واقعی تم آؤو گے نا؟ میرے لیے ۔! تمہیں ہو کیا گیا ہے؟کل سے تم صرف ان ہی الفاظ کی رٹ لگائے بیٹھی ہو۔ایسی اناپ شناپ باتیں منہ سے نہ نکالو ۔اٹھو اور مجھے چائے دو مجھے دیر ہو رہی ہے۔میں اتنی ضروری باتیں کر رہی ہوں اور آپ کو چائے کی پڑی ہے۔آخر نیلم تم مجھے کہاں آنے کے لیے کہہ رہی ہو ۔نیلم کا قہقہ اس قدر زور سے پڑا کہ اطہر کو کچھ دیر کے لیے لگا کہ جیسے کسی نے اس کے گھر میں بم داغا ہو۔میں مذاق کر رہی ہوں ،دیکھا کس طرح تمہارے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔تم بھی نا ۔۔۔۔کبھی نہیں سدھرو گی۔
آج میں کام سے تھوڑا Late آؤں گا۔ میں ایک دوست کے یہاں اُ سے دیکھنے جا رہا ہوں۔تم کھانا کھا لینا میرا انتظار نہیں کرنا۔فیاض معمول سے آج کچھ زیادہ ہی پہلے نکل گیا ۔آفس پہنچ کر وہ اپنے کام میں مگن ہو گیا ۔اُس کے ذہن میں دوست کے یہاں جانے کی بات گونج ہی رہی تھی کہ گلزار اجازت لے کے اندر داخل ہوا۔سر آپ کو فون آیا ہیڈ آفس سے؟ نہیں تو ۔۔کیوں ؟ وہ ندیم سر کہہ رہے تھے کہ آج ہمیں ایک بجے کے بعد ہیڈ آفس جانا ہے ۔لیکن کیوں؟ ہمیں تو کل سے کوئی بھی پیغام نہیں ملا۔چلو ٹھیک ہے میں یہ کام ختم کر کے ہیڈ آفس پہنچ جاؤں گا۔
پتہ نہیں نیلم صبح صبح کس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھی،آخر اُ سے ہو کیا گیا تھا۔ آج وہ جس حال میں ہے شاید تبھی اُس کے من میں اس طرح کے عجیب و غریب خیالا ت آرہے ہیں۔واقعی دادی سچ ہی کہا کرتی تھی کہ اس حالت میں عورت طرح طرح سے تبدیل ہو رہی ہوتی ہے۔اُس پر سب سے پہلے بدلاؤ کا اثر اُس کے جسم سے ہی شروع ہوتا ہے۔پھر اُس میں جو جو بدلاؤ آتے ہیں اُن سے تو خدا ہی حافظ ہے۔آخر میں بھی تو دو بہنوں کا بھائی ہوں نیلوفر اور خوشبو کا ۔مجھ پہ بھی تو یہ راز عیاں ہونا چاہیے کہ اس حالت میں ایک عورت کا مزاج کس طرح تبدیل ہو جاتا ہے۔بھیا آپ میرے لیے املی لایئے ،نا نا املی نہیں آپ نا میرے لیے گلاب جامن لایئے ۔ہاں ہاں لاتا ہوں، بھائی یہ کیا لائے آپ ۔۔آپکو املی لانی تھی۔لیکن تم ہی نے تو بولا کہ اب گلاب جامُن لانا۔دیکھو فیاض بیٹا تم نیلوفر کی باتوں کا بُرا نہ مانو۔دراصل ابھی وہ ایسے دور سے گزر رہی ہے، جو اُس نے اس سے پہلے نہیں دیکھا۔
سر چلئے دیر ہوگئی۔ہاں ہاں چلو۔ویسے آپ کن خیالوں میں کھوئے تھے۔کچھ نہیں وہ میں گھر کی باتوں میں تھوڑا کھو گیا تھا۔چلو چلو گلزار ۔ہیڈآفس کی راہ لیتے ہیں ۔ہم ویسے بھی تھوڑا late ہیں ۔آج یہ کس طرح کی بھیڑ ہے راستے میں؟فیاض نے کھڑکی سے ایک شخص کو اشارہ کر کے پوچھا ۔آج نا یہاں منسٹر صاحب آنے والے ہیں اور اُن کے آنے سے ہمارے ساتھ ساتھ شہر کے بھی بہت سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔چھوٹے قد والا آدمی اپنے رومال سے پسینہ پونچھتے ہوئے بولا۔
