے ہیں۔
یہ اعلان گویا کائنات کی صبح کا پہلا پیغام ہوتا ہے کہ بندگی نیند سے افضل ہے۔ یہ اعلان ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم دنیا میں محض جسمانی آرام کے لئے نہیں بھیجے گئےبلکہ ہماری تخلیق کا مقصد خالق کی عبادت ہے۔ نماز صرف ایک عمل نہیں، یہ رَبّ سے ملاقات ہے، روح کا سکون ہے اور دل کی قرار ہے۔
آئیے ذرا تصور کریں کہ ایک نوجوان جو دیر رات تک کام کرتا ہے یا ایک ماں جو ساری رات اپنے بچے کی نگہداشت میں مصروف رہی یا ایک بزرگ جس کے جوڑ دُکھتے ہیں، یہ سب اگر مؤذن کی صدا پر جاگ کر نماز کے لیے کھڑے ہوں، تو کیا یہ رَبّ کی بارگاہ میں کوئی معمولی عمل ہے؟ ہرگز نہیں۔
ان کا یہ عمل فرشتوں کی فہرست میں سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے۔ ان کی نیند پر قربانی رَبّ کے ہاں محبوب بن جاتی ہے اور ان کے سجدے آسمانوں تک بلند ہوتے ہیں۔
حدیث ِ مبارکہ ہے کہ فجر اور عشاء کی نماز منافق پر سب سے زیادہ گراں گزرتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ وہ نمازیں ہیں جو یا تو نیند کے وقت آتی ہیں یا دن کے اختتام پر، جب جسم تھکا ہوتا ہے۔ اسی لئے فجر کی اذان میں اس خصوصی اعلان کا اضافہ کیا گیا: ’’الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘۔ تاکہ اہلِ ایمان کو یاد رہے کہ بندگی ہر حال میں مقدم ہے اور یہی ایمان کی اصل روح ہے۔
یہ جملہ ہمیں ہماری ترجیحات کا محاسبہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہم اپنی دنیاوی ذمہ داریوں کے لیے وقت نکال لیتے ہیں، نیند، کھانا، ملازمت، ملاقاتیں سب کچھ طے شدہ ہوتا ہے۔ مگر کیا ہم نے رَبّ کے ساتھ ملاقات کے لیے بھی کوئی وقت مقرر کیا ہے؟ جب ہم نیند کو ترجیح دیتے ہیں تو گویا ہم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ رَبّ کی یاد سے زیادہ ہمارے جسم کا آرام ضروری ہے۔
“الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ” صرف ایک اعلان نہیں بلکہ ایک فلسفہ ہے۔ یہ فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے کہ روحانیت صرف ذکر و اذکار کا نام نہیں بلکہ عمل، ترجیح اور قربانی کا نام ہے۔ جب ہم فجر کے وقت اپنی نیند کو قربان کرتے ہیں تو یہ ایک عملِ عشق ہے، جو بندے کو رَبّ کے قریب لے جاتا ہے۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں:’’جو شخص فجر کی نماز پر قائم ہے، اس کے دل میں نور بستا ہے اور جس دل میں نور ہو، وہ دن کی تاریکیوں میں بھی روشنی ڈھونڈ لیتا ہے۔‘‘گویا فجر کی نماز انسان کو دن بھر کی روحانی و اخلاقی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس کا ہر سجدہ، ہر تسبیح، دن کے طوفانوں میں کشتی بن جاتی ہے۔
آج کے انسان کو اس نِدا کی اشد ضرورت ہے۔ ہم جس دور میں جی رہے ہیں، وہ غفلت، سستی اور دُنیا پرستی کا دور ہے۔ ہماری نیند بڑھتی جا رہی ہے اور نمازیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ ہماری توجہ موبائل الارم پر ہے، مگر مؤذن کی صدا پر نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو جگائیں اور دوسروں کو بھی۔ “الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ” کو صرف اذان کی آواز نہ سمجھیں بلکہ زندگی کا پیغام بنائیں۔
آخر میں یہ یاد رکھیں کہ ایک دن آئے گا جب ہماری آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گی اور ہماری نیند ختم ہو جائے گی، تب صرف وہی نمازیں ہمارے ساتھ ہوں گی ،جن کے لیے ہم نے نیند کو قربان کیا ہوگا۔تو اے نفس! جاگ جا، کیونکہ رَبّ پکار رہا ہے۔الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ۔’’نماز نیند سے بہتر ہے!‘‘
[email protected]