کیوں انور صاحب! آج آپ نے پھر کتابیں پڑھنی شروع کردیں۔کتنی بار میں نے کہا ہے کہ آپ کو بس آرام کی ضرورت ہے۔جب تک نہ آپ کی صحت ٹھیک ہوگی تب تک خدا را آپ کتابوں کی دنیا سے دور رہیے۔ڈاکٹر کی باتیں سن کر انور صاحب دل ہی دل میں مسکرائے اور کتاب پھر ہاتھ میں اُٹھائی۔
ابا آپ ڈاکٹر صاحب کی باتوں کا مان کیوں نہیں رکھتے، خورشید نے نہایت ہی اب کے ساتھ انور صاحب کو کہا۔کل کلوں اگر آپ کو کچھ ہوا تو ہم جیتے جی مر جائینگے۔پھر آپ کا یہ گھر، جس کو کتاب گھر کہنا مناسب ہوگا، گھر نہیں لگے گا اور یہ کتابیں سدا بند الماریوں کے شیشوں سے جھانکتی رہیں گی۔ انور صاحب نے ایک آہ بھر کے کتاب بند کردی اور بیٹے سے مخاطب ہوا۔ خورشید میں کیا کروں۔ مجھ سے ایک پل بھی جیا نہیںجاتا ان کتابوں کے بغیر۔ نہ دن کو چین اور نہ رات کو قرار آتا ہے۔ عجیب لت لگی ہے ان کی۔کچھ اور بولنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ کھانسی کا دورہ پھر شروع ہوا اور اُس کے بعد گویا خود سے ناراض ہو کر وہ دیواروں اور بند الماریوں کی طرف دیکھنے لگے۔
صبح جب انور صاحب کی اہلیہ چائے لے کر کمرے کی طرف گی اور کئی بار دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد جب اندر سے نہ کھانسنے کی اور نہ ہی اندآئو کی آواز آئی تو گھبراکر دروازہ کھولتے ہی اُس کے منہ سے ایک زوردار چیخ نکلی۔سب گھر والے چیخ سن کر کمرے کی طرف دوڑے۔آج ا نور صاحب آنکھیں کھولے گہری نیند میں سوئے ہوئے تھے اور ہاتھ میں ایک پرچی تھی جس پر لکھا تھا۔
پیارے خورشید۔
تم کہتے تھے نا میں کتابوں سے دور رہ کر صرف آرام کروں لیکن مجھے آج وہی محسوس ہو رہا ہے جو میرے روحانی اُستاد کوکھبی محسوس ہوا تھا ۔بیٹا میں نے اپنے جسم پر بہت ستم ڈھائے ہیں ۔میں نے ان ہڈیوں پر کبھی ترس نہیں کھایا۔اپنی آنکھوں کو نیند کی فطری ضرورت سے محروم رکھا۔یہ سونا چاہتی تھیں مگر میں پڑھنا چاہتا تھا۔یہ آنکھیں مجھ سے انتقام لے رہی ہیں۔اب میں سونا چاہتا ہوں لیکن یہ بند ہونے کا نام نہیں لیتیں۔میںنے ان میں جاگنے کی ایسی عادت ڈال دی ہے کہ یہ سونے پر آمادہ ہی نہیں ہوتیں۔۔۔
خورشید نے روتے اور سسکتے ہوئے ابا کی کھلی آنکھیں بند کر کے کہا ابا! میرے پیارے ابا!چین کی نیند سو جا اب! اورپھر اچانک دیوانوں کی طرح زور زور سے بس یہ آوازیں دینے لگا کوئی ابا کو جگانا نہیں، کوئی ابا کو جگانا نہیں۔
کشمیر یونیورسٹی سرینگر