سر جی مجھے لگتا ہے کہ ہم کسی دوسرے راستے سے یا پیدل چل کر ہیڈ آفس جائیں گے گلزار اپنے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتے ہوا بولا۔ارے نہیں اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے ،ابھی یہ بھیڑ تھم جائے گی فیاض نے گلزار کو کرخت لہجے میں جواب دے کر بولا۔ٹھیک ہے سر جی آپ جیسا مناسب سمجھیں۔گلزار نے دانٹ پیس کر جواب دیا۔ پیہم کوشش کے بعد بھی ان کی گاڑی وہیں پڑی تھی۔ ایک گھنٹے کا مسلسل انتظار آج واقعی ایک سال کے انتظار کے برابر لگ رہا تھا۔مجھے لگتا ہے گلزار ہم یہ گاڑی یہی پاس کسی گھر میں رکھتے ہیں اور پیدل ہیڈ آفس کی راہ لیتے ہیں ۔ابھی ہمارے پیچھے کوئی گاڑی بھی نہیں ہے ورنہ چند منٹوں کے اندر اند ر ہم اس فیصلے کے بھی قابل نہیں رہیں گے۔جی سر جیسا آپ ٹھیک سمجھیں۔
دونوں اب میٹنگ کے لیے پیدل چلے گئے۔شکر اللہ کا وقت پر عقل نے ساتھ دیا ورنہ ہم تو آج کی میٹنگ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوتے۔واقعی مصیبتیں کبھی کبھار ایک ہی ساتھ آن پڑتی ہے ۔جیسے ان مصیبتوں میں مقناطیسی کشش ہوتی ہے ایک مصیبت ابھی سمجھ نہیں آتی ہے کہ دوسری بھی اس کے پیچھے آن پڑتی ہے۔
سر آپ کا فون بج رہا ہے ۔ہاں ہاں وہ نا میں ابھی بھی شاید میٹنگ کے خیالوںمیں ہی ہوں ۔فون نکالتے ہوئے جوں ہی فیاض نے بٹن دبایا ،علیک سلیک سے پہلے ہی آوازیں بارش کی طرح آنے لگی،سر وہ نا نیلم میم صاحبہ دردِ زِہ سے پچھاڑیں کھا رہی ہے،وہ صرف اور صرف آپ کا نام لے رہی ہے ،آپ جلدی آیئے اور انہیں اسپتا ل لے جایئے ۔ہاں ہاں میں آیا ،بس تھوڑی دیر انتظار کرو۔۔ میں آتا ہوں۔
چلو گلزار جلدی سے وہ میری نیلم بیمار ہے ۔ مصیبت کے وقت راستہ واقعی لمباہو جاتا ہے ۔چلو چلو گلزار ان گھر والوں کے یہاں سے گاڑی جلدی واپس لاتے ہیں اور گھر سے نیلم کو اسپتال کی طرٖ ف لے کر جاتے ہیں۔فیاض ابھی گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ جمِ غفیر اکھٹا ہوگیا۔ارے یہ بھیڑ پھر سے کہاں سے آگئی۔شاید سر منسٹر صاحب کو واپس اسی راستے سے آجانا ہے۔اب تو گاڑی چھوڑ کر بھی نہیں جاسکتے ،ایک تو گلزار تمہیںگاڑی چلانا نہیں آتی اور دوسرا ہماری گاڑی کے پیچھے بہت ساری گاڑیاں جمع ہو گئی ہیں۔سر آپ نکالیے اسی راستے سے گاڑی جہاں سے پولیس کی گاڑی نکلی۔۔ہاں ہاں ،گاڑی بیچ میں سے ایک الگ راہ کی اور نکالتے ہوئے جوں ہی پولیس والے نے دیکھا ایک منٹ میں جیسے کسی نے اُس پہ لوہے سے وار کیا ہو۔کیا ہوا آپ کو دکھتا نہیں یہ الگ راستہ صرف افواج کی گاڑیوں کے جانے کے لیے ہے، لیکن سر میں بھی بہت مجبور ہوں ،دراصل میری بیوی بہت بیمار ہے اگر میں وہاں نہیںپہنچا تو میں شاید اُس سے کبھی بات نہیں کر پاؤں گا۔دیکھئے بھائی صاحب آپ سے پہلے بھی دو آدمیوں نے یہی بہانہ بنایا۔سر میں کوئی بہانہ نہیں بنا رہا آپ میرے ساتھ آکے خود دیکھ لیں ۔
پھر تو ہماری نوکری رہ گئی اگر ہم سب لوگوں کی مشکلات کا ملاحظ کرنے اُن کے گھر جائیں۔ پولیس والے نے کرخت لہجے میں فیاض کو چُپ کرایا۔
انتظار کرو دس منٹ کی ہی تو بات ہے پھر تم چلے جانا ،منسٹرصاحب یہاں سے گزر جائیں گے پھر تم بیوی کے پاس تو کیا سسرال بھی جانا چاہو تو جا سکتے ہو۔اس بحث میں ایک گھنٹہ گزر گیا۔وقت انگلیوں میں سے ریت کی طرح گزر گیا اور شام نے بھی اپنی آمد کی خبر دینی شروع کی۔فون کی گھنٹی دوبارہ بجتی رہی ۔۔سر جی سر جی وہ میم صاحب ۔۔۔کیا ہوا فاطمہ میم صاحب کو ۔وہ ٹھیک تو ہے نا؟ سر جی ہم نے انہیں رکشے میں اسپتا ل پہنچایا لیکن ۔۔لیکن ۔۔کیا مطلب، فاطمہ جلدی سے بتاؤ، میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔ڈاکٹر وں کا کہنا ہے کہ اگر اسے آدھا گھنٹہ پہلے لایا گیا ہوتا تو دونوں جانیں بچ سکتی تھیں لیکن بد قسمتی سے ہم ایک جان بھی نہیںبچا سکے۔
فاطمہ ایسا نہیں ہوسکتا ۔بولو فاطمہ کہ تم نیلم کے کہنے پر مجھ سے مذاق کر رہی ہو۔بو لو بولو۔نیلم کو کچھ نہیں ہوسکتا ،وہ نہیں مر سکتی،سر جایئے راستہ صاف ہوگیا ۔۔۔اب آپ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔گاڑی تیز چلاتے ہوئے میں نیلم کے پاس اسپتا ل جانے لگا۔اٹھو نیلم تم ایسا نہیں کر سکتی ۔تم مجھے اس دنیا میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی۔اٹھو ۔۔اٹھو۔۔سر میڈم جی اب کبھی اُٹھ نہیں سکتیں۔اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے میں آخری بار نیلم کا چہرہ دیکھنے لگا۔نیلم آج پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔نیلم کا معصوم چہرہ مجھ سے وہی مذاق کر رہا تھا اور یہی بات دوبارہ مجھ سے پوچھ رہا تھا جو صبح صبح نیلم نے مجھ سے کہی تھی۔’’تم آؤ گے نا ۔۔میرے لیے‘‘
���
بارہمولہ ، کشمیر
ریسیرچ اسکالر شعبہ اردو سینٹرل یونی ور سٹی آف کشمیر
ای میل:۔[email protected